فراز نظم - خواب مرتے نہیں ( آحمد فراز)

خواب مرتے نہیں
خواب دل ھیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ھوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ھیں نوا ھیں ھوا ھیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ھوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ھیں
خواب سقراط ھیں
خواب منصور ھیں
 

ش زاد

محفلین
خواب مرتے نہیں
خواب دل ھیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ھوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ھیں نوا ھیں ھوا ھیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ھوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ھیں
خواب تو نور ھیں
خواب تو سقراط ھیں
خواب منصور ھیں

اس سطر میں تو اضافی ہے

اصل سطر یوں ہے
"""خواب تو حرف ھیں
خواب تو نور ھیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصوُر ہیں"""

درُست کر لیجئے
شکریہ
 
Top