سلیم کوثر نظم - سندیسہ - سلیم کوثر

زینب

محفلین
ہمارے پاؤں میں‌جو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑٹے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درلب بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میں‌ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آیئنے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوں‌کو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آکر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموں‌کے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
ورافتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں
 

فاروقی

معطل
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں

میں نے آپکا پیغام تو انہیں دے دیا تھا۔۔۔۔۔پر مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔:grin:
بہر حاک خوصلہ رکھیئے گا آج میں جب چھٹی کر کے گھر جاوں گا تو ایک دفعہ پھر یاد دہانی کروا دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔:laugh:
 

زینب

محفلین
کوئی فیدہ نیئں جی آپ پاکستان میں ہیں جب کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:pاپ کی خدمات کی ضرورت نہیں شکریہ
 

جیا راؤ

محفلین
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درلب بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میں‌ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آیئنے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوں‌کو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں



واہ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت !
شئیر کرنے کا بہت شکریہ زینب۔۔۔ :):)
 

شمشاد

لائبریرین
زینب اور شعر و شاعری۔ اللہ خیر کرے، دماغ پر کوئی اثر لگتا ہے۔

ویسے بہت اچھی نظم شریک محفل کی ہے۔
 

martialazam

محفلین
ہمارے پاؤں میں‌جو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑٹے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درلب بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میں‌ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آیئنے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوں‌کو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آکر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموں‌کے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
ورافتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں
 

فرخ

محفلین
بہت خوب۔
مگر یہ آخر میں تھوڑی سی نامکمل ہے۔ آخری مصرعے کچھ یوں ہیں:
اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے
کہ اب کی بار شاید
اپنی باری ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
خاکسار کے پاس سلیم کوثر کی دو کتابیں کہیں موجود ہیں اور ایک میں اُن کا منظوم دیباچہ بھی بہت اچھا ہے جسے کتاب میں نثر کی شکل میں لکھا گیا ہے، شاید آپ اُس کی بات کر رہے ہیں۔
 
Top