نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

ابن آدم

محفلین
آیات مباہلہ سورہ آل عمران میں وارد ہوئی ہیں ۔ سورہ آل عمران کا آخری حصہ غزوہ احد کے نتائج سے بحث کرر ہا ہے، گویا قرآن کے نظم کی بنیاد پر اس سورت کا دورِ نزول ۳ ہجری بنتا ہے۔ سورت کے ابتدائی حصہ میں حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت سے متعلق اہلِ کتاب کے ایک گروہ سے کلام ہورہا ہے۔ ان آیات کا اگر خالی الذہن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو تین چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں، کہ حضرت عیسیٰؑ سے متعلق اس بحث میں مخاطب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا انکار کیا ہے نہ کہ وہ جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں، یعنی یہودی نہ کہ عیسائی۔

دوسری بات یہ کہ مخاطب گروہ توحید پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے کہ مخاطب گروہ یہودی ہی ہے نہ کہ عیسائی۔

تیسری بات یہ کہ جس گروہ کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہے وہ مدینہ میں اہل خانہ سمیت مقیم ہے، یعنی اسکے بیوی ہچے ساتھ ہیں، نہ کہ ہزار میل دور سے آیا ہوا مردوں کا کوئی وفد۔

شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے گئے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے، کیونکہ ان آیات کی تفسیرسورت میں درج الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مکمل طور پر بیان کردہ شانِ نزول کے آئینہ میں کی جاتی ہے۔ جبکہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب) پر تو پھر بھی ڈرتے ڈرتے بعض لوگوں نے یہ بات کہنے کی جسارت کرلی ہے کہ وہاں بالاصل ازواجِ رسولﷺ بھی (ہی) مراد ہیں۔ شانِ نزول کا بنیادی قول مورخ محمد بن اسحٰق کا ہے، جن کے مطابق "اس سورت کی اسّی (۸۰) سے کچھ زائد ابتدائی آیات وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی تھیں، اور نجرانی عیسائیوں کا وفد ۹ ہجری میں آیا تھا"- کہا جاتا ہے مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے پنجتن پاکؓ پیش ہوئے تھے، اور پھر عیسائی مباہلے سے دست بردار ہوگئے۔

غزوہ احد (۳ ہجری ) کے زمانے میں نازل ہونے والی سورت کی بعض آیات کو ۹ ہجری میں پہنچانے کی ضرورت اہل تشیع کو اس لیے محسوس ہوئی کہ ۳ہجری میں حضرات حسنینؓ کی پیدائش نہیں ہوئی تھی، لہذا پنجتن فارمولے کا قرآنی ثبوت ۳ہجری میں نہیں مل سکتا تھا- ۹ ہجری میں پنجتنؓ کا تو وجود تھا، لیکن مدینہ میں یہود موجود نہیں تھے، لہذا آیات میں حضرت عیسیٰؑ کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واقعہ کا رخ عیسائیوں کی طرف پھیر دیا گیا۔

غور کرنے والے حضرات کے لیے ۳ نکات پیش کردیتا ہوں:

۱)- مباہلہ کی دعوت دیتے وقت کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں اور بیٹوں کے ساتھ تم بھی آؤ اور ہم بھی-
( آل عمران آیت 61)
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
کہہ دے آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں پھر سب التجا کریں اور الله کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں

یہاں تم اور ہم کے صیغے بہت اہم ہیں- اردو زبان میں تم کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم عربی میں تم کے لیے 'کم' کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک یا دو لوگوں کے لیے نہیں آتا- یہاں لفظ 'کم' سے مراد 'تم لوگ' ہے، دوسری جانب لفظ 'نا' سے مراد 'ہم لوگ' ہے- نجرانی وفد سے متعلق روایت بتاتی ہے کہ ہم لوگ سے مراد صرف ایک فرد یعنی حضرت علیؓ ہیں- کیا جس چیز کا مطالبہ ازروئے قرآن مجسم قرآن نبی اکرم ﷺ نجرانیوں سے کر رہے تھے، نعوذباللہ خود اس پر عمل نہیں کر رہے تھے۔

اگر باہر سے آئے ہوئے کسی وفد کو مباہلے کی دعوت دی گئی ہوتی تو بیوی بچوں کو لانے کا نہ کہا گیا ہوتا، ورنہ ان کے پاس اس مباہلے کو مسترد کرنے کا منطقی جواب موجود ہوتا کہ جب بیوی بچے مدینہ میں ہیں ہی نہیں تو کہاں سے لائیں، یہ تو آپ (نبی پاکﷺ) کی طرف سے ٹالنے والی بات ہوئی (نعوذ باللہ)۔

مزید یہ کہ روایت کے مطابق مرد نجرانیوں سے تو بیوی بچوں کو لانے کا مطالبہ کیا گیا، دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے پنجتں پاکؓ کو بھیج دیا گیا- کیا نجرانیوں کی طرف سے یہ جواب نہیں آنا چاہیے تھا کہ ہم سے تو ہزار میل کے فاصلے سے عورتیں (جمع کا صیغہ) بلوانے کا کہا ہے اور خود اپنی عورتوں (بیویوں) کی موجودگی کے باوجود بھی صرف ایک بیٹی (واحد کا صیغہ) بھیجی۔(گویا نبیﷺ کی طرف سے مباہلے کی بنیادی شرط ہی کی خلاف ورزی مانی جائے)۔ گویا اس روایت کی رو سے مباہلہ میں جھوٹا ہونے کی لعنت نعوذ باللہ خود رسول اللہ ﷺ پر پڑتی ہے۔

تیسری بات نجرانی یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ ہم سے بیٹے منگوائے گئے ہیں اور خود اپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے بھی دو نواسے بھیج دیے (واضح رہے کہ ۹ ہجری میں نبی اکرمﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ حیات تھے) ۔ گویا حب علیؓ کی آڑ میں نبیﷺ کو مسلسل جھوٹا قرار دلوا کر لعنت پڑوائی جائے۔

یاد رہے اس روایت کے مطابق مباہلہ عیسائیوں سے ہو رہا تھا، اہلِ سنت سے تو نہیں ہورہا تھا کہ جواب نہ ملنے پر وہ نیم رافضی ہوجائیں- عیسائیوں نے تو اس سکیم پر صاف کہہ دینا تھا کہ مسلمانوں کے رسول نے تو اپنی ہی پیش کردہ شرائط کا پاس نہیں کیا، وہ اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہیں۔

ظاہر ہے عقیدت کے نام پر نبیﷺ سے یہ جھوٹ بعد کے کسی دور میں منسوب کیا گیا ہے، جبکہ عیسائی یہ باتیں اس وقت پوچھنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ اور عباسیوں/علویوں کی خلافت حاصل کرنے کی تحریک زوروں پر ہو۔

۲)- دوسری آیت ٦٤ ہے، جس میں اہلِ کتاب کے اس مخاطب گروہ کو کہا گیا ہے کہ آؤ ہم لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں جو ہم میں یکساں ہے:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا
کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں

آیت کا متن اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح توحید پر یقین رکھتے ہیں. دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف یہودی ہی ہیں جو توحید پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے اسلام کہتا ہے. دوسری جانب نجرانی عیسائی تو ویسے بھی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے. اور توحید کے قائل نہیں تھے.

مزے کی بات یہ ہے کہ روایت کی رو سے تو نجرانی بحث ہی یہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور اسی بات پر مباہلہ بھی ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے صریح شرک کرنے والوں کو فوراً بعد ہی الله، عقیدہ توحید میں ان کو مسلمانوں کا ہمسر قرار دے دے. استغفرالله

۳)- تیسری آیت ٥٩ ہے جسکو بڑے طمطراق کے ساتھ الوہیت مسیح کے انکار کی دلیل کے طور پر ہمیں بتایا جاتا ہے- یہی وہ آیت ہے جس پر عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کی پوری کہانی کھڑی ہے- کیونکہ باقی تو کسی ایک آیت سے بھی ادنی سا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس تقریر کے مخاطب عیسائی ہیں۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
" بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا"

کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں سے کہا گیا کہ اگر تم بن باپ کی پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو پھر تو آدم کو بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا مانو، کیونکہ اسکے تو ماں اور باپ دونوں ہی بیان نہیں کیے جاتے ۔

مگر آیت کے الفاظ اس مفروضے کی مکمل طور پر ابا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہاں الوہیت مسیح کا انکار نہیں کیا جا رہا بلکہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی پیدائشِ زیرِ بحث ہے۔ اور ان کی غیر معمولی پیدائش پر مسلمانوں کا اختلاف یہودیوں سے ہے نہ کہ عیسائیوں سے، کیوںکہ عیسائی اور مسلمان دونوں ہی ان کی غیر معمولی طور پر پیدا ہونے کے قائل ہیں ۔ مزید یہ کہ آیت نمبر ٦٤ بھی یہی واضح کر رہی ہے کہ الوہیت کا موضوع مباہلہ کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مباہلہ کے دونوں فریق توحید یعنی صرف ایک ہی خدا کے ہونے کے قائل ہیں.

حاصل کلام یہ کہ مباہلہ حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طور پر ہونے والی پیدائش کے موضوع پر تھا. اور حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کی زندگیوں کے احوال بھی اسی پس منظر میں بتائے گئے ہیں. آیت نمبر ٣٩ میں جب حضرت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو کہا گیا ہے کہ الله تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو الله کے ایک فرمان (حضرت عیسیٰ) کی گواہی دے گا۔

بات صاف ہوگئی کہ مباہلے کی دعوت بنو نضیر کے یہودیوں کو ۳ ہجری میں غزوہ احد کے زمانے میں ہی مدینہ منورہ میں دی گئی تھی، جسکو انہوں نے قبول نہ کیا- اسی بات کی تصدیق آیت ٦٣ سے بھی ہو رہی ہے کہ منہ موڑنے والے ہی فسادی ہیں. درحقیقت یہ بات تو سوره بقرہ اور سوره نساء سے بھی واضح ہے کہ مدینہ کا یہودی حضرت عیسیٰ کے متعلق کج بحثیاں کر رہے تھے. ظاہر سی بات ہے کہ نجران سے آنے والے عیسائیوں کا وفد اگر اپنے عقائد کے متعلق استفسار کر رہا تھا تو مباہلہ سے گریز کی صورت میں ان کو مفسد تو نہیں قرار دیا جا سکتا.

دراصل اس مباہلہ کی دعوت میں مدینہ کے مفسد یہودیوں کو کہا گیا تھا کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو نو مسلم معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانے کی بجائے مباہلہ کی دعوت قبول کرو تم بھی آل اولاد سمیت آؤ اور ہم مدینہ کے مسلمان بھی اپنی آل اولاد کو لے کر الله کے حضور مباہلہ کے لئے پیش کر دیں. اور دعا کریں کہ جو فریق بھی جھوٹا ہے اس پر الله کی لعنت پڑے. اور مباہلہ سے فرار کی صورت میں تمہارا مفسد ہونا ثابت ہو جائے گا.

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر یہاں دونوں فریقوں کے خدا مختلف ہوتے جیسا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مباہلہ کی صورت میں ہوتا تو کس فریق کے خدا سے دعا کی جاتی کہ جھوٹوں پر لعنت بھیجے. کیا نبی آخر الزمان عیسائیوں کے خدا حضرت عیسیٰ سے دعا کرتے؟ نعوذ باللہ

آیات یہودیوں کے ساتھ مباہلہ پر مکمل طور پر واضح ہیں لیکن کیونکہ یہودیوں اور مجوسیوں کا گٹھ جوڑ روزِ اول سے ہے، اس لیے الزام عیسائیوں پر ڈلواکر یہودیوں کو مباہلے کے فرار کے الزام سے پاک کروایا گیا ہے۔اور دوسرا کیونکہ مجوسیوں کا مخصوص ایجنڈا حضراتِ حسنینؓ کی عدم پیدائش کے باءث ۳ ہجری میں پورا نہیں ہو رہا تھا، تو سورہ آلِ عمران کے ابتدائی حصے کو غزوہِ احد سے ٦ سال بعد پہنچادیا گیا- اس اقدام نے جہاں حقیقی مجرموں یعنی یہودیوں کی چشم پوشی کی، وہیں قران کے طرز استدلال کو بھی کمزور طریقے پر پیش کیا، کیونکہ آیات کو تاویل کرکے عیسائیوں سے مباہلے کا قابل بنایا گیا ہے، نبی پاکﷺ کے قول و فعل میں تضاد دکھایا گیا ہے، کہ فریق مخالف سے جس طور لوگوں کو لانے کو کہا ہے، خود اس طور لوگ نہیں لاہے، سورت کے نظم کو توڑا گیا ہے، کہ آیات کی ترتیب آگے پیچھے گرداندی گئی ہے۔ جس گروہ نے اپنی سیاسی اجارا داری کے لیے رسول اور قرآن پر اس قدر دست درازی کی ہے، تو باقی تاریخ بدلنا تو اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا-
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
حد ہوتی ہے تعصب کی۔ شیعوں پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے مباہلہ 3 ہجری سے 9 ہجری میں کر دیا تا کہ ان کے امام مباہلے میں شامل ہو جائیں۔اہلِ سنت کی ایک کثیر تعداد کے مطابق قرآن کے بعد اس دنیا میں صحیح ترین کتب بخاری و مسلم ہیں، اس ساری رام کہانی سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بخاری اور مسلم بھی شیعوں نے گھڑی ہوئی ہیں (نعوذ باللہ) کیونکہ نجران کے عیسائیوں، مباہلہ اور حضور کے ساتھ ان کے اہلِ بیت کا مباہلے کو جانا، صحیحین اور دیگر کتب احادیث میں کثرت سے منقول ہیں۔
 

ابن آدم

محفلین
جناب آپ قرآن کے مقابلے میں روایت کو لا رہے ہیں تو پھر خود ہی سوچیں کہ جب آپ نے قرآن کو روایت کے تابع کر دیا ہے تو پھر آپ کا ایمان تو روایت پر ہوا نہ کہ قرآن پر اور کیا اس عمل کو انکار قرآن نہ کہا جائے گا.

بہت سی روایات اس لیے بنائی گئی ہیں کہ قرآن جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہوا ہے اس میں کیسے نقب لگایا جائے، تو روایت بنا کر اس کے قرآن سے ہٹ کر مطالب نکالے گئے، لیکن میرے لئے قرآن مبین(واضح) ہے اور قرآن فرقان بھی ہے (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والی کتاب) اور جہاں بھی قرآن اور روایت میں اختلاف اے گا تو میں قرآن کے ہی پیچھے چلوں گا اور روایت کو چھوڑ دوں گا.
 
آخری تدوین:
بہت سی روایات اس لیے بنائی گئی ہیں کہ قرآن جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہوا ہے اس میں کیسے نقب لگایا جائے
بھائی صاحب مدلل بات کرنا ہو تو مجہول کا صیغہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ جس آدمی نے وہ روایت "بنائی" ہو اس کا نام سامنے لانا چاہیے۔
اس بات کو ثابت کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ تفسیر اور حدیث کی معتبر کتب میں جہاں یہ روایات آئی ہیں ان کے راویوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ بس آپ یہ کریں کہ جس راوی پر آپ کو شان نزول "بنانے" کا دعوی ہے اس پر انگلی رکھیں اور دلیل سے ثابت کردیں۔ اگر آپ اس کام کے لیے تیار ہیں تو بسم اللہ! ہم بھی پڑھیں گے۔
ہوائی فائرنگ سے تو کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ :)
 

ابن آدم

محفلین
بھائی صاحب مدلل بات کرنا ہو تو مجہول کا صیغہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ جس آدمی نے وہ روایت "بنائی" ہو اس کا نام سامنے لانا چاہیے۔
اس بات کو ثابت کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ تفسیر اور حدیث کی معتبر کتب میں جہاں یہ روایات آئی ہیں ان کے راویوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ بس آپ یہ کریں کہ جس راوی پر آپ کو شان نزول "بنانے" کا دعوی ہے اس پر انگلی رکھیں اور دلیل سے ثابت کردیں۔ اگر آپ اس کام کے لیے تیار ہیں تو بسم اللہ! ہم بھی پڑھیں گے۔
ہوائی فائرنگ سے تو کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ :)

جناب ایک کام تو یہ ہے کہ میں راویوں کے حالات زندگی پڑھنا شروع کر دوں، ان پر مختلف لوگوں کی جرح پڑھوں، علم الرجال کی کتابیں کھنگالوں اور اس راوی پر انگلی رکھوں جس نے جھوٹی روایات گھڑی ہیں

اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں قرآن کو سمجھوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، آخر الله نے متعدد بار کہا ہے کہ آخر تم اس قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے، اس میں کوئی اختلاف نہیں یا ہم نے اس قرآن کو آسان کر دیا پھر ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ... اور اس کی بات کو بیان کر دوں. اس میں مجھے دو فائدے لگتے ہیں
اول: میں قرآن پڑھوں گا تو اس کا ثواب ہی ہو گا اور اس کو سمجھنے کی کوشش کروں گا تو الله کے احکام پر ہی عمل کر رہا ہوں گا
دوم: یہ کہ مجھے معلوم ہو گا کہ یہ قرآن کہہ کیا رہا ہے.

تو میں نے دوسرا طریقہ اپنایا ہے. اور میں نے اپنی دلیل کی بنیاد قرآن پر رکھی ہے. آپ کو اختلاف رائے کا پورا حق ہے اور مجھے اس پر اعتراض بھی نہیں ہے. لیکن بحث برائے بحث وقت کا ضائع ہی ہے. آپ کو کسی نکتہ پر اعتراض ہے تو ضرور بتائیں

واسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
جو شخص رکنیت حاصل کرنے کے بعد پہلا مراسلہ ہی اختلاف پھیلانے کی غرض سے لکھےاس کے حوالے سے کیا پالیسی ہے؟
اور مراسلہ بھی وہ جو کاپی پیسٹ ہو۔
ایسے لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑوایا جائے۔
 

ابن آدم

محفلین
جو شخص رکنیت حاصل کرنے کے بعد پہلا مراسلہ ہی اختلاف پھیلانے کی غرض سے لکھےاس کے حوالے سے کیا پالیسی ہے؟
اور مراسلہ بھی وہ جو کاپی پیسٹ ہو۔
ایسے لوگوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑوایا جائے۔
اگر قرآن کی بات کرنا لوگوں لڑوانا ہے تو پھر ہمیں شاید اسلامی فورم نہیں رکھنا چاہیے اپنی ویب سائٹس پر. میں نے قرآن کی دلیل رکھی ہے ان لوگوں کے لئے جو آخرت کی فکر کرتے ہیں اور قرآن پر غور و خوض کرنا چاہتے ہیں.
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب آپ قرآن کے مقابلے میں روایت کو لا رہے ہیں تو پھر خود ہی سوچیں کہ جب آپ نے قرآن کو روایت کے تابع کر دیا ہے تو پھر آپ کا ایمان تو روایت پر ہوا نہ کہ قرآن پر اور کیا اس عمل کو انکار قرآن نہ کہا جائے گا.

بہت سی روایات اس لیے بنائی گئی ہیں کہ قرآن جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہوا ہے اس میں کیسے نقب لگایا جائے، تو روایت بنا کر اس کے قرآن سے ہٹ کر مطالب نکالے گئے، لیکن میرے لئے قرآن مبین(واضح) ہے اور قرآن فرقان بھی ہے (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والی کتاب) اور جہاں بھی قرآن اور روایت میں اختلاف اے گا تو میں قرآن کے ہی پیچھے چلوں گا اور روایت کو چھوڑ دوں گا.
آپ کے اس مراسلے سے علم ہو گیا کہ آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل نہیں سو اس موضوع پر مزید بات کرنا عبث ہوگا۔ والسلام
 

ابن آدم

محفلین
آپ کے اس مراسلے سے علم ہو گیا کہ آپ سنت اور حدیث کی شرعی حجیت کے قائل نہیں سو اس موضوع پر مزید بات کرنا عبث ہوگا۔ والسلام
بالکل درست فرمایا آپ نے. جب قرآن سے ایک موقف آ جائے گا تو اس کو روایت کی وجہ سے بدل نہیں سکتا کیونکہ میری نظر میں قرآن روایت کا تابع نہیں بلکہ روایت قرآن کے تابع ہے. ہاں اگر قرآن کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو بالکل نشاندھی کریں اور میں آپ کا شکرگزار ہوں گا
 

ابو ہاشم

محفلین
بالکل درست فرمایا آپ نے. جب قرآن سے ایک موقف آ جائے گا تو اس کو روایت کی وجہ سے بدل نہیں سکتا کیونکہ میری نظر میں قرآن روایت کا تابع نہیں بلکہ روایت قرآن کے تابع ہے.
اس موضوع کے علاوہ آپ نے اور کن موضوعات کا اس طریقے سے مطالعہ کیا ہے؟
 

سید ذیشان

محفلین
اس پوری تحریر کا premise یہ ہے کہ مباہلہ ہو نہ ہو یہودیوں سے کیا گیا کیونکہ نصرانیوں اور مسلمانوں کا تو خدا ہی الگ ہے۔ یہ بات اس قدر واہیات ہے کہ اس کا کوئی جواب دینا ہی بےکار ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر صحیح روایات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سورہ بقرہ تین ہجری میں مکمل ہو گئی تھی؟ کیا قرآن کے نازل ہوتے وقت سن ہجری کا بھی تعین متن میں کیا گیا تھا؟ یا یہ بات روایات سے معلوم ہوتی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
شانِ نزول کے نام پر قرآن پرجو بڑے بڑے ڈاکے ڈالے گئے ہیں ان میں سب سے بڑا ڈاکہ انہی آیات پر ہے
کیا آپ نے نعوز باللہ قرآن پاک پر کوئی کاپی رائٹ کروا رکھا ہے جو آپ کی من پسند تشریح کے علاوہ ہر تشریح شان نزول پر ڈاکہ تصور ہوگا؟
 

جاسم محمد

محفلین
بہت سی روایات اس لیے بنائی گئی ہیں کہ قرآن جس کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہوا ہے اس میں کیسے نقب لگایا جائے
یہاں تو آپ خود اللہ تعالیٰ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ قرآن پاک کی حفاظت میں خدانخواستہ ناکام رہا اگر کوئی انسان اس میں اتنی آسانی سے نقب لگا سکتا ہے۔ اور اس مبینہ نقب زنی سے قرآن کو بچانے کیلئے آپ کو میدان میں اترنا پڑا۔
 

ابن آدم

محفلین
اس موضوع کے علاوہ آپ نے اور کن موضوعات کا اس طریقے سے مطالعہ کیا ہے؟
سبع المثانی پر ایک تحریر اسی فورم پر ڈالی ہے. نبی نے کیا چیز حرام کی تھی، سوره تحریم میں جس کا ذکر آیا ہے اس کے اوپر ہے تحریر. صلات الوسطی قرآن کی رو سے کون سی بنتی ہے اس پر انشاء الله جلد ڈالوں گا. اور بھی موضوعات ہیں جن پر قرآن کی روشنی میں غور و فکر کرتا ہوں
 

ابن آدم

محفلین
یہاں تو آپ خود اللہ تعالیٰ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ قرآن پاک کی حفاظت میں خدانخواستہ ناکام رہا اگر کوئی انسان اس میں اتنی آسانی سے نقب لگا سکتا ہے۔ اور اس مبینہ نقب زنی سے قرآن کو بچانے کیلئے آپ کو میدان میں اترنا پڑا۔
قرآن میں الله یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ انھوں انبیا کا قتل کیا، تو کیا الله اپنے انبیاء کی حفاظت نہیں کر سکا (نعوز باللہ). الله نے کہا ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور قرآن واقعی محفوظ ہے اور ہر غلط اور گھڑی ہوئی روایت کے خلاف آپ کو قرآن سے کم از کم ایک آیت/دلیل ضرور ملتی ہے. تو نقب انسان کی عقل پر لگتا ہے جب وہ دوسروں کو خدا بنا لیتا ہے. جیسے ابو جہل نے اپنے باپ دادا کے نظریات کو بنایا ہوا تھا.
 

ابن آدم

محفلین
اس پوری تحریر کا premise یہ ہے کہ مباہلہ ہو نہ ہو یہودیوں سے کیا گیا کیونکہ نصرانیوں اور مسلمانوں کا تو خدا ہی الگ ہے۔ یہ بات اس قدر واہیات ہے کہ اس کا کوئی جواب دینا ہی بےکار ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر صحیح روایات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سورہ بقرہ تین ہجری میں مکمل ہو گئی تھی؟ کیا قرآن کے نازل ہوتے وقت سن ہجری کا بھی تعین متن میں کیا گیا تھا؟ یا یہ بات روایات سے معلوم ہوتی ہے؟
قرآن کو الله نے مبین کتاب کہا ہے یعنی جو واضح اور روشن ہو. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورتوں کا دور نزول کا تعین کیسے کیا جائے. اگر اس کے لئے ہمیں قرآن سے باہر کسی ضمیمے کی مدد چاہیے ہو تو پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ قرآن ایک نامکمل کتاب ہے. سوره بقرہ میں جب الله نے یہودیوں پر چارج شیٹ لگائی تو اس میں ایک بات یہ بھی بتائی کہ انھوں بیچ دیتے تھے. اب اس کا کیا مطلب ہے؟ میری نظر میں تو یہی ہے کہ اس کے مطالب میں کوئی روایت یا کوئی باہر کی چیز ڈال کر اس کو بدل دیتے تھے.

الله نے جب مشرکوں اور یہودیوں کو قرآن جیسی چیز بنا کر لانے کا کہا تو یہ کہا کہ ایسی دس سورتیں بنا لاؤ تو اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ سورت ایک متعین وقت میں اترتی تھی اور مسلمان اور غیر مسلموں کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ سورت اتر ائی ہے. یہ نہیں تھا کہ آیتیں اتریں اور ان کو کہیں پر فٹ کر دیا اور معلوم ہی نہیں کہ سورت کی آخری آیت کب اترے گی ورنہ تو یہ چیلنج ہی غلط ہوا کہ قرآن کی کوئی سورت ہی مکمل نہیں تو ان کو دس سورتیں بنا کر لانے کو کہہ دیا جائے.

اب سوره بقرہ کو ٢ ہجری کا کیوں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غزوہ بدر سے پہلے ہے اور اس میں جو احکامات ائے وہ پہلے پہلے ہیں جیسے شراب کے خلاف حکم.
 

سید ذیشان

محفلین
قرآن کو الله نے مبین کتاب کہا ہے یعنی جو واضح اور روشن ہو. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورتوں کا دور نزول کا تعین کیسے کیا جائے. اگر اس کے لئے ہمیں قرآن سے باہر کسی ضمیمے کی مدد چاہیے ہو تو پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ قرآن ایک نامکمل کتاب ہے. سوره بقرہ میں جب الله نے یہودیوں پر چارج شیٹ لگائی تو اس میں ایک بات یہ بھی بتائی کہ انھوں بیچ دیتے تھے. اب اس کا کیا مطلب ہے؟ میری نظر میں تو یہی ہے کہ اس کے مطالب میں کوئی روایت یا کوئی باہر کی چیز ڈال کر اس کو بدل دیتے تھے.

الله نے جب مشرکوں اور یہودیوں کو قرآن جیسی چیز بنا کر لانے کا کہا تو یہ کہا کہ ایسی دس سورتیں بنا لاؤ تو اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ سورت ایک متعین وقت میں اترتی تھی اور مسلمان اور غیر مسلموں کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ سورت اتر ائی ہے. یہ نہیں تھا کہ آیتیں اتریں اور ان کو کہیں پر فٹ کر دیا اور معلوم ہی نہیں کہ سورت کی آخری آیت کب اترے گی ورنہ تو یہ چیلنج ہی غلط ہوا کہ قرآن کی کوئی سورت ہی مکمل نہیں تو ان کو دس سورتیں بنا کر لانے کو کہہ دیا جائے.

اب سوره بقرہ کو ٢ ہجری کا کیوں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غزوہ بدر سے پہلے ہے اور اس میں جو احکامات ائے وہ پہلے پہلے ہیں جیسے شراب کے خلاف حکم.
شراب کی حرمت کا سال معلوم کرنے کے لئے دوبارہ روایات پر آنا پڑے گا۔ قرائن یا واقعات کی جب بات کریں گے تو لامحالہ روایات پر آنا پڑے گا۔ کیونکہ قرآن مجید vacuum میں نازل نہیں ہوا تھا۔ قرآن کو سمجھنے کے لئے اس وقت کے معاشرے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ناسخ و منسوخ آیات کا تعین بھی روایات اور واقعات کی روشنی میں کیا جائے گا۔

اس طرح کی کافی سورتیں ہیں (20 کے قریب) جن میں متن سے مکمل تعین کرنا ممکن نہیں کہ وہ مدنی ہیں یا مکی اور علماء میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ کیا یہ سورتیں مکی ہیں یا مدنی۔ اس طرح جب روایات سے بھی مکمل تعین ممکن نہیں تو کسی کا دعوی کرنا کہ صرف قرآن سے سن ہجری بھی معلوم ہو جائے گا کہ کونسی آیت کس سن میں نازل ہوئی بعید از قیاس ہے۔

جہاں تک مکمل ہونے والی بات ہے تو یہ چیلینج کئی مرتبہ دیا گیا۔ اسی سورہ میں بھی یہ چیلینج دیا گیا کہ قرآن جیسی کوئی سورہ لاو۔ جبکہ قرآن تو مکمل نہیں تھا۔ اور کافی مدنی سورتیں نازل نہیں ہوئی تھیں۔ تو یہ چیلینج کیا صرف مکی سورتوں کے لئے تھا؟ اگر تمام کے لئے تھا تو آپ کی بات کا جواب مل گیا کہ جس طرح قرآن مکمل نہیں تھا پھر بھی چیلینج دیا گیا اس طرح سورہ بقرہ کے بھی نا مکمل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظاہری بات ہے چیلینج ان تمام سورتوں کے بارے میں ہے جو نازل ہو چکی ہیں۔ اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
 

ابن آدم

محفلین
شراب کی حرمت کا سال معلوم کرنے کے لئے دوبارہ روایات پر آنا پڑے گا۔ قرائن یا واقعات کی جب بات کریں گے تو لامحالہ روایات پر آنا پڑے گا۔ کیونکہ قرآن مجید vacuum میں نازل نہیں ہوا تھا۔ قرآن کو سمجھنے کے لئے اس وقت کے معاشرے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ناسخ و منسوخ آیات کا تعین بھی روایات اور واقعات کی روشنی میں کیا جائے گا۔

اس طرح کی کافی سورتیں ہیں (20 کے قریب) جن میں متن سے مکمل تعین کرنا ممکن نہیں کہ وہ مدنی ہیں یا مکی اور علماء میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ کیا یہ سورتیں مکی ہیں یا مدنی۔ اس طرح جب روایات سے بھی مکمل تعین ممکن نہیں تو کسی کا دعوی کرنا کہ صرف قرآن سے سن ہجری بھی معلوم ہو جائے گا کہ کونسی آیت کس سن میں نازل ہوئی بعید از قیاس ہے۔

جہاں تک مکمل ہونے والی بات ہے تو یہ چیلینج کئی مرتبہ دیا گیا۔ اسی سورہ میں بھی یہ چیلینج دیا گیا کہ قرآن جیسی کوئی سورہ لاو۔ جبکہ قرآن تو مکمل نہیں تھا۔ اور کافی مدنی سورتیں نازل نہیں ہوئی تھیں۔ تو یہ چیلینج کیا صرف مکی سورتوں کے لئے تھا؟ اگر تمام کے لئے تھا تو آپ کی بات کا جواب مل گیا کہ جس طرح قرآن مکمل نہیں تھا پھر بھی چیلینج دیا گیا اس طرح سورہ بقرہ کے بھی نا مکمل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظاہری بات ہے چیلینج ان تمام سورتوں کے بارے میں ہے جو نازل ہو چکی ہیں۔ اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔

جزاک الله، آپ نے بہت اچھے سوالات اٹھائے ہیں. اور ایسے ہی سوالات کے ساتھ قرآن کو رجوع کیا تھا اور الله سے دعا کی تھی. سوره مائدہ کے دور نزول پر ایک تحریر ہے جس پر اسی لحاظ سے بحث کی گئی ہے. پوری تحریر کو اس ٹوپک میں پیسٹ کرنا کچھ مناسب نہیں اس لئے اس کا لنک ہے. امید ہے کہ آپ سوچ کر اس پر مزید سوالات اور نکات اٹھائیں گے.

https://ia800801.us.archive.org/3/items/SurahMaidaAll/Surah-Maida-All.pdf
 

ام اویس

محفلین
الله نے کہا ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور قرآن واقعی محفوظ ہے

یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟
الله سبحانہ وتعالی نے کن لوگوں کے ذریعہ قرآن کو محفوظ کیا؟
آپ تک الله کا محفوظ کردہ قرآن کیسے پہنچا ؟
اگر آپ کو روایات پر شک ہے تو کس چیز نے آپ کو یقین دلایا کہ جو قرآن آج آپ پڑھ رہے ہیں وہ وہی ہے جو الله جل جلالہ نے نازل فرمایا؟
 
Top