ندا فاضلی کے یادگار گیت

یاز

محفلین
الہلال بھائی! شاید کہنے کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو۔ ایسا بھی تو ممکن ہے (اگرچہ امکان بہت کم ہے) کہ ندا فاضلی نے گیت پہلے لکھا ہو اور حسن رضوی صاحب نے بعد میں۔
برسبیلِ تذکرہ، میں نے حسن رضوی کی یہی غزل کافی پہلے ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ یہی انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے۔ ریختہ پہ اس کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
الہلال بھائی! شاید کہنے کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو۔ ایسا بھی تو ممکن ہے (اگرچہ امکان بہت کم ہے) کہ ندا فاضلی نے گیت پہلے لکھا ہو اور حسن رضوی صاحب نے بعد میں۔
برسبیلِ تذکرہ، میں نے حسن رضوی کی یہی غزل کافی پہلے ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ یہی انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے۔ ریختہ پہ اس کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
گیت بنیادی طور پر غزل کی طرح ایک داخلی اور غنائی صنف سخن ہے۔ اس میں شخصی اور دلی جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ عام طور پر گیت کے موضوع عشق و محبت کے مضامین ہوتے ہیں۔ گیت کی ہیئت غزل سے مختلف ہوتی ہے۔ گیت میں کئی بند ہوتے ہیں۔ ہر بند کے بعد گیت کا پہلا مصرع یا اس مصرعے کا ایک حصہ دوہرایا جاتا ہے ۔ اس کو ٹیپ کا مصرع کہا جاتا ہے۔ گیت میں عموماً چار یا پانچ بند ہوتے ہیں اور ان میں تسلسل کے ساتھ ایک ہی خیال یا جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ایک ہلکی پھلکی غنائی شاعری ہوتی ہے جس کو دھن پر بھی گایا جا سکتا ہے ۔ زبان سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔ گیت میں بحر اور وزن کی سختی سے پابندی نہیں ہوتی ہے۔ البتہ اس کے لیے ایک لَے ضرور ہوتی ہے۔ جس کی بنیاد پر گیت گایا جا سکے۔ عموماً اس کی بنیاد ہندی بحروں یعنی چھندوں پر رکھی جاتی ہے۔ (فضل احمد اشرفی اردو قواعد)

ندا فاضلی صاحب نے جو لکھا ہے وہ گیت ہے۔نیچے میں نے ان کے گیت کو لکھا ہے، حسن رضوی صاحب کی غزل سے اس کا موازنہ کر کے دیکھیے ۔

لڑکا : نا وہ انکار کرتی ہے ، نا وہ اقرار کرتی ہے، ہمیں پھر بھی یقیں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتی ہے
لڑکی : نا وہ انکار کرتا ہے نا وہ اقرار کرتا ہے، ہمیں پھر بھی یقیں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
لڑکا : عجب لڑکی وہ جب ملتی ہے تو رہ جاتی ہے شرماکے ، کبھی بالوں کے پیچھے منہ چھپا لیتی ہے گھبرا کے
لڑکی : عجب لڑکا ہے رستے سے گزر جاتا ہے ٹکر را کے، مزا آتا ہے اس کو یوں ہی میرے دل کو تڑ پا کے،جلانے کو مجھے یاروں سے آنکھیں چار کرتا ہے۔
نا وہ انکار کرتا ہے نا وہ اقرار کرتا ہے ۔۔ہمیں پھر بھی یقیں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
لڑکا : نا وہ انکار کرتی ہے نا وہ اقرار کرتی ہے، جو دیکھو تو بڑی معصوم بالکل اجنبی ہے وہ، مگر جب میں نہیں ہوتا تو مجھ کو سوچتی ہے وہ
لڑکی : وہ چھپ چھپ کے مجھ ہی کو دیکھتا رہتا ہے روزانہ، مگر جب سامنے آتا ہے بن جاتا ہے انجانا
لڑکا : بنا میری اجازت وہ میرا دیدار کرتی ہے، نا وہ انکار کرتی ہے نا وہ اقرار کرتی ہے ۔ ہمیں پھر بھی یقیں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتی ہے
لڑکی: نا وہ انکار کرتا ہے نا وہ اقرار کرتا ہے، ہمیں پھر بھی یقیں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
 

یاز

محفلین
الہلال بھائی! بہت شکریہ اتنی تفصیل سے اس بات پہ روشنی ڈالنے پر۔
غیرمتفق ہونے کی گستاخی پہ پیشگی معذرت چاہوں گا۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ سرقہ کے لئے ضروری نہیں کہ لفظ بہ لفظ نقالی ہو۔ مرکزی خیال یا تھیم کو نقل کرنا یا ابتدائی اشعار کو ہوبہو یا معمولی تبدیلی کے ساتھ پیش کرنے کو بھی سرقہ ہی کہا جانا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ غزل کا سرقہ غزل کہہ کر ہی کیا جائے۔
اس سے کچھ کچھ ملتی اور کچھ کچھ مختلف مثال ذہن میں آ رہی ہے۔ نصرت فتح علیخان کی قوالی دم مست قلندر مست مست کی نقالی ایک ہندی فلم میں کچھ اس طرح سے تھی کہ "تو چیز بڑی ہے مست مست"۔
اب کہا جائے کہ چونکہ دونوں کے الفاظ وغیرہ میں فرق ہے تو یہ سرقہ نہیں۔ شاید ایسا درست نہ ہو۔

تاہم یہ ضرور عرض کروں گا کہ میں ایک کم علم سا بندہ ہوں اور کم از کم ان امور کا ماہر بالکل بھی نہیں ہوں تو اپنے موقف کی درستگی پہ ہرگز بھی اصرار نہیں کروں گا۔ اس بات کے بھرپور امکانات ہیں کہ میں اس ضمن میں غلطی پہ ہوں۔
 

محمدظہیر

محفلین
مجھے خود بھی غزلیات اور گیتوں کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اپنی معلومات میں اضافے کے خاطر میں بات کر رہا ہوں۔
سرقہ کے لئے ضروری نہیں کہ لفظ بہ لفظ نقالی ہو۔ مرکزی خیال یا تھیم کو نقل کرنا یا ابتدائی اشعار کو ہوبہو یا معمولی تبدیلی کے ساتھ پیش کرنے کو بھی سرقہ ہی کہا جانا چاہئے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مرکزی خیال میں مماثلت نہیں اور نا ہی تھیم میں ہے۔ گیت میں اور غزل میں مجھے بہت فرق محسوس ہو رہا ہے۔ شروع میں میں سمجھا کہ ندا فاضلی صاحب نے ہوبا ہو غزل اپنے نام کر لی ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوادونوں میں بہت فرق ہے۔اسی لیے میں نے گیت کی تعریف لکھ دی ۔ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ گیت کا پہلا شعر تھوڑا بہت غزل کے پہلے شعر سے ملتا ہے اس کے باوجود مجھے آپ کی اس بات کو تسلیم کرنے میں دقت ہو رہی ہے کہ ندا فاضلی نے حسن رضوی کی غزل کا سرقہ کیا ہے۔

انڈیا اور پاکستان والے شروع سے ایک دوسرے کے گانے سرقہ کرتے آئے ہیں۔ انڈیا کی فلم جاگرتی کے گیت کو دیکھیے کتنی خوبصورتی کے ساتھ سرقہ ہوا ۔


اوپر کے گانے کو پاکستان میں اسے اس طرح پیش کیا گیا ہے

 

یاز

محفلین
شکریہ الہلال بھائی مزید تفصیل سے روشنی ڈالنے پر۔ اس پہلو سے غور کرنے کے بعد میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ پہلے مصرعے کے علاوہ اس کو سرقہ نہ کہا جانا ہی بہتر ہے۔

اس کی نسبت شب کے جاگے ہوئے والے گیت میں ندا فاضلی نے کہیں بڑا اور مکمل (سے قریب تر) سرقہ کیا تھا۔ اور مزید ستم یہ کہ وہ بھی اپنے ملک کے شاعر کا ہی کلام تھا۔
اسی لڑی کی یہ پوسٹ دیکھئے
اور پھر ایک پرانی لڑی کی یہ پوسٹ بھی دیکھئے۔

ویسے میں اس بات پہ حیران ہوں کہ ندا فاضلی جیسے باکمال شاعر اور گیت نگار کو کسی بھی قسم کے سرقے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ جو شاعر "تُو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے" جیسے لازوال اور بے مثال گیت خود تخلیق کر سکتا ہے، اس کو کسی کی نقل کیوں کرنی پڑ گئی۔
 

محمدظہیر

محفلین
اور پھر ایک پرانی لڑی کی یہ پوسٹ بھی دیکھئے۔
یہ تو آپ کا تعارفی دھاگہ ہے۔ چلیے اس شعر کے بہانے آپ کا تعارف بھی پڑھ لیا۔
آپ نے درست فرمایا ۔ یہ دوسری غزل ان کی نہیں اس لیے سرقہ کہلائے گی۔
ویسے میں اس بات پہ حیران ہوں کہ ندا فاضلی جیسے باکمال شاعر اور گیت نگار کو کسی بھی قسم کے سرقے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ جو شاعر "تُو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے" جیسے لازوال اور بے مثال گیت خود تخلیق کر سکتا ہے، اس کو کسی کی نقل کیوں کرنی پڑ گئی۔
مشہور لوگوں کے گیت ہی اکثر فلم والے لیتے ہیں۔میرا خیال ہے بعض اوقات ان کے پاس لوگ اپنی لکھی ہوئی پسنددہ شاعری بھیج دیتے ہیں۔ چونکہ فلم بنانے والوں کا رابطہ لیرسٹ سے ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے نام سے پیش کرتے ہوں گے تاکہ مقبول ہو اور مقبول ہونے کے بعد کمائے ہوئے پیسے تقسیم کرلیتے ہوں گے۔
 

یاز

محفلین
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
فلم: آہستہ آہستہ
سال: 1981
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگارہ: آشا بھوسلے
موسیقی: خیام
فلم سکرین پہ: نندا

 

یاز

محفلین
دنیا جیسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
فلم: غیر فلمی
سال: 1979
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگارہ: جگجیت سنگھ، چترا سنگھ
 

یاز

محفلین
تیرا ہجر میرا نصیب ہے
فلم: رضیہ سلطان
سال: 1983
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: کبن مرزا
موسیقی: خیام
فلم سکرین پہ: دھرمیندرا

 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
دروازے پہ تیرے بارات لائے گا
فلم: کرشنا
سال: 1996
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: ابھجیت
موسیقی: انو ملک
فلم سکرین پہ: سنیل شیٹھی، ایوا گروور

 

یاز

محفلین
چاہت نہ ہوتی، کچھ بھی نہ ہوتا
فلم: چاہت
سال: 1996
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: ونود راٹھور، ایلکا یاگنک
موسیقی: انو ملک
فلم سکرین پہ: شاہ رخ خان، پوجا بھٹ

 

یاز

محفلین
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
البم: سجدہ (غیر فلمی)
سال: 2006
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: جگجیت سنگھ، لتا
 

یاز

محفلین
جانے کیا ڈھونڈتا ہے یہ میرا دل
فلم: سُر
سال: 2002
شاعر: ندا فاضلی
گلوکار: لکی علی
موسیقی: ایم ایم کریم
فلم سکرین پہ: لکی علی
 

یاز

محفلین
نظر سے پھول چنتی ہے نظر آہستہ آہستہ
فلم: آہستہ آہستہ
سال: 1981
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگارہ: انور، آشا بھوسلے
موسیقی: خیام
فلم سکرین پہ: کونال کپور، پدمنی کولہاپوری

 

یاز

محفلین
خوشبو ہوں میں پھول نہیں
فلم: شاید
سال: 1979
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگارہ: محمد رفیع، ساگریکا مکھرجی
موسیقی: مناس مکھرجی
فلم سکرین پہ: نصیرالدین شاہ، نیتا مہتہ

 

یاز

محفلین
تیرے لئے پلکوں کی جھالر بنوں
فلم: ہرجائی
سال: 1981
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگارہ: لتا منگیشکر
موسیقی: آر ڈی برمن
فلم سکرین پہ: رندھیر کپور، ٹینا مونیم

 

یاز

محفلین
ہر جلوہ تیرا جلوہ، می رقصم می رقصم
فلم: ہرجائی
سال: 1981
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: چندرشیکھر گادگل
موسیقی: آر ڈی برمن
فلم سکرین پہ: رندھیر کپور، ٹینا مونیم

 

یاز

محفلین
میٹھی میٹھی باتیں، ہری بھری شام
فلم: مارننگ واک
سال: 2009
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: شان، شریا گوشل
موسیقی: جیت گنگولی
فلم سکرین پہ: راجیت کور، دیویا دتہ

 

یاز

محفلین
چاند کے پاس جو ستارہ ہے، وہ ستارہ حسین لگتا ہے
فلم: سوئیکار کیا میں نے
سال: 1983
شاعر:
ندا فاضلی
گلوگار: کشور کمار، لتا
موسیقی: اُشا کھنہ
فلم سکرین پہ: ونود مہرہ، شبانہ اعظمی

 
Top