ناولوں یا ڈراموں پر بنائی گئی فلمیں

مارجوری کینان رولنگ کے ناول ( The Yearling (1938 پر اسی نام سے 1946میں فلم بنی تھی جس میں مرکزی کردار گریگوری پیک ۔ جین وئیمان اور کلاؤڈ جرمین جونئیر نے ادا کیے ۔ ناول اور فلم ہردو اعلی معیار کی ہیں ۔:):)
 
سلمی کنول کے ناول " چپکے سے بہار آجائے " پر پاکستان میں " مہمان " کے نام سے فلم بنی تھی جس میں راحت کاظمی ۔ بابرا شریف اور نیرہ سلطانہ نے اہم کرداراداکیے تھے ۔:):)
 
آخری تدوین:
منشی پریم چند کے افسانے " شطرنج کے کھلاڑی " پر 80 کے عشرے میں بھارت میں ایک فلم بنی تھی جس میں نواب واجدعلی شاہ کا کردار مایہ ناز اداکار امجد خان ( مرحوم / گبرسنگھ ) نے اداکیا تھا ۔ فلم کی کہانی کے تعارف کے لیے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کی پاٹ دار اور سحر انگیز آواز لی گئی تھی ۔:):)
 
تاریخی ناولوں کے کے معروف مصنف نسیم حجازی کے ناول " شاہین " پر ٹی وی سیریل بننے سے بہت پہلے اسی ناول سے ماخوذ " غرناطہ " کے نام سے ایک فلم بھی بنی تھی جس میں بدربن مغیرہ کا کردار یوسف خان نے ادا کیا تھا ۔ :):)
 
مائیکل کرکٹن کے ایک اور مگر قدرے کم مشہور ناول Disclosure پر 1994 میں Barry Levinson کی ڈائریکشن میں فلم بنی تھی جس میں مائیکل ڈگلس اور ڈیمی مور نے لیڈنگ رول کیے ہیں ۔:):)
 
ہیمنگوے کے شہرہ آفاق ناول Old man and the sea پر اسی نام سے انتھونی کوئن کو لیکر فلم بنائی گئی تھی جس میں موصوف نے بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے ۔:):)
 

جاسمن

لائبریرین
فلم ’تیسری قسم‘ پنشوار ناتھ رینو کی ہندی کہانی ’مارے گئے گلفام‘ کے پلاٹ پر مبنی ہے۔ باکمال باسو بھٹا چاریہ نے اس فلم کی ہدایات دی ہیں۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں راج کپور اور وحیدہ رحمان کو منتخب کیا گیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
عصمت چغتائی کی کہانی’گرم ہوا‘ ایک ایسے مسلم خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کے کچھ افراد تقسیم کے بعد پاکستان چلے جاتے ہیں لیکن سلیم مرزا نامی ایک شخص بضد ہے کہ ہندوستان اس کا وطن ہے اور وہ کہیں نہیں جائے گا۔

سلیم مرزا پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں وہ اُن بہت سے قوم پرست مسلمانوں کی بپتا بیان کرتی ہیں جنھوں نے پاکستان منتقل ہونے کی بجائے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی لیکن کبھی غّداری اور کبھی جاسوسی کے الزامات لگا کر اُن کا جینا حرام کیا گیا۔

عصمت چغتائی کی اس کہانی کو کیفی اعظمی نے فلمی سکرپٹ میں ڈھالا تھا اور ایم۔ایس ستھیو اس کے ڈائریکٹر تھے۔ سلیم مرزا کا مرکزی کردار بلراج ساہنی نے ادا کیا تھا، اور کیا خوب ادا کیا تھا! اُس زمانے کے بھارتی مسلمان کا کرب شاید اِس سے بہتر انداز میں پیش نہ کیا جا سکتا۔

جلال آغا نے بھی ایک اِبن الوقت اور موقع پرست نوجوان کا کردار انتہائی خوبی سے نبھایا تھا۔ گرم ہوا کو تقسیمِ ہند کے موضوع پر بننے والی فلموں میں ہمیشہ ایک بلند مقام حاصل رہے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
نسیم حجازی کا معروف ناول ’خاک اور خون‘

اس سے پہلے 1959 میں سیف الدین سیف نے بھی’کرتار سنگھ‘ نامی معروف فلم کم و بیش اسی تھِیم پر بنائی تھی جس میں علاءالدین نے ٹاِئٹل رول ادا کیا تھا، لیکن وہ کم سرمائے سے بنی ہوئی ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی اور اس کا سکرپٹ بھی احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’پرمیشر سنگھ‘ سے ماخوذ تھا۔

نسیم حجازی کے ناول کو اس کے پورے پھیلاؤ کے ساتھ پردۂ سیمیں پر پیش کرنا ایک بہت مہنگا پروجیکٹ تھا چنانچہ سرکاری فلم ساز اِدارہ نیفڈک ہی اس بھاری پتھر کو اٹھا سکتا تھا۔

ڈائریکٹر فرید احمد نے ٹیلی ویژن اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ فلم کی کاسٹ میں شامل کی جن میں نوین تاجک، سلیم ناصر، عابد علی، شجاعت ہاشمی، جمیل بسمل اور بدیع الزماں شامل تھے۔ ہیرو کا کردار ریڈیو کے ایک صدا کار آغا فراز کو سونپا گیا۔ نسیم حجازی کے ناول پر مبنی یہ فلم اُس وقت تک کی سب سے مہنگی پاکستانی پروڈکشن تھی۔
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان کی پارسی مصنفہ بپسی سدھوا کے انگریزی ناول ’آئس کینڈی مین‘ کو بھی’ارتھ‘ کے نام سے فلمی قالب میں ڈھالا گیا۔ 1998 میں بننے والی اس فلم کی ہدایتکار تھیں دیپا مہتا تھیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
خوشونت سنگھ کے ناول ’ٹرین ٹو پاکستان‘ کو 1998میں سکرین کی زینت بنایا گیا جس کے لیے برطانوی ٹیلی ویژن چینل فور اور فلمی ترویج و ترقی کے بھارتی سرکاری ادارے این ایف ڈی سی نے مالی امداد فراہم کی،لیکن اس فلم کو کوئی کمرشل کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور اس کی حیثیت ایک ٹیلی فلم کی سی رہی۔
 

یاز

محفلین
فرانسیس مصنف گستاو فلابیر کے مشہور زمانہ ناول "میڈم بواری" پہ کئی زبانوں میں فلمیں بن چکی ہیں۔ بالی ووڈ میں بھی اس ناول پہ ایک فلم بنی تھی "مایا میم صاحب" کے نام سے، جس میں دیپا ساہی، شاہ رخ خان، راج ببر اور فاروق شیخ نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ کہانی کے ساتھ ساتھ فلم کا میوزک اور ڈائیلاگ بھی انتہائی کمال تھے۔
بہت ہی شاندار فلم تھی۔ میں نے یہ فلم اتنی بار دیکھی ہے کہ شاید ہی کوئی اور فلم اتنی دفعہ دیکھی ہو۔
YEA1cTq.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
منشی پریم چند کے افسانے " شطرنج کے کھلاڑی " پر 80 کے عشرے میں بھارت میں ایک فلم بنی تھی جس میں نواب واجدعلی شاہ کا کردار مایہ ناز اداکار امجد خان ( مرحوم / گبرسنگھ ) نے اداکیا تھا ۔ فلم کی کہانی کے تعارف کے لیے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کی پاٹ دار اور سحر انگیز آواز لی گئی تھی ۔:):)
انتہائی لا جواب فلم۔سنجیو کمار ، سعید جعفری، امجد خان اور شبانہ اعظمی کی عمدہ اداکاری۔ 1977ء میں بنی تھی اور میں نے پہلی بار اپنے بچپن میں دُور درشن پر دیکھی تھی تب سمجھ تو نہیں تھی لیکن اچھی ضرور لگی تھی، بعد میں یو ٹیوب پر کئی بار دیکھی، اب بھی گاہے گاہے جب موقع ملے یا دل کرے۔ :)
maxresdefault.jpg
 

عثمان

محفلین
انتہائی لا جواب فلم۔سنجیو کمار ، سعید جعفری، امجد خان اور شبانہ اعظمی کی عمدہ اداکاری۔ 1977ء میں بنی تھی اور میں نے پہلی بار اپنے بچپن میں دُور درشن پر دیکھی تھی تب سمجھ تو نہیں تھی لیکن اچھی ضرور لگی تھی، بعد میں یو ٹیوب پر کئی بار دیکھی، اب بھی گاہے گاہے جب موقع ملے یا دل کرے۔ :)
maxresdefault.jpg
فلم میں شطرنج کا تذکرہ محض استعارے کے طور پر ہے یا واقعی شطرنج کے حوالے سے بھی کچھ کہانی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
فلم میں شطرنج کا تذکرہ محض استعارے کے طور پر ہے یا واقعی شطرنج کے حوالے سے بھی کچھ کہانی ہے؟
اودھ کے دو شطرنج کے شوقین نوابوں کی کہانی ہے۔ پس منظر میں دو کہانیاں ہیں، ایک اہم اور اصل سیاسی یعنی انگریزوں کی اودھ پر قبضے کی اور دوسری ان نوابوں کے گھر وں کی ان کی بیویاں ان کی عدم توجہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نوابوں کو جب گھروں میں وہ کھیلنے نہیں دیتیں تو وہ ویرانوں کی طرف کھیلنے نکل جاتے ہیں، وغیرہ۔ :)
 
Top