نظم - صحارا

زیف سید

محفلین
ابھی چوتھا درویش اپنی کہانی سنا ہی رہا تھا کہ یک لخت ہی پانچویں کھونٹ سے ایک جوگی برآمد ہوا اور الاؤ کے نزدیک جا، آلتی پالتی مار کر بیٹھ کے اور گلا صاف کرکے یہ کہنے لگا:
چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے، اور اس دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے۔
سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں
سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔
اک اعزاز حاصل تھا اس کوکہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔
یہ یکتا، یہ تنہا شجر سال ہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔
جب بھی کبھی “آغادِیز“ اور “بِلما“ قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے، اپنا پسینہ سکھاتے تھے۔
یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فِنجانوں سے چسکیاں لےکے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔
مگر رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضان سے بہرہ ور ہو گیا، اور اب اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔
اور اک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا ہمارے اکیلے شجرکے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہییں چل دیا۔
اور اگلے سویرے وہاں سے “طراقی“ قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقین ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔
یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کُرہ اپنےگھیرے میں لپٹا چکا ہے، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے!
 

الف عین

لائبریرین
لاجواب (وارث کے سٹائل میں)۔ مبارک ہو زیف۔ بھائی یہ اپنا سارا کلام یک مشت بھیج دو، یا پھر وہ پوستین ہی بھیج دیں جس سے یہ برامد ہوا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اصلاح۔۔ کرہ در اصل مشدد ہے، بر وزن فعلن، یہاں بر وزن فعو نظم ہوا ہے۔ اس حصے کو یوں کر دیں۔
چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سارے کُرے کو ہی اپنےگھیرے میں لپٹا چکا ہے (مثال کے طور پر، اگرچہ اس ’اصلاح‘ میں بھی ‘ہی‘ زائد ہے)
اس پر اختر الایمان کی اسی قسم کی نظم یاد آ رہی ہے، جو یوں شروع ہوتی تھی۔۔۔
یہی پیڑ تم جس کے نیچے کسی کے لئے چشم نم ہو ، یہاں اب سے کچھ سال پہلے مجھے ایک لڑکی ملی تھی جسے میں نے ہنس کر یہ پوچھا تھا ‘لالی!‘۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نظم کسی جریدے میں پڑھی تھی، لیکن بعد میں ’بنت لمحات‘ اور ایک اور مجموعے میں (نام یاد نہیں آ رہا) نہیں مل سکی۔ کیا کہیں نیٹ پر دستیاب ہے فرخ (یہ تمہارا ہی سپیشلائزیشن ہے کہ نایاب اشیاء ڈھونڈ نکالتے ہو۔)
 

زیف سید

محفلین
جناب اعجاز صاحب

نظم کی پسندیدگی کا شکریہ۔ یہ نظم پوستین والی نہیں ہے بلکہ شائع ہو چکی ہے۔


ایک اصلاح۔۔ کرہ در اصل مشدد ہے، بر وزن فعلن، یہاں بر وزن فعو نظم ہوا ہے۔ اس
حصے کو یوں کر دیں۔
چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سارے کُرے کو ہی اپنےگھیرے میں لپٹا چکا ہے (مثال کے طور پر، اگرچہ اس ’اصلاح‘ میں بھی ‘ہی‘ زائد ہے)

لفظ کرہ میں تشدید نہیں ہے، میں نے تصدیق کر لی تھی۔ نظم لکھتے وقت یہ سطر یوں لکھی گئی تھی:

’۔۔۔دائرہ سارے کرّے کو گھیرے میں لپٹا چکا ہے۔‘

مگر بعد میں لغات دیکھنے کے بعد مجبوراً سطر تبدیل کرنا پڑی۔ تاہم آپ نے بالکل صحیح جگہ انگلی رکھی ہے، میں خود بھی اس سطر کی بنت سے مطمئن نہیں ہوں، لیکن دھرتی کا لفظ دہرانا بھی نہیں چاہتا۔سوچنا پڑے گا۔

آداب عرض ہے

زیف
 
Top