محمد بلال اعظم

لائبریرین
آئینہ

تجھ سے بچھڑا ہوں تو آج آیا مجھے اپنا خیال
ایک قطرہ بھی نہیں باقی کہ ہوں پلکیں تو نم
میری آنکھوں کے سمندر کون صحرا پی گئے
ایک آنسو کو ترستی ہے مری تقریبِ غم

میں نہ رو پایا تو سوچا مسکرا کر دیکھ لوں
شاید اس بے جان پیکر میں کوئی زندہ ہو خواب
پر لبوں کے تن برہنہ شاخچوں پر اب کہاں
مسکراہٹ کے شگوفے خندۂ دل کے گلاب

کتنا ویراں ہو چکا ہے میری ہستی کا جمال
تجھ سے بچھڑا ہوں تو آج آیا مجھے اپنا خیال
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نذرِ نذرل1؎

فنکار کو اپنے سحرِ فن سے
پتّھر کو زبان بخشتا ہے
الفاظ کو ڈھال کر صدا میں
آواز کو جان بخشتا ہے
تاریخ کو اپنا خون دے کر
تہذیب کو شان بخشتا ہے

فنکار خموش ہو تو جابر
ظلمت کے نشان کھولتا ہے
ہر اہلِ نظر کو دستِ قاتل
نیزے کی اَنی پہ تولتا ہے
انسان بزورِ خاک و خوں میں
انساں کے حقوق رولتا ہے

فنکار اگر زباں نہ کھولے
انبارِ گہر نصیب اُس کا
ورنہ ہر شہر یار دشمن
ہر شیخِ یار رقیب اُس کا
چاہے وہ فرازؔ ہو کہ نذرلؔ
بولے تو صلہ صلیب اُس کا

1؎ نذرالسلام
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لہولہان مسیحا

زمیں نے سانولے چہروں کی دُھند پھیلا دی
جب آفتاب نے چاہا کہ اپنے شعلوں سے
سمندروں کی تہوں کے تمام لعل و گُہر
محبتوں کے مہکتے گلاب راکھ کرے
زمیں کے سانولے چہرے نہ سرمئی بادل
بچا سکے ہیں مرے کاسنی شگوفوں کو!
ابل رہے ہیں چٹانوں پہ رینگتے چشمے

ہر ایک سرو صنوبر، چنار کی صُورت
بھڑک اُٹھا ہے یہاں تک کہ میرا سایہ بھی
مرے وجود کی دیوار میں سمٹ آیا!
وہ آفتاب کے نصف النّہار پر ہے ابھی
مرے زمیں کے سلگتے ہُوئے شگوفوں کو
یقینِ غیر یقینی بہار پر ہے ابھی
پلٹ کے آئے نہ آئے اک آسرا ہے مگر
لہو لہان مسیحا کہ دار پر ہے ابھی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چلو اُس بُت کو بھی رو لیں

چلو اُس بُت کو بھی رو لیں
جسے سب نے کہا پتّھر
مگر ہم نے خدا سمجھا
خدا سمجھا
کہ ہم نے پتّھروں میں عمر کاٹی تھی
کہ ہم نے معبدوں کی خاک چاٹی تھی

کہ پتّھر تو کہیں دیوارِ زنداں
اور کہیں دہلیزِ مقتل تھے
کبھی سرمایۂ دامانِ خلقت
اور کبھی بختِ جنوں کیشاں
کبھی ان کا ہدف دکانِ شیشہ گر
کبھی صورت گرِ ہنگامۂ طفلاں
کبھی بے نور آنکھوں کے نشاں
بے اشک بے ارماں
کبھی لوحِ مزارِ جاں
نہ چارہ گر نہ اہلِ درد کے درماں
مگر وہ بُت
چراغِ بزمِ تنہائی
مجسّم رنگ و رعنائی
فضا کی روشنی
آنکھوں کی بینائی
سکونِ جاں
وہ آنکھیں درد کی جھیلیں
وہ لب چاہت کے شعلوں سے بھرے مرجاں
وہ بُت انساں
مگر ہم نے وفورِ شوق میں
فرطِ عقیدت سے کہا یزداں
یہ ہم کافر
کہ دنیا کم نظر ناداں

سبھی لائے ہمارے سامنے اوراقِ پارینہ
کہ جن پر نقش تھے
اہلِ وفا کے عکسِ دیرینہ
شکستہ استخواں بے جان نابینا
جبیں سجدوں سے داغی
اور زخموں سے بھرا سینہ
اور ان کے بُت
مآل سوزِ اہلِ دل سے بے پروا
سبھی خود بین و خود آرا
ہر اک محمل نشیں تنہا
مگر مصروفِ نظّارہ

اور ہم اب بھی گرفتہ دل
نہ محرومی کو سہہ پائیں
نہ بربادی چھپانے کے رہے قابل
وہ بُت مرمر کی سِل
اور اہلِ سجدہ کی جبیں گھائل
سبھی کی بات سچ
اور ہم ندامت کے عرق میں تر بتر
شرمندگی کے کرب سے بسمل
چلو اب اپنے جیسے نا مرادوں سے ہنس بولیں
جو وہ کہتے تھے وہ ہو لیں
جبیں کے داغ آنکھوں کا لہو دھو لیں
چلو اِس بُت کو بھی رو لیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خوں بہا

اُجرتی قاتل کی صورت
بے حس و بے درد لمحوں کا خدا
آج پہلی بار جیسے قتل کر کے
سخت شرمندہ ہُوا
بے گناہی کے لہو میں تر بتر
معصومیت کی راکھ میں لپٹی
تڑپتی آرزو چیخی
کہ آخر کس عداوت کس ارادے
کس خطا کی یہ سزا

ایک منعم کی طرح
اُجرتی قاتل نے میرے سامنے
بکھرے ہُوئے اوراق پر
لفظوں کے کچھ لعل و گہر
یاقوت و مرجاں۔۔۔رکھ دیے
لو خوں بہا
اور میں مقتول کے مجبور وارث کی طرح
چپ ہو گیا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نوحہ

اگرچہ مرگِ وفا بھی اک
سانحہ ہے لیکن یہ بے حسی
اس سے بڑھ کے جانکاہ ہے
کہ جب ہم خود اپنے ہاتھوں
سے اپنی چاہت کو نامرادی
کے ریگ زاروں میں دفن
کر کے جُدا ہُوئے تو نہ
تیری پلکوں پہ کوئی آنسو
لرز رہا تھا نہ میرے ہونٹوں
پہ کوئی جاں سوز مرثیہ تھا
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چاند اَور میں

چاند سے میں نے کہا! اے مری راتوں کے رفیق
تو کہ سر گشتہ و تنہا تھا سدا میری طرح
اپنے سینے میں چھپائے ہُوئے لاکھوں گھاؤ
تو دکھاوے کے لیے ہنستا رہا میری طرح
ضوفشاں حسن ترا میرے ہُنر کی صورت
اور مقدّر میں اندھیرے کی ردا میری طرح
وہی تقدیر تری میری زمیں کی گردش
وہی افلاک کا نخچیرِ جفا میری طرح
ترے منظر بھی ویراں مرے خوابوں جیسے
تیرے قدموں میں بھی زنجیرِ وفا میری طرح
وہی صحرائے شبِ زیست میں تنہا سفری
وہی ویرانۂ جاں دشتِ بلا میری طرح
آج کیوں میری رفاقت بھی گراں ہے تجھ کو
تو کبھی اتنا بھی افسردہ نہ تھا میری طرح
چاند نے مجھ سے کہا! اے مرے پاگل شاعر
تو کہ محرم ہے مرے قریۂ تنہائی کا
تجھ کو معلوم ہے جو زخم مری روح میں ہے
مجھ کو حاصل ہے شرف تیری شناسائی کا
موجزن ہے مرے اطراف میں اک بحرِ سکوت
اور چرچا ہے فضا میں تری گویائی کا

آج کی شب مرے سینے پہ وہ قابیل اترا
جس کی گردن پہ دمکتا ہے لہو بھائی کا
میرے دامن میں نہ ہیرے ہیں نہ سونا چاندی
اور بجز اس کے نہیں شوق تمنّائی کا
مجھ کو دُکھ ہے کہ نہ لے جائیں یہ دنیا والے
میری دنیا ہے خزانہ مری تنہائی کا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سہرا

یوں بی ہوتا ہے برسوں کے دو ہم سفر
اپنے خوابوں کی تعبیر سے بے خبر
اپنے عہدِ محبت کے نشّے میں گم
اپنی قسمت کی خوبی پہ نازاں مگر
زندگی کے کسی موڑ پر کھو گئے
اور اک دوسرے سے جُدا ہو گئے
یوں بی ہوتا ہے دو اجنبی راہ رو
اپنی راہوں سے منزل سے نا آشنا
ایک کو دوسرے کی خبر تک نہیں
کوئی پیمانِ الفت نہ عہدِ وفا
اتفاقات سے اِس طرح مِل گئے
ساز بھی بج اُٹھے پُھول بھی کِھل گئے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اگر یہ سب کچھ نہیں

ملے تو ہم آج بھی ہیں لیکن
نہ میرے دل میں وہ تشنگی تھی

کہ تجھ سے مل کر کبھی نہ بچھڑوں
نہ آج تجھ میں وہ زندگی تھی

کہ جسم و جاں میں اُبال آئے
نہ خواب زاروں میں روشنی تھی

نہ میری آنکھیں چراغ کی لو
نہ تجھ میں ہی خود سپردگی تھی

مجسّموں کی طرح تھے دونوں
نہ دوستی تھی نہ دشمنی تھی

مجھے تو کچھ یوں لگا ہے جیسے
وہ ساعتیں بھی گزر گئی ہیں

کہ جن کو ہم لازوال سمجھے
وہ خواہشیں بھی تو مر گئی ہیں

جو تیرے میرے لہو کی حدّت
کو آخرش برف کر گئی ہیں

محبّتیں شوق کی چٹانوں
سے گھاٹیوں میں اُتر گئی ہیں

وہ قربتیں وہ جدائیاں سب
غبار بن کر بکھر گئی ہیں

اگر یہ سب کچھ نہیں تو بتلا
وہ چاہتیں اب کدھر گئی ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ویت نام

مجھے یقیں ہے
کہ جب بھی تاریخ کی عدالت میں
وقت لائے گا
آج کے بے ضمیر و دیدہ دلیر قاتل کو
جس کا دامان و آستیں
خونِ بے گناہاں سے تر بتر ہے
تو نسلِ آدم
وفورِ نفرت سے روئے قاتل پہ تھوک دے گی
مگر مجھے اس کا بھی یقیں ہے
کہ کل کی تاریخ
نسلِ آدم سے یہ بھی پوچھے گی
اے مہذّب جہاں کی مخلوق
کل ترے رُو برو یہی بے ضمیر قاتل
ترے قبیلے کے بے گناہوں کو
جب تہہِ تیغ کر رہا تھا
تو تُو تماشائیوں کی صورت
خموش و بے حس
درندگی کے مظاہرے میں شریک
کیوں دیکھتی رہی ہے
تری یہ سب نفرتیں کہاں تھیں
بتا کہ اس ظلم کیش قاتل کی تیغ برّاں میں
اور تری مصلحت کے تیروں میں
فرق کیا ہے؟
تو سوچتا ہوں
کہ ہم سبھی کیا جواب دیں گے
٭٭٭​
 
Top