نظم- توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا۔ مولانا ظفر علی خان

فرحت کیانی

لائبریرین
توحید کے ترانہ کی تانیں اُڑائے جا

توحید کے ترانہ کی تانیں اُڑائے جا
مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا
ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سر جھومنے لگیں
ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیروبم سے کر تہہ و بالا دماغ کو
ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
نا سوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش
لا ہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں
ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق
اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو
جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر
نامِ محمدِ عربی پر کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے
حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں
اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا
دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم
دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار
اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

کلام: مولانا ظفر علی خان
چمنستانِ حجاز (1965ء )

کتاب میں نظم کا تیسرا مصرعہ ایسے لکھا ہے
'ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا'۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آرہی۔
اسی طرح گٹکری کے معانی بھی نہیں مل رہے۔
 
Top