نا آشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں

الف عین

لائبریرین
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں
ترے بعد اگر پہلے آ سکے تو بہت بہتر ہو

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا کروں اٹھا کے بھی تیغ و سپر کو میں
یا
ہے جس عدو کا تیرِ نظر دل کے آر پار
آگے اُسی کے کیا کروں تیغ و سپر کو میں
دوسرے متبادل میں ردیف کے "کو" زائد لگتا ہے، پہلا ہی بہتر ہے


رویا کیا اگرچہ تو ہوں عمر بھر کو میں
ردیف میں کو زائد لگتا ہے
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 
مرزا غالب کی زمین میں یہ غزل اگرچہ رواں برس کے مشاعرے میں پیش کر چکا ہوں۔ لیکن یہاں پر پیش کرنے کا مقصد اہلِ سخن دوستوں سے تنقیدی تبصرہ اور باقی دوستوں کی چشم خراشی مقصود ہے😊

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی، عمر بھر اک اک نظر کو میں

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
اچھی کوشش ہے ، روفی بھائی ! احباب كے تبصروں کی روشنی میں آپ نے اسے خاصہ بہتر بنا لیا ہے . مبارک باد .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اکثر اشعار بہتر ہوگئے ہیں ، عبدالرؤف ۔ لیکن ان اشعار کو پھر دیکھیے۔
تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا کروں اٹھا کے بھی تیغ و سپر کو میں
یا
ہے جس عدو کا تیرِ نظر دل کے آر پار
آگے اُسی کے کیا کروں تیغ و سپر کو میں
اس مضمون کو خوب اچھی طرح پرکھیے ۔ اس کے ہر پہلو پر غور کیجیے۔ تصویری خاکہ ذہن میں بٹھائیے اور پھر سوچیے کہ تیغ و سپر کی ضرورت کس کو نہیں ہے ۔ معشوق کو یا عاشق کو ؟
پہلے شعر میں الفاظ مضمون کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ مدعا تو یہ ہے کہ دشمنِ جاں کا تیرِ نظر ہی کارگر ہے اس لیے دشمنِ جاں کو تیغ و سپر اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن بات آپ اپنے تیغ و سپر اٹھانے کی کررہے ہیں ۔ تیغ و سپر اٹھانے کا مطلب ہوتا ہے لڑنے کے لیے تیار ہوجانا ، جنگ پر آمادہ ہوجانا ۔ کوئی محاورہ یا روزمرہ استعمال کرنے سے پہلے اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب معلوم ہونا نہایت ضروری ہے۔
دوسرا شعر : تیغ و سپر کسی کے آگے کرنا کوئی زبان نہیں ۔ تیغ و سپر کسی کو تھمائے جاسکتے ہیں ، دیے جاسکتے ہیں ۔ اس شعر میں تیغ کا کوئی محل نہیں ۔ صرف سپر سے مطلب ادا ہوجائے گا ۔
سو آپ یہ کہیے کہ اس کا تیرِ نظر ہی دل کے پار ہوگیا سو اب میں اس کے آگے سپر کیا اٹھاؤں ۔ سپر اٹھانا کا مطلب ہوتا ہے دفاع کرنا ۔ جبکہ سپر ڈالنا اور سپر پھینکنا کے معنی ہیں ہتھیار ڈالنا۔
بے داد ہی رہی ہے چمن میں ہر اک فغاں
رویا کیا اگرچہ تو ہوں عمر بھر کو میں
مصرع جب الجھا ہوا ہو تو ہمیشہ اس کی نثر بنا کر دیکھیے ۔ غلطی واضح ہوجائے گی۔ اگرچہ میں عمر بھر رویا کیا ہوں ۔ اس فقرے میں :عمر بھر کو: غلط ہے ۔ یہاں کو کا محل نہیں ہے ۔
واقف نہ ہو وہ آنکھ تغافل کے قہر سے
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں
یہاں واقف ہونے کا محل نہیں ۔ مبتلا ہونے کا محل ہے ۔
سر خاک خاک کر لیا، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں
خاک خاک کرنا اردو نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ سر خاک خاک کرنا مزید غلطی ہے ۔ آدمی خود کو خاک کرسکتا ہے ۔ صرف سر کو خاک کیسے کرے گا۔

بھائی ، اچھا شعر و نثر تخلیق کرنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ مطالعے پر دھیان دیجیے۔ جہاں شک یا ابہام ہو لغت سے رجوع کیجیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو شعر و ادب کے مشاہیر یعنی بڑے بڑے نامور قدآور لوگ اپنی تمام تر زبان دانی کے باوجود لغت سے رجوع کرتے رہتے تھے۔

اپنے اس نکتے کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ بہت عرصہ پہلے ایک دوست نے ہندوستان کے ایک مشہور غزل گا متشاعر منظر بھوپالی کی ایک وڈیو مجھے بھیجی جس میں وہ اپنا کلام ترنم سے پڑھ کر داد و تحسین سمیٹ رہے تھے ۔ اس مشاعرے سے کچھ پہلے ہندوستان میں عید کے موقع پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے اور مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھایا گیا تھا ۔ اسی پس منظر میں منظر بھوپالی نے ایک شعر کچھ اس مضمون کا پڑھا کہ: تم نے تو ہم سے عید کی خوشیاں چھین لیں لیکن ہم اس مرتبہ دیوالی پر کچھ دیے بڑھادیں گے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیں گے بلکہ حسبِ معمول تمہاری دیوالی میں شریک ہوکر اس بار کچھ دیے اور زیادہ جلائیں گے۔ سامعین تو اس شعر پر واہ واہ کررہے تھے لیکن ان کا یہ شعر سن کر میرے منہ سے لاحول کے علاوہ اور کچھ نہ نکل سکا ۔ شاعر کو معلوم نہیں تھا کہ دیا بڑھانے کا مطلب دیا بجھانا ہوتا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اکثر اشعار بہتر ہوگئے ہیں ، عبدالرؤف ۔ لیکن ان اشعار کو پھر دیکھیے۔

اس مضمون کو خوب اچھی طرح پرکھیے ۔ اس کے ہر پہلو پر غور کیجیے۔ تصویری خاکہ ذہن میں بٹھائیے اور پھر سوچیے کہ تیغ و سپر کی ضرورت کس کو نہیں ہے ۔ معشوق کو یا عاشق کو ؟
پہلے شعر میں الفاظ مضمون کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ مدعا تو یہ ہے کہ دشمنِ جاں کا تیرِ نظر ہی کارگر ہے اس لیے دشمنِ جاں کو تیغ و سپر اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن بات آپ اپنے تیغ و سپر اٹھانے کی کررہے ہیں ۔ تیغ و سپر اٹھانے کا مطلب ہوتا ہے لڑنے کے لیے تیار ہوجانا ، جنگ پر آمادہ ہوجانا ۔ کوئی محاورہ یا روزمرہ استعمال کرنے سے پہلے اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب معلوم ہونا نہایت ضروری ہے۔
دوسرا شعر : تیغ و سپر کسی کے آگے کرنا کوئی زبان نہیں ۔ تیغ و سپر کسی کو تھمائے جاسکتے ہیں ، دیے جاسکتے ہیں ۔ اس شعر میں تیغ کا کوئی محل نہیں ۔ صرف سپر سے مطلب ادا ہوجائے گا ۔
سو آپ یہ کہیے کہ اس کا تیرِ نظر ہی دل کے پار ہوگیا سو اب میں اس کے آگے سپر کیا اٹھاؤں ۔ سپر اٹھانا کا مطلب ہوتا ہے دفاع کرنا ۔ جبکہ سپر ڈالنا اور سپر پھینکنا کے معنی ہیں ہتھیار ڈالنا۔

مصرع جب الجھا ہوا ہو تو ہمیشہ اس کی نثر بنا کر دیکھیے ۔ غلطی واضح ہوجائے گی۔ اگرچہ میں عمر بھر رویا کیا ہوں ۔ اس فقرے میں :عمر بھر کو: غلط ہے ۔ یہاں کو کا محل نہیں ہے ۔

یہاں واقف ہونے کا محل نہیں ۔ مبتلا ہونے کا محل ہے ۔

خاک خاک کرنا اردو نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ سر خاک خاک کرنا مزید غلطی ہے ۔ آدمی خود کو خاک کرسکتا ہے ۔ صرف سر کو خاک کیسے کرے گا۔

بھائی ، اچھا شعر و نثر تخلیق کرنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ مطالعے پر دھیان دیجیے۔ جہاں شک یا ابہام ہو لغت سے رجوع کیجیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو شعر و ادب کے مشاہیر یعنی بڑے بڑے نامور قدآور لوگ اپنی تمام تر زبان دانی کے باوجود لغت سے رجوع کرتے رہتے تھے۔

اپنے اس نکتے کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ بہت عرصہ پہلے ایک دوست نے ہندوستان کے ایک مشہور غزل گا متشاعر منظر بھوپالی کی ایک وڈیو مجھے بھیجی جس میں وہ اپنا کلام ترنم سے پڑھ کر داد و تحسین سمیٹ رہے تھے ۔ اس مشاعرے سے کچھ پہلے ہندوستان میں عید کے موقع پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے اور مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھایا گیا تھا ۔ اسی پس منظر میں منظر بھوپالی نے ایک شعر کچھ اس مضمون کا پڑھا کہ: تم نے تو ہم سے عید کی خوشیاں چھین لیں لیکن ہم اس مرتبہ دیوالی پر کچھ دیے بڑھادیں گے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیں گے بلکہ حسبِ معمول تمہاری دیوالی میں شریک ہوکر اس بار کچھ دیے اور زیادہ جلائیں گے۔ سامعین تو اس شعر پر واہ واہ کررہے تھے لیکن ان کا یہ شعر سن کر میرے منہ سے لاحول کے علاوہ اور کچھ نہ نکل سکا ۔ شاعر کو معلوم نہیں تھا کہ دیا بڑھانے کا مطلب دیا بجھانا ہوتا ہے۔
بہت اچھے۔۔۔ مجھے خود بھی مطالعے کی کمی کا بہت احساس ہو رہا ہے۔ میں بھی سوچ رہا ہوں کہ لکھنے سے زیادہ پڑھنے کو وقت دیا جانا چاہیے۔ ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ اور رہنمائی کا بہت شکریہ۔ خوش رہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ظہیر بھائی، اب ذرا دیکھیے گا۔
تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
کیا سامنے پھر اس کے اٹھاؤں سپر کو میں

بے داد ہی رہی ہے گو آہ و فغاں مری
دیتا رہا صدائیں ہر اک داد گر کو میں

اُس آنکھ پر نہ ٹوٹے تغافل کا کوئی قہر
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں

سر اٹ گیا ہے خاک سے، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ عدو کا تیرِ نظر آپ کے دل کے پار کیوں ہورہا ہے ؟!اس تناظر میں عدو کا محل ہے یا محبوب کا؟ محبوب کو دشمنِ جاں ، دشمنِ ایمان ، دشمنِ ہوش وغیرہ تو کہا جاتا ہے لیکن سیدھا سیدھا عدو ؟
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی، اب ذرا دیکھیے گا۔
تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
کیا سامنے پھر اس کے اٹھاؤں سپر کو میں

بے داد ہی رہی ہے گو آہ و فغاں مری
دیتا رہا صدائیں ہر اک داد گر کو میں

اُس آنکھ پر نہ ٹوٹے تغافل کا کوئی قہر
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں

سر اٹ گیا ہے خاک سے، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں
یار روفی ابتدائی شکل تو اس کی پھر کچھ بہتر تھی اب یوں لگ رہا ہے کوئی قبول صورت دوشیزہ ٹنڈ کرا کے آگئی ہو۔
 

یاسر شاہ

محفلین
Top