ماہر القادری نعتِ: خاتم الانبیاء، رحمتِ دو جہاں، حامیِ بیکساں، شافعِ عاصیاں

خاتم الانبیاء، رحمتِ دو جہاں، حامیِ بیکساں، شافعِ عاصیاں
نورِ کون و مکاں، نازِ روحانیاں، غیرتِ قدسیاں، فخرِ پیغمبراں

جس کے اخلاق کی ہر طرف ہے مہک، جس کے جلووں کی ارض و سما میں چمک
جس کا انصاف محکم ہے اور بے لچک، جس کی تعلیم انسانیت کی زباں

جس نے صحرا نشینوں کی تہذیب کی، جس نے اوراقِ فطرت کی ترتیب کی
جس نے حق کے صحیفوں کی تصویب کی، جس نے علم و عمل کو کیا ہم عناں

جس کے وصفِ صباحت میں گرمِ سخن لالہ و گل، حنا، یاسمیں ، نسترن
روئے اقدس سے کرتے ہیں کسبِ ضياء، انجم و ماہ، قوسِ قزح، کہکشاں

جہل کی ظلمتیں سب گریزاں ہوئیں، علم و حکمت کی شمعیں فروزاں ہوئیں
آدمیت کی قدریں نمایاں ہوئیں، جاہلوں کو کیا رشکِ اشراقیاں

ذات پر جس کی اتمامِ نعمت ہوا، ساتھ ہی ختم دورِ نبوت ہوا
ہر شرف آپ ہی کو ودیعت ہوا، قاسمِ کوثر و سلسبیل و جناں

جس کی چادر میں پیوند دیکھے گئے، جس نے دکھ بھی سہے، جس نے فاقے کیے
جس نے سب کچھ کیا آدمی کے لیے، جس کے دامن میں ملتی ہے امن و اماں

غزوۂ بدر و خیبر کے میرِ سپاہ! تیری ٹھوکر میں ہیں تاج و تخت و کلاه
تیغ کے ساتھ ہی ضربتِ لا الہ، فتح و نصرت نے دی بت کدوں میں اذاں

کور چشموں کو اہلِ نظر کر دیا، راہزن تھے انہیں راہبر کر دیا
جس نے تاریکیوں کو سحر کر دیا، ہو گئے ریگ زاروں سے چشمے رواں

بحرِ جود و سخا، كانِ بذل و عطا، جس کا شیوہ رہا فیض و مہر و وفا
طاقتِ بیکساں، قوتِ بے نوا، جس کا دستِ کرم ابرِ گوہر فشاں

دین مربوط بھی ہے، مسلسل بھی ہے، دین کامل بھی ہے اور مکمل بھی ہے
حرفِ آخر بھی ہے، قولِ فیصل بھی ہے، دین ہی سے حقائق ہوئے ہیں عیاں

جس کا پیغام، پیغامِ توحید تھا، کوئی حاجت روا ہے نہ مشکل کشا
صرف تنہا خدا، صرف تنہا خدا، ہے وہی کارساز اور وہی غیب داں

اے نویدِ مسیحاؑ، دعائے خلیلؑ! آبروئے سخن تیرا ذکرِ جمیل
تو کہ خود ہے صداقت کی روشن دلیل، تیرا نقشِ قدم زندگی کا نشاں

٭٭٭
ماہر القادریؒ
 
Top