نظم: رہ گزاروں پہ نہ جانا لوگو

رہ گزاروں پہ نہ جانا لوگو
رہ گزاروں پہ لہو تاباں ہے
جاں نثاروں کا لہو
جاں نثاروں کا لہو پوچھے گا
ہم نے جو شمع فروزاں کی تھی
اس پہ کیوں آج دھواں رقصاں ہے
گھر سے جو تیغ و کفن لے کے چلا
کیوں سرِ کوئے بُتاں رقصاں ہے

رہ گزاروں پہ نہ جانا لوگو
رہ گزاروں پہ لہو تاباں ہے
شہ سواروں کا لہو
شہ سواروں کا لہو پوچھے گا
قافلہ سوئے حرم تھا جو رواں
کیوں سرِ بزمِ جہاں رقصاں ہے
ہم نے جس خون سے دھرتی کو تراوٹ بخشی
جام بن کر کے وہ کیوں پیشِ مُغاں رقصاں ہے

رہ گزاروں پہ نہ جانا لوگو
رہ گزاروں پہ لہو تاباں ہے
شیر خواروں کا لہو
شیر خواروں کا لہو پوچھے گا
ہم نے جن غنچوں کو سرخی سونپی
ان پہ کیوں بادِ خزاں رقصاں ہے
ہم تھے جس قوم کی جرأت کے نقیب
اس پہ کیوں آہ و فغاں رقصاں ہے

رہ گزاروں پہ نہ جانا لوگو
ورنہ قدموں سے سوالات لپٹ جائیں گے
خوں میں ڈوبے ہوئے حالات لپٹ جائیں گے
رہ گزاروں پہ کڑا سناٹا
اور افسردہ نشیں خاموشی
رہ گزاروں سے گزرنے والو
یوں تو ہرگز نہ گزرنے دے گی

احمد حاطب صدیقی
 
Top