فرخ منظور
لائبریرین
نظریۂ پاکستان ایک تاریخی مغالطہ اور موجودہ بحران
تحریر: حسن جعفر زیدی
(یہ مضمون حلقہ ارباب ذوق لاہور میں 16اگست 2009کو ،اور ہالیڈے ان، رسل سکوئر، لندن میں پروگریسو فورم لندن کے اجلاس میں 25 اکتوبر2009ء کو پیش کیا گیا۔)
آج پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں اور طالبان نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں جن نعروں اور نظریوں کا بیج بویا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ ساٹھ سال کے دوران کی گئی وہ کچھ یوں ہیں نظریہ پاکستان ، نظریاتی سرحدیں، نظریاتی ریاست، اسلامی ریاست،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات، اسلامی نظام، نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام، حکومت الہیہ کا قیام ، اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ، احیائے اسلام ، اسلامی اُمہ وغیرہ۔ ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے کچھ عرصہ بعد شروع کیا گیا۔ درا صل یہ وہ دور تھا جب بین الاقوامی سامراج (اینگلو امریکی سامراج) اور مقامی حکمران طبقوں کو ان نعروں اور نظریوں کی شدید ضرورت پڑ گئی تھی۔ بین الاقوامی سامراج کو اس لئے کہ: سوویت روس اور ابھرتی ہوئی چین کی کمیونسٹ قوت کے گرد حصار قائم کرنے کے لئے سامراج فیصلہ کر چکا تھا کہ مذہب کو بطور نظریاتی ہتھیار کے ستعمال کرے گا۔ مقامی حکمران طبقوں کو اس لئے کہ: ۔عوام اپنے معاشی، جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو اسے نظریہ کے نام پر رد کیا جا سکے ۔بنگال کے عوام اپنے حقوق مانگیں، پٹ سن کی آمدنی کو بنگال پر خرچ کرنے کی بات کریں، ملازمتوں میں اپنا حصہ مانگیں، فوج میں بھرتی ہونے کی بات کریں، بنگالی کو قومی زبان بنانے کا نعرہ لگائیں،اور آئین میں آبادی کی بنیاد پر ایک فرد ایک ووٹ کا مطالبہ کریں، تو کہا جائے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کی جا رہی ہے اور نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کے نیچے کچل دیا جائے ۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کریں تو ان نظریاتی ہتھیاروں کو استعمال کیا جائے ۔پاکستان کے عوام بالعموم اپنے معاشی خوشحالی اور بنیادی حقوق کے مطالبات اُٹھائیں تو بھی یہ نظریاتی ہتھیار استعمال میں لائے جائیں۔ اور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان نظریوں کا سہارا لے کر ۔اینگلو امریکی سامراج نے اسلامی بلاک بنانے کے لئے پاکستان کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ اسلامستان بنانے کے مشن پر چوہدری خلیق الزمان کو مسلمان ملکوں کے دوروں پر بھیجا گیا۔ پھر Middle East Defence (MEDO) Organization کے قیام کے لئے چوہدری ظفرا ﷲ وزیر خارجہ پاکستان کو مسلمان ملکوں میں بھیجا گیا۔اور بالآخر بغداد پیکٹ وجود میں آیا جسے بعد میں CENTO کا نام دے دیا گیا ۔ملک میں آئین سازی کے عمل کو طول دے کر پس پشت ڈال دیا گیا۔قائد اعظم کی ۱۱۔اگست 1947کی دستور اسمبلی کی افتتاحی تقریر کو نظر انداز کر کے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جو چند تجریدی Abstractمذہبی نعروں پر مبنی تھی۔اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت میں تقریریں کیں اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا۔ ۔1953 میں مذہبی جماعتوں کے قادیانی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لاء لگا جو پاکستان کا پہلا مارشل لاء تھا۔ ۔1954میں دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی کو توڑ دیا گیا ۔1955میں سندھ، سرحد، بلوچستان،پنجاب کاہکےیںائے شرماون یونٹ بنا کر تخت لاہور کے تحت صوبہ مغربی پاکستان بنا دیا گیا ۔1956 اسٹبلشمنٹ کے نمائندے چوہدری محمد علی نے پہلا دستور بنایا جس میں پیریٹی کے نام پر مشرقی پاکستان کے 54 فیصد کو مغربی پاکستان کے 46 فیصد کے برابر کر دیا گیا۔یہ چوہدری محمد علی وہی شخص ہے جس نے 60 کی دہائی میں نظام اسلام پارٹی بنائی اور64 اور70 کے انتخابات میں دائیں بازو کے اتحاد میں شامل ہو کر حصہ لیا۔اور یہی شخص ہے جس نے سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان کی حیثیت سے پہلی پریس ایڈوائس جاری کی تھی کہ قائد اعظم کی ۱۱۔اگست کی تقریر کے مکمل متن کو شائع نہ کیا جائے (مگر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے پورا متن شائع کیا)۔ ۔56-58کے عرصہ میں لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی، سر ظفر اﷲ،غلام محمد، سکندر مرزا وغیرہ نے اسلام اور نظریہ کے نام پر ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کیا اور ایوب خان کے مارشل لاء کی راہ ہموار کی۔ ۔ایوب خان کے دس سالہ دور میں اسلام اور نظریہ کا کئی بار استعمال کیا گیا۔غلاف کعبہ۔کشمیر کا جہاد اور 65 کی جن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا گیا ۔یحی خان کے تین سالہ دور میں نظریہ سازی کی سرکاری فیکٹریوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تمام سرکاری وسائل دائیں بازو کی نظریہ باز جماعتوں کے حوالے کر دئے گئے۔70 کے انتخاب کا نتیجہ آیا تو اس کے نتائج یہ کہ کر مسترد کر دئے گئے کہ نظریہ پاکستان کی مخالف جماعتیں کامیاب ہو گئی ہیں اس لئے ان انتخابات کو کالعدم کر کے نئے انتخاب کرائے جائیں۔ اور مشرقی پاکستان میں اس انتخاب کو کالعدم کر کے فوجی ایکشن کر دیا گیا اور اسلام اور نظریہ پاکستان کے نام پر جعلی انتخاب کرائے گئے۔ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں الشمس اور البدر نظریہ پاکستان کے نام پر فوجی ایکشن میں شامل ہو گئیں۔ 71 میں نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستان کو توڑ دیا گیا ۔72-77بھٹو دور میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے اسلامی نظام اور نظریہ پاکستان کے نعروں کے بے دریغ استعمال کیا اور بھٹو حکومت کو مسلسل غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 74میں قادیانی ایجی ٹیشن کر کے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوایا گیا۔ 77 کی PNA کی تحریک۔نظام مصطفے تحریک۔فوجی کمانڈوز نے دینی مدرسوں کے طالب علموں کو مسلح ہو کر مظاہروں میں حصہ لینے کی ٹریننگ دی۔ بھٹو حکومت کا نظریہ پاکستان کے نام پر تختہ الٹ دیا گیا۔ ۔77-88 ضیا دور۔ نظریہ سازی کی جو فصل گزشتہ 30 سال میں بوئی گئی تھی اب اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا تھا۔ضیا الحق اور امریکی سامراج نے نفاذ اسلام، نفاذ شریعت، حدود آرڈنینس،چادر اور چار دیواری، پھانسیاں، کوڑے ، جلا وطنیاں، کلاشنکوف کلچر،ہیروئین اور سب سے بڑھ کر جہاد افعانستان کے ذریعے پاکستان کے سیاسی، ثقافتی،معاشرتی اور اخلاقی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔درسی نصاب کی کتابوں،ملازمتوں کے لئے انٹرویوز اور ترقیوں کے لئے معیار نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کی بھینٹ چڑھا دئے۔ ۔88-99بے نظیر اور نواز شریف کے میوزیکل چئرز اقتدار کے ادوار میں ISI نے ضیا دور کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ افغانستان میں جہادی تنظیموں کی خانہ جنگی کے دوران ان کی سرپرستی جاری رہی یہاں تک کہ طالبان تنظیم کو اقتدار میں لایا گیا۔ پاکستان کے اندر بھی سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ اور جیش محمد پروان چڑھائی گئیں۔ ۔99-2009۔ مشرف دور اور بعد۔ 9/11 کے بعد کا پاکستان۔مذہبی انتہاپسندی جنونیت میں تبدیل ہو گئی۔ لال مسجد اور اسی قبیل کے مدرسوں میں خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں جنہیں ISIاور اسٹبلشمنٹ نے پروان چڑھنے دیا۔ اعجاز الحق، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر حکومتی عہدیدار ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ اور میڈیا کے بہت سے lead anchors بھی ان کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ ملک مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا اور بے گناہ معصوم لوگوں ؛ سکول کے بچوں اور عورتوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا، سارا ملک اس مذہبی جنونیت کے آتش فشاں کے دہانے پر رکھ دیا گیا۔اور اب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ اس پورے ڈرامہ کے پس پشت امریکی برطانوی اور بھارتی ایجنسیاں ہیں جو ان کو جدید اسلحہ، ٹریننگ اور ڈالرز فراہم کر رہے ہیں۔ ہم نے اس نام نہاد نظریہ پاکستان اور دوسرے نظریاتی نعروں کے سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے جو شدید نقصانات اُٹھائے ہیں، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی سطح پر جو Reverse Gear لگا ہے اس سے ہم قریب قریب پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ اصل کنفیوژن نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کی سوچ کا ہے جس میں اکثریت پروفیشنلز کے ہے جن کے ذہنوں میں ایک طالبان بٹھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ساٹھ سال میں اسٹبلشمنٹ اور عالمی سامراج نے اس پر بہت کام کیا، تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل اور بین الاقوامی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ درسی کتابوں، اخبارات و رسائل، تقریروں تحریروں، تعلیمی اداروں، ابلاغ کے اداروں اور فوجی افسروں کے تربیتی اداروں میں تاریخ کو مسخ کر کے جو نظریاتی تربیت کی گئی اس نے نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کو ذہنی طالبان بنا دیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ نظریہ پاکستان اور دیگر نظریاتی نعروں کی اصلیت کیا ہے ؟ قیام پاکستان کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’برصغیر کے مسلمانوں کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک ملک چاہیے تھا، چنانچہ پاکستان دراصل اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جنہیں جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے اس کا خواب دیکھا تھا، قائد اعظم نے اس کی تعبیر کی۔‘‘ اس تصور کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ بھی یہی ہے۔ اس تصور کو ان مراعات یافتہ طبقات نے اختیار کیا جو محکوم طبقوں اور قومیتوں پر اپنی سیاسی و معاشی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے اسلام کی آڑ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں اس تصو رکی نقیب سیاسی جماعتیں جو ’’نفاذ اسلام‘‘ کے نعرے کو متذکرہ طبقات کی بالادستی اور جہادی کلچر کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں۔ ایک دوسرا تصور بھی پایا جاتا ہے : ’’برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کوئی تضاد نہیں تھا۔ انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر کے ان کے مابین صدیوں سے قائم بھائی چارہ کو ختم کیا اور پھر سازش کے ذریعے ملک کو تقسیم کر کے چلے گئے تاکہ برطانوی سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔‘‘ یہ انڈیا کی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری مؤقف ہے اور اسے پاکستان کے بعض، تمام نہیں، ترقی پسند، بائیں بازو اور لبرل کہلوانے والے لوگ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو توڑنے اور تاریخ کی اس غلطی کو درست کر کے بھارت اور پاکستان کے درمیان لکیر کو مٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وفاداریاں اور مفادات سرحد پار ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد کے مسلسل جبر اور نا انصافیوں سے تنگ آ کر چھوٹے صوبوں کے بعض قوم پرست رہنما بھی اس تصور کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں تصوراتی یا نظریاتی ماڈل یا موقف جو مختلف مخصوص مفادات کے تحت وجود میں آئے یا لائے گئے ہیں، جب تاریخی جدلیات کے دھارے کے سپرد کیے جائیں تو خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تحریر: حسن جعفر زیدی
(یہ مضمون حلقہ ارباب ذوق لاہور میں 16اگست 2009کو ،اور ہالیڈے ان، رسل سکوئر، لندن میں پروگریسو فورم لندن کے اجلاس میں 25 اکتوبر2009ء کو پیش کیا گیا۔)
آج پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں اور طالبان نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں جن نعروں اور نظریوں کا بیج بویا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ ساٹھ سال کے دوران کی گئی وہ کچھ یوں ہیں نظریہ پاکستان ، نظریاتی سرحدیں، نظریاتی ریاست، اسلامی ریاست،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات، اسلامی نظام، نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام، حکومت الہیہ کا قیام ، اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ، احیائے اسلام ، اسلامی اُمہ وغیرہ۔ ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے کچھ عرصہ بعد شروع کیا گیا۔ درا صل یہ وہ دور تھا جب بین الاقوامی سامراج (اینگلو امریکی سامراج) اور مقامی حکمران طبقوں کو ان نعروں اور نظریوں کی شدید ضرورت پڑ گئی تھی۔ بین الاقوامی سامراج کو اس لئے کہ: سوویت روس اور ابھرتی ہوئی چین کی کمیونسٹ قوت کے گرد حصار قائم کرنے کے لئے سامراج فیصلہ کر چکا تھا کہ مذہب کو بطور نظریاتی ہتھیار کے ستعمال کرے گا۔ مقامی حکمران طبقوں کو اس لئے کہ: ۔عوام اپنے معاشی، جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو اسے نظریہ کے نام پر رد کیا جا سکے ۔بنگال کے عوام اپنے حقوق مانگیں، پٹ سن کی آمدنی کو بنگال پر خرچ کرنے کی بات کریں، ملازمتوں میں اپنا حصہ مانگیں، فوج میں بھرتی ہونے کی بات کریں، بنگالی کو قومی زبان بنانے کا نعرہ لگائیں،اور آئین میں آبادی کی بنیاد پر ایک فرد ایک ووٹ کا مطالبہ کریں، تو کہا جائے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کی جا رہی ہے اور نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کے نیچے کچل دیا جائے ۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کریں تو ان نظریاتی ہتھیاروں کو استعمال کیا جائے ۔پاکستان کے عوام بالعموم اپنے معاشی خوشحالی اور بنیادی حقوق کے مطالبات اُٹھائیں تو بھی یہ نظریاتی ہتھیار استعمال میں لائے جائیں۔ اور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان نظریوں کا سہارا لے کر ۔اینگلو امریکی سامراج نے اسلامی بلاک بنانے کے لئے پاکستان کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ اسلامستان بنانے کے مشن پر چوہدری خلیق الزمان کو مسلمان ملکوں کے دوروں پر بھیجا گیا۔ پھر Middle East Defence (MEDO) Organization کے قیام کے لئے چوہدری ظفرا ﷲ وزیر خارجہ پاکستان کو مسلمان ملکوں میں بھیجا گیا۔اور بالآخر بغداد پیکٹ وجود میں آیا جسے بعد میں CENTO کا نام دے دیا گیا ۔ملک میں آئین سازی کے عمل کو طول دے کر پس پشت ڈال دیا گیا۔قائد اعظم کی ۱۱۔اگست 1947کی دستور اسمبلی کی افتتاحی تقریر کو نظر انداز کر کے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جو چند تجریدی Abstractمذہبی نعروں پر مبنی تھی۔اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت میں تقریریں کیں اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا۔ ۔1953 میں مذہبی جماعتوں کے قادیانی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لاء لگا جو پاکستان کا پہلا مارشل لاء تھا۔ ۔1954میں دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی کو توڑ دیا گیا ۔1955میں سندھ، سرحد، بلوچستان،پنجاب کاہکےیںائے شرماون یونٹ بنا کر تخت لاہور کے تحت صوبہ مغربی پاکستان بنا دیا گیا ۔1956 اسٹبلشمنٹ کے نمائندے چوہدری محمد علی نے پہلا دستور بنایا جس میں پیریٹی کے نام پر مشرقی پاکستان کے 54 فیصد کو مغربی پاکستان کے 46 فیصد کے برابر کر دیا گیا۔یہ چوہدری محمد علی وہی شخص ہے جس نے 60 کی دہائی میں نظام اسلام پارٹی بنائی اور64 اور70 کے انتخابات میں دائیں بازو کے اتحاد میں شامل ہو کر حصہ لیا۔اور یہی شخص ہے جس نے سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان کی حیثیت سے پہلی پریس ایڈوائس جاری کی تھی کہ قائد اعظم کی ۱۱۔اگست کی تقریر کے مکمل متن کو شائع نہ کیا جائے (مگر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے پورا متن شائع کیا)۔ ۔56-58کے عرصہ میں لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی، سر ظفر اﷲ،غلام محمد، سکندر مرزا وغیرہ نے اسلام اور نظریہ کے نام پر ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کیا اور ایوب خان کے مارشل لاء کی راہ ہموار کی۔ ۔ایوب خان کے دس سالہ دور میں اسلام اور نظریہ کا کئی بار استعمال کیا گیا۔غلاف کعبہ۔کشمیر کا جہاد اور 65 کی جن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا گیا ۔یحی خان کے تین سالہ دور میں نظریہ سازی کی سرکاری فیکٹریوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تمام سرکاری وسائل دائیں بازو کی نظریہ باز جماعتوں کے حوالے کر دئے گئے۔70 کے انتخاب کا نتیجہ آیا تو اس کے نتائج یہ کہ کر مسترد کر دئے گئے کہ نظریہ پاکستان کی مخالف جماعتیں کامیاب ہو گئی ہیں اس لئے ان انتخابات کو کالعدم کر کے نئے انتخاب کرائے جائیں۔ اور مشرقی پاکستان میں اس انتخاب کو کالعدم کر کے فوجی ایکشن کر دیا گیا اور اسلام اور نظریہ پاکستان کے نام پر جعلی انتخاب کرائے گئے۔ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں الشمس اور البدر نظریہ پاکستان کے نام پر فوجی ایکشن میں شامل ہو گئیں۔ 71 میں نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستان کو توڑ دیا گیا ۔72-77بھٹو دور میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے اسلامی نظام اور نظریہ پاکستان کے نعروں کے بے دریغ استعمال کیا اور بھٹو حکومت کو مسلسل غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 74میں قادیانی ایجی ٹیشن کر کے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوایا گیا۔ 77 کی PNA کی تحریک۔نظام مصطفے تحریک۔فوجی کمانڈوز نے دینی مدرسوں کے طالب علموں کو مسلح ہو کر مظاہروں میں حصہ لینے کی ٹریننگ دی۔ بھٹو حکومت کا نظریہ پاکستان کے نام پر تختہ الٹ دیا گیا۔ ۔77-88 ضیا دور۔ نظریہ سازی کی جو فصل گزشتہ 30 سال میں بوئی گئی تھی اب اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا تھا۔ضیا الحق اور امریکی سامراج نے نفاذ اسلام، نفاذ شریعت، حدود آرڈنینس،چادر اور چار دیواری، پھانسیاں، کوڑے ، جلا وطنیاں، کلاشنکوف کلچر،ہیروئین اور سب سے بڑھ کر جہاد افعانستان کے ذریعے پاکستان کے سیاسی، ثقافتی،معاشرتی اور اخلاقی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔درسی نصاب کی کتابوں،ملازمتوں کے لئے انٹرویوز اور ترقیوں کے لئے معیار نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کی بھینٹ چڑھا دئے۔ ۔88-99بے نظیر اور نواز شریف کے میوزیکل چئرز اقتدار کے ادوار میں ISI نے ضیا دور کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ افغانستان میں جہادی تنظیموں کی خانہ جنگی کے دوران ان کی سرپرستی جاری رہی یہاں تک کہ طالبان تنظیم کو اقتدار میں لایا گیا۔ پاکستان کے اندر بھی سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ اور جیش محمد پروان چڑھائی گئیں۔ ۔99-2009۔ مشرف دور اور بعد۔ 9/11 کے بعد کا پاکستان۔مذہبی انتہاپسندی جنونیت میں تبدیل ہو گئی۔ لال مسجد اور اسی قبیل کے مدرسوں میں خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں جنہیں ISIاور اسٹبلشمنٹ نے پروان چڑھنے دیا۔ اعجاز الحق، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر حکومتی عہدیدار ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ اور میڈیا کے بہت سے lead anchors بھی ان کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ ملک مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا اور بے گناہ معصوم لوگوں ؛ سکول کے بچوں اور عورتوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا، سارا ملک اس مذہبی جنونیت کے آتش فشاں کے دہانے پر رکھ دیا گیا۔اور اب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ اس پورے ڈرامہ کے پس پشت امریکی برطانوی اور بھارتی ایجنسیاں ہیں جو ان کو جدید اسلحہ، ٹریننگ اور ڈالرز فراہم کر رہے ہیں۔ ہم نے اس نام نہاد نظریہ پاکستان اور دوسرے نظریاتی نعروں کے سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے جو شدید نقصانات اُٹھائے ہیں، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی سطح پر جو Reverse Gear لگا ہے اس سے ہم قریب قریب پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ اصل کنفیوژن نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کی سوچ کا ہے جس میں اکثریت پروفیشنلز کے ہے جن کے ذہنوں میں ایک طالبان بٹھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ساٹھ سال میں اسٹبلشمنٹ اور عالمی سامراج نے اس پر بہت کام کیا، تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل اور بین الاقوامی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ درسی کتابوں، اخبارات و رسائل، تقریروں تحریروں، تعلیمی اداروں، ابلاغ کے اداروں اور فوجی افسروں کے تربیتی اداروں میں تاریخ کو مسخ کر کے جو نظریاتی تربیت کی گئی اس نے نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کو ذہنی طالبان بنا دیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ نظریہ پاکستان اور دیگر نظریاتی نعروں کی اصلیت کیا ہے ؟ قیام پاکستان کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’برصغیر کے مسلمانوں کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک ملک چاہیے تھا، چنانچہ پاکستان دراصل اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جنہیں جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے اس کا خواب دیکھا تھا، قائد اعظم نے اس کی تعبیر کی۔‘‘ اس تصور کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ بھی یہی ہے۔ اس تصور کو ان مراعات یافتہ طبقات نے اختیار کیا جو محکوم طبقوں اور قومیتوں پر اپنی سیاسی و معاشی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے اسلام کی آڑ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں اس تصو رکی نقیب سیاسی جماعتیں جو ’’نفاذ اسلام‘‘ کے نعرے کو متذکرہ طبقات کی بالادستی اور جہادی کلچر کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں۔ ایک دوسرا تصور بھی پایا جاتا ہے : ’’برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کوئی تضاد نہیں تھا۔ انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر کے ان کے مابین صدیوں سے قائم بھائی چارہ کو ختم کیا اور پھر سازش کے ذریعے ملک کو تقسیم کر کے چلے گئے تاکہ برطانوی سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔‘‘ یہ انڈیا کی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری مؤقف ہے اور اسے پاکستان کے بعض، تمام نہیں، ترقی پسند، بائیں بازو اور لبرل کہلوانے والے لوگ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو توڑنے اور تاریخ کی اس غلطی کو درست کر کے بھارت اور پاکستان کے درمیان لکیر کو مٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وفاداریاں اور مفادات سرحد پار ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد کے مسلسل جبر اور نا انصافیوں سے تنگ آ کر چھوٹے صوبوں کے بعض قوم پرست رہنما بھی اس تصور کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں تصوراتی یا نظریاتی ماڈل یا موقف جو مختلف مخصوص مفادات کے تحت وجود میں آئے یا لائے گئے ہیں، جب تاریخی جدلیات کے دھارے کے سپرد کیے جائیں تو خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔