ابن انشا نظم- سند باد آج تو ہمراہ مجھے بھی لے چل(انشاء جی)

سند باد آج تو ہمراہ مجھے بھی لے چل

سند باد آج تو ہمراہ مجھے بھی لے چل
دل جو بہلا تو خیالوں ہی میں اپنا بہلا
میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل
لے کے چلتا ہوں خیالوں کا سفینہ اپنا
جاہیں نکلیں گے کسی شہر میں آج نہ کل

شور غل شہرر کا مدھم ہوا ، پھر ڈوب گیا
آج بستی سے بہت دور نکل آیا ہوں
ظلمت شام نے دھندلا دیے دشت و دریا
سوچتا ہوں کہ سرائے کو ابھی لوٹ چلوں

خواب آلود ہے دجلہ کے سواحل کا جہاں
پھیلے جاتے ہیں پراسرار دھندلکے ہر سو
خنکیاں وسعت صحرا میں ہوئیں بال فشاں
سوندھی سوندھی سی یہ آتی ہے کہاں سے خوشبو

پرلے سھل پہ مچھیروں کی کسی بستی میں
جاگتے جاتے ہیں مٹی کے تنک تاب دئیے
کوئی دم جاگ کے تھک کے سو جائیں گے
کون اس رات کو پایان سحر تک پہنچائے

زرد رو چاند تھکے ہارے مسافر کی طرح
منزل دور کی راہوں کے تصور سے اداس
مطلع شوق سے ابھرا ہے پریشاں حیراں
دشت ویراں میں کھجوروں کے کسی جھنڈ کے پاس

دن مشقت میں کٹیں ، راتیں ستارے گنتے
صبحیں آئیں غم تازہ کے سندیسے لے کر
روح بے مہری اوقات کا محور ہی رہے
جانے کب تک ہے یہی سلسلہ شام و سحر

شاہزادوں ہی کی جاگیر ہیں سارے انعام
اپنی قسمت ہے فقط خار کشی محرومی
کچھ اسی دور میں دیکھا ہے یہ رنگ ایام
زندگی پہلے زمانوں میں تو دشوار نہ تھی


انشاء جی
 
Top