نظم (رند)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

اس سے پہلے کہ زندگی کے غم
درد سہنے کی حد سے ہوں باہر
اس سے پہلے کے نبض رُک جائے
رت جگے میں وہ تھام کے ساغر
بادہ نوشی میں ڈُوب جاتا ہے
ہو کے مدہوش چند لمحوں میں
سارے آلام بھول جاتا ہے
گرچہ امکان یہ ہے پینے میں
وہ بلا نوش ہی نہ بن جائے
اس طرح وہ شراب پی پی کے
نہ کہیں جان سے گذر جائے
وہ مگر پھر بھی یہ سمجھتا ہے
ایسے جینے سے تو وہ مر جائے
کیوں نہ جانے یہ سارے لوگ اسے
درد کی آگ میں جلاتے ہیں
وہ بجائے دلاسہ دینے کے
رند کہہ کر اسے بلاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اس نظم کا فارمیٹ کچھ عجیب سا ہے ۔ پہلے چار مصرعے باہر اور ساغر کے قوافی کے ساتھ ایک بند بناتے ہیں۔ اسی طرح آگے گزر جائے، مر جائے بھی ایک اور بند کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر بن جائے والا مصرع نہیں ۔آخری چار مصرعے بھی بند لگتے ہیں مگر بلاتے اور جلاتے قوافی درست نہیں ، ب ااور ج پر حرکات مختلف ہیں ۔ فارمیٹ درست ہونے کے بعد دیکھتا ہوں ۔ کیونکہ یہ آزاد نظم نہیں، معریٰ نظم ہےاس لئے کچھ پیٹرن پیدا کرنا بہتر ہو گا
 
اس نظم کا فارمیٹ کچھ عجیب سا ہے ۔ پہلے چار مصرعے باہر اور ساغر کے قوافی کے ساتھ ایک بند بناتے ہیں۔ اسی طرح آگے گزر جائے، مر جائے بھی ایک اور بند کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر بن جائے والا مصرع نہیں ۔آخری چار مصرعے بھی بند لگتے ہیں مگر بلاتے اور جلاتے قوافی درست نہیں ، ب ااور ج پر حرکات مختلف ہیں ۔ فارمیٹ درست ہونے کے بعد دیکھتا ہوں ۔ کیونکہ یہ آزاد نظم نہیں، معریٰ نظم ہےاس لئے کچھ پیٹرن پیدا کرنا بہتر ہو گا

اس سے پہلے کہ زندگی کے غم
درد سہنے کی حد سے ہوں باہر
اس سے پہلے کے نبض رُک جائے
رت جگے میں وہ تھام کے ساغر
بادہ نوشی میں ڈُوب جاتا ہے

ہو کے مدہوش چند لمحوں میں
بازو تکیہ بنا کے سو جانا
اور جھٹکتے ہوئے خیالوں کو
نیند کی وادیوں میں کھو جانا
اس کے آلام کو بھلاتا ہے

گرچہ امکان یہ ہے پینے میں
کہ بلا نوش وہ نہ ہو جائے
اس طرح کی شراب نوشی سے
وہ ہمیشہ کی نیند سو جائے
خوف یہ بھی اسے ڈراتا ہے

وہ سمجھتا ہے موت بہتر ہے
ایسے جینے سے جو رلائے اسے
جب حقارت سے کوئی دنیا میں
رند کے نام سے بلائے اسے
شرم سے تب وہ منہ چھپاتا ہے

کاش اس کا بھی کوئی ہمدم ہو
جو نکالے اسے مصیبت سے
درد بانٹے دلاسہ دے اس کو
جو لگائے گلے عقیدت سے --- یا--- جو لگائے گلے محبت سے
دل میں حسرت لیے وہ گاتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھا فارمیٹ بنایا ہے نظم کا، اب بہت اچھی لگ رہی ہے، بس آخری مصرعہ مجھے کچھ بے ربط لگ رہا ہے، وہ گا کیوں رہا ہے، سمجھ میں نہیں آتا ۔ اس مصرع کو بدل دو تو مزید اصلاح کی ضرورت نہیں
 
اچھا فارمیٹ بنایا ہے نظم کا، اب بہت اچھی لگ رہی ہے، بس آخری مصرعہ مجھے کچھ بے ربط لگ رہا ہے، وہ گا کیوں رہا ہے، سمجھ میں نہیں آتا ۔ اس مصرع کو بدل دو تو مزید اصلاح کی ضرورت نہیں
سر الف عین صاحب بہت شکریہ!
آخری مصرعہ بدل دیا ہے- (دل میں حسرت لیے وہ گاتا ہے)

کاش اس کا بھی کوئی ہمدم ہو
جو نکالے اسے مصیبت سے
درد بانٹے دلاسہ دے اس کو
جو لگائے گلے عقیدت سے
سوچ کر اشک وہ بہاتا ہے
 
ا ب درست ہو گئی ہے نطم
سر الف عین صاحب بہت شکریہ!

اس سے پہلے کہ زندگی کے غم
درد سہنے کی حد سے ہوں باہر
اس سے پہلے کے نبض رُک جائے
رت جگے میں وہ تھام کے ساغر
بادہ نوشی میں ڈُوب جاتا ہے

ہو کے مدہوش چند لمحوں میں
بازو تکیہ بنا کے سو جانا
اور جھٹکتے ہوئے خیالوں کو
نیند کی وادیوں میں کھو جانا
اس کے آلام کو بھلاتا ہے

گرچہ امکان یہ ہے پینے میں
کہ بلا نوش وہ نہ ہو جائے
اس طرح کی شراب نوشی سے
وہ ہمیشہ کی نیند سو جائے
خوف یہ بھی اسے ڈراتا ہے

درج ذیل بند میں پہلے دو مصرعے اور آخری تین مصرعے الگ الگ نہیں لگ رہے
؟
وہ سمجھتا ہے موت بہتر ہے
ایسے جینے سے جو رلائے اسے
جب حقارت سے کوئی دنیا میں
رند کے نام سے بلائے اسے
شرم سے تب وہ منہ چھپاتا ہے

اگر یہ بند تھوڑا تبدیل کردیا جائے تو کیسا رہے گا؟
وہ سمجھتا ہے موت بہتر ہے
ایسے جینے سے جو رلائے اسے
دیکھ کر ہر کوئی حقارت سے
رند کے نام سے بلائے اسے
اس لیے جام وہ اٹھاتا ہے
کاش اس کا بھی کوئی ہمدم ہو
جو نکالے اسے مصیبت سے
درد بانٹے دلاسہ دے اس کو
جو لگائے گلے عقیدت سے
سوچ کر اشک وہ بہاتا ہے
 
Top