احمد ندیم قاسمی نظم - یہ رات - احمد ندیم قاسمی

بنگش

محفلین
دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں

یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آ‏ئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا

اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں
 
Top