ابن انشا نجات کا طالب،، غالب(2)،،ابنٰ انشاء

علی فاروقی

محفلین
ہاہا میرا پیارا مہدی آیا ، غزلوں کا پشتارہ لایا،ارے میاں بیٹھو ۔شعر و شاعری کاکیا ذکر ہے ، یہاں تو مکان کی فکر ہے۔یہ مکان چار روپے مہینے کا ہر چند کہ ڈھب کا نہ تھا، لیکن اچھا تھا۔شریفوں کا محلہ ہے پہلے مالک نے بیچ دیا، نیا مالک اسے خالی کرانا چاہتاہے۔مدد لگا دی ہے پاڑ باندھ دی ہے اسی دو گزے صحن میں رات کو سوتاہوں۔پاڑ کیا ہے پھانسی کی کٹکر نطر آتی ہے۔منشی حبیب اللہ ذکاء نے ایک کوٹھی کا پتہ دیاتھا جو شہر سے باہر ہے ،سوار ہوا، گیا، مکان تو پُر فضا تھا ، احاطہ بھی ، چمن اور گُل بُوٹے بھی، لیکن حویلی اور محل سرا الگ الگ نہ تھے۔ڈیوڑھی بھی نہ تھی
۔بس ایک پھاٹک تھا۔کمرے اور کوٹھیاں خاصی ۔ کمرے کے ساتھ کولکیوں میں چینی مٹی کے چولہے سے بنے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا بیت الخلا ہیں، صاحبان انگریز ان پر چڑھ کر بیٹھتے ہیں۔ایک زنجیر کھینچتے ہی پانی کا تریڑا آتاہے ، سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔عجیب کارخانہ ہے، میں نے کرایہ پوچھا اور جھٹ کہا، پانچ روپے منظور۔ایک روپیہ زائد کی کچھ ایسی بات نہیں، لیکن مالک مکان کا کارندہ ہنسا اور بولا، پانچ روپے نہیں مرزا صاحب ، پانچ سو روپے۔ میں نے کہا خریدنامنظور نہیں، کرایہ پر لینا ہے۔ وہ مردک سر ہلاکر کہنے لگا پانچ سو روپے کرایہ ہے اور دوسال کا پیشگی چایہیئے یعنی بارہ ہزار دو اور آن اُترو۔ یہاں چتلی قبر کے پاس دھنا سیٹھ نے حویلی ڈھا کر اُونچااُنچا ایک مکان بنایاہے۔دو دو تین تین کمرے کے حصّے ہیں۔کلیان کو بھیجا تھا وہ خبرلایا کہ پگڑی مانگتے ہیں۔ میں حیران ہوا ، تم جانتے ہو میں پگڑی عمامہ کچھ نہیں باندھتا، ٹوپی ہے ورنہ ننگے سر۔ لوہارو والوں کے ہاں سے جو پگڑی پار سال مِلی تھی وہ نکلواکر بھیجوادی کہ دیکھ لیں اور اطمینان کرلیں کہ مکان ایک مردِ معزز کو مطلوب ہے۔وہ اُلٹے پاوں آیاکہ یہ دستار نہیں چاہیئے ، وہ رقم مانگتے ہیں دس ہزار۔ کرایہ اس کے علاوہ ساٹھ روپے مہینہ۔بڑے بد معاملہ لوگ ہیں۔آخر پگڑی پھر صندوق میں رکھوادی، یہ مالک مکان کل آتا ہے دیکھیے کیا کہتاہے۔
میرن صاحب آیئں ، شوق سے آیئں ، لیکن یہ گانے بجانے والوں میں نوکری کا خیال ہمیں پسند نہیں۔میں نے دیکھا نہیں لیکن معلوم ہو ا ہے کہ ایک کوٹھی میں مشینیں لگاکر اس کے سامنے لوگ گاتے ناچتے ہیں، شعر پڑھتے ہیں تقریریں کرتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں میں ایک ڈبّہ سامنے رکھ کر سن لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو اور ترقی ہوئ ہے ایک نیا ڈ بّہ انگریز کارریگروں نے نکالا ہے، اس میں ایک گُھنڈی ہے اسے مروڑنے پر سننے کے علاوہ ان اربابِ نشاط کی شکلیں بھی گھر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ایک خط ان میں سے ایک جگہ سے میرے پاس بھی آیاتھا۔ آدمی تو یہیں کے ہیں لیکن انگریزی میں لکھتے ہیں بہت دنوں رکھا رہا،آخر ایک انگریزی خواں سے پڑھوایا۔ مشاعرے کا دعوت نامہ تھا، کچھ حق الخدمت کا بھی ذکر تھا۔ میں تو گیا نہیں ، دوبارہ اُنہوں نے یاد نہیں کیا۔ چونکہ پیسے دیتے ہیں، سرکاروں درباروں کی جگہ اب ان لوگوں نے لے کی ہے۔ جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں۔میرن صاحب مجھے جان سے عزیز ، لیکن ان لوگوں سے سفارش کیا کہہ کر کروں کہ سید زادہ ہے۔ اردو فارسی کا ذوق رکھتاہے اسے نوکر رکھو۔اچھا رکھ بھی لیا تو کاپی نویسوں میں رکھیں گے۔ میر مہدی یہ وہ زمانہ نہیں اب تو انگریزی کی پوچھ ہے یاپھر سفارش چاہیئے۔
خط لکھ لیا اب محل سرامیں جاوں گا، ایک روٹی شوربے کے ساتھ کھاوں گا۔ شہر کا عجب حال ہے باہر نکلنا محال ہے۔ ابھی ہرکارہ آیا تھا خبر لایا کہ ہڑتال ہو رہی ہے۔ ہاٹ بازار سب بند ہیں ، لڑکے جلوس نکال رہے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں۔ کبھی کبھی لڑکوں اور برقندازوں میں جھڑپ بھِی ہو جاتی ہے۔ میر مہدی معلوم نہیں اس شہر میں کیا ہونے والا ہے۔ میرن کو وہیں روک لو۔ میر سر فراز حسین اور میر نصیرا لدین کو دُعا۔
نجات کا طالب
غالب
 
Top