نسوار اور عشق

بخاری صاحب ہمارے لڑکپن کے دوست ، ایک بہترین شاعر ، نقاد ، اور بلا کے نسوار خور تھے…ہماری ان سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں…. ان دنوں ہم کراچی پورٹ پر کام کرتے تھے اور گِزری کلفٹن میں ایک کرایے کے اپارٹمنٹ میں چھڑے رہا کرتے تھے
ایک بار یوں ہوا کہ بخاری صاحب کو کلفٹن میں کسی لڑکی سے عشق ہو گیا اور اس کی پاداش میںً انہوں نے نسوار چھوڑنے کا مصمم ارادہ فرما لیا
ایک رات طیش میں آکر پڑیا پھینکنے لگے….ہم نے کہا…دیکھو بھائ اتنا عرصہ اس زہر ہلاہل کو لبوں سے لگا کر رکھا ہے…یوں پھینکنا مناسب نہیں ہے…کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اے محتسب نہ پھینک…ارے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے
کہنے لگے کیا کروں
میں نے کہا گِزری گراؤنڈ میں چلتے ہیں…وہاں باقاعدہ دفن کر کے آتے ہیں….تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے
شام کے آٹھ بجے تھے… ہم دونوں گِزری گراؤنڈ جا پہنچے
انہوں نے لکڑی سے ایک گڑھا کھودنا شروع کیا….جب پڑیا دفنانے کا وقت آیا تو میں نے کہا
بھائ…یوں بے آب و گیاہ جگہ پر نہ دفناؤ…یہ بھی توہین نسوار ہے
کہنے لگے کیا کروں ؟ اب کیا گورا قبرستان جا کے دفناؤں ؟
میں نے کہا….نہیں بھائ….ایسا کرتے ہیں کہ کسی کھنبے کے نیچے دفناتے ہیں …تاکہ کبھی ادھر سے گزریں تو یاد کر سکیں کہ اس جگہ بخاری صاحب نے عشق کی پہلی قربانی دی تھی
انہوں نے ہماری بات سے سوفیصدی اتفاق فرمالیا
گراؤنڈ کے ساتھ قطار میں کچھ اسٹریٹ لائٹ کے کھنبے لگے ہوئے تھے..ہم نے ایک کھنبا پسند کیا اور اس کے نیچے پڑیا دفن کرنے لگے- اس کارخیر سے فارغ ہو کر ہم نے اسی کھنبے کے نیچے بخاری صاحب کی استقامتِ عشق کےلیے باقاعدہ دعا بھی فرمائ
بخاری صاحب بہت خوش تھے….ہم نے گزری کے ایک ہوٹل سے چائے پی….اور کوئ 9 بجے کے قریب کمرے میں واپس آگئے
بخاری صاحب نے ایک گھنٹہ برابر مسواک کی- وہ کافی دیر اپنی پرانی زندگی پر لعنت ملامت کرتے رہے…اور عشق کے فوائد بیان کرتے رہے- ساڑھے دس بجے میں سو گیا…بخاری صاحب دیر تک زیرلب کچھ پڑھتے رہے….ذکر اذکار تھا کہ ذکر یار….رب ہی جانے
کوئ بارہ بجے کا عمل تھا کہ کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا- میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- جگانے والے بخاری صاحب ہی تھے
کچھ دیر تو ٹک ٹک ہمیں دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے
” بھائ میں نے اپنے فیصلے پہ خوب غوروخوض کیا ہے…یہ لڑکی اگر مجھے نہ ملی تو غم کی دولت ہاتھ آئے گی…اور رزمیہ شاعری لکھنی پڑے گی…جس کےلیے نسوار شرط اول ہے….اور اگر عشق کامیاب ہو گیا تو بحیثت بیوی میرے سر پہ سوار ہو جائے گی…اس صورت میں بھی مثل غالب نسوار کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا….جب اوّل آخر رجوع ہی کرنا ہے تو کیوں نہ ابھی سے کیا جائے…چلیں نئ پڑیا لے کے آتے ہیں
میں نے بہت بہانے کیے…اسے برا بھلا بھی کہا….لیکن بخاری صاحب کو بات منوانا آتی تھی چنانچہ کافی ردو کد کے بعد مجھے راضی کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے
ہم گِزری بازار چلے آئے- بازار میں ہو کا عالم تھا…..اور سب دکانیں بند پڑی تھیں سو پڑیا ملنے کا امکان صفر تھا
قصہ کوتاہ قبر کشائ کا فیصلہ ہوا- ہم ایک بار پھر گزری گراؤنڈ جا پہنچے…لیکن یہاں ایک چھوٹی سی گڑ بڑ ہو گئ
ہمیں یہ یاد نہ رہا کہ کھنبا کون سا تھا
ہم نے ایک ایک اسٹریٹ لائٹ کی کھدائ کا فیصلہ کیا…ابھی تیسرے کھنبے پر ہی پہنچے تھے کہ ……پولیس کی وین ادھر آنکلی
میری جیب سے سو روپیہ نکلا اور بخاری صاحب نے ڈیڑھ سو حصہ ڈالا
ہماری خوش قسمتی کہ پولیس والا ضلع دیر کا پٹھان نکلا…اس کے پوچھنے پر ہم نے پورا قصہ من و عن سنا دیا
مرض آشناء خان نے ایک پشتو قہقہہ لگایا…پھر جیب سے ایک ٹائٹ قسم کی پڑیا نکال کر ہمیں بخشی
بخاری صاحب کی خوشی دیدنی تھی…وہ پڑیا اچھالتے اور کیچ کرتے…اور بار بار یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے
اے محتسب نہ پھینک ارے محتسب نہ پھینک
ظالم نسوار ہے ارے ظالم نسوار ہے


بشکریہ … ظفر اقبال محمّد
 
Top