نظم برائے اصلاح اور تنقید

Wajih Bukhari

محفلین
زیارتِ کربلا

جذبات کے سیلاب کو اشکوں سے بڑھاتا ہوں میں
وارفتگی کے تیز ریلے میں بہا جاتا ہوں میں

ہلچل مچائی قلب نے کیسی ہے سینے میں مرے
اندر اٹھے طوفان کی شدت سے تھرّاتا ہوں میں

سارے دلائل ریت کی دیوار ثابت ہو گئے
مجبور اتنا دل کے ہاتھوں خود کو اب پاتا ہوں میں

کیسے نگاہوں سے چھپا رکھّوں گا دل کے حال کو
لب سی لئے اپنے مگر آنکھوں سے چِلّاتا ہوں میں!

اشکوں کے تاروں سے بنا کر ربط دل اور روح میں
ٹوٹا ہوا اک بار پھر سے جوڑتا ناتا ہوں میں

دل عقل کی حجّت کی زنجیروں میں تھا جکڑا ہوا
فولاد اٹھتے ولولوں کی لَو سے پگھلاتا ہوں میں

مدت ہوئی میں کھو گیا تھا خواہشوں کی بِھیڑ میں
اب خود کو برسوں بعد اپنا آپ لوٹاتا ہوں میں

صدیوں پرانے بت گرے ہیں گرد تھم جائے ذرا
پیچھے انا کی کرچیوں کو چھوڑ کر آتا ہوں میں

کب حق ہوا تیرا ادا مجھ سے حسینِ ابنِ علیؑ
تُو روبرو ہے اور زخمِ دل کو سہلاتا ہوں میں!

--۔- --۔- --۔- --۔-
 
Top