نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا :تازہ غزل

بھیگتی رات لئے پھر سے دسمبر آیا
آج پھر یاد ہمیں ایک ستمگر آیا

پھر سے ملنا ہے اسے اور بچھڑ جانا ہے
ہائے کس موڑ پہ لے کر یہ مقدر آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ پتھر ہے دھرا سینے میں
ذکر پھر کس کا چھڑا ہے کہ یہ جی بھر آیا

شہرِ ظلمت میں جلانے کو نئی شمعِ امید
نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا

چیختی خامشی رخصت ہوئی دروازے سے
ایک سناٹا سرِ شام مرے گھر آیا

راز جتنے تھے ہمارے وہ ہوئے سب ظاہر
جب ترا ذکر فسانے میں مرے در آیا

کس نے مضراب کیا یاد کی تاروں کو شکیل
گیت بِسرا ہوا یک لخت لبوں پر آیا

ایک تازہ کلام

استادِ محترم الف عین
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
محترمی مزاج شریف کیسا ہے !
ماشاء الله دن بدن آپ کی مشق سخن نکھر رہی ہے -
بھیگتی رات لئے پھر سے دسمبر آیا
آج پھر یاد ہمیں ایک ستمگر آیا
"بھیگتی رات لیے "اچھا نہیں لگا -ایسا لگ رہا کہ آپ کسی مخصوص رات کا ذکر کر رہے ہیں اور ہر دسمبر میں یہ گیلی رات پھر آتی ہے اور آپ کو پہلے ایک ستمگر یاد آتا ہے پھر دوسرا اور پھر تیسرا .....

پہلے مصرع کی جگہ یہ مصرعے دیکھیں :

سرد /ٹھنڈی شامیں لیے پھر ماہ دسمبر آیا
بھیگی راتیں لیے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سرد /ٹھنڈی راتیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

پھر سے ملنا ہے اسے اور بچھڑ جانا ہے
ہائے کس موڑ پہ لے کر یہ مقدر آیا

اچھا ہے -"اسے" کی جگہ" ہمیں "زیادہ پر اثر لگتا ہے -

پھر سے ملنا ہے ہمیں اور بچھڑ جانا ہے
ہائے کس موڑ پہ لے کر یہ مقدر آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ پتھر ہے دھرا سینے میں
ذکر پھر کس کا چھڑا ہے کہ یہ جی بھر آیا
واہ خوب اور کیا ہی برجستہ ہے -

شہرِ ظلمت میں جلانے کو نئی شمعِ امید
نامہِ عشق لئے کون پیمبر آیا
کونسی نئی شمع امید ؟، کون پیمبر ؟ شعر میں بھی یہ عنوان وحشت ناک ہے -

چیختی خامشی رخصت ہوئی دروازے سے
ایک سناٹا سرِ شام مرے گھر آیا
"چیختی خامشی" بھرتی کی ترکیب لگی اور پھر رخصت تو گھر کے دروازے سے ہی ہونا ہے کھڑکی سے تھوڑی کودے گی -

ایسا کچھ سوچا جا سکتا ہے:
کچھ تو تھا پاس جو رخصت ہوا دن ڈھلتے ہی

راز جتنے تھے ہمارے وہ ہوئے سب ظاہر
جب ترا ذکر فسانے میں مرے در آیا
شتر گربہ ہو گیا شکیل میاں!
مجھے کم از کم اس میں شتر گربہ نہیں محسوس ہوا -
ہمارے راز =میرے راز +تیرے راز


کس نے مضراب کیا یاد کی تاروں کو شکیل
گیت بِسرا ہوا یک لخت لبوں پر آیا
یہاں "مضراب کرنا یاد کی تاروں کو " تکنیکی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا -مضراب خود ساز تو نہیں یہ ایک آلہ ہے جو انگلیوں میں لگا کر ساز بجانے کے کام آتا ہے - اقبال کہتے ہیں :

غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
 
محترم یاسر شاہ صاحب
آپ کا تبصرہ پڑھ کر خوشی ہوئی۔
"بھیگتی رات لیے "اچھا نہیں لگا -ایسا لگ رہا کہ آپ کسی مخصوص رات کا ذکر کر رہے ہیں اور ہر دسمبر میں یہ گیلی رات پھر آتی ہے اور آپ کو پہلے ایک ستمگر یاد آتا ہے پھر دوسرا اور پھر تیسرا .....
میری محدود سمجھ کے مطابق میں نے کسی ایک مخصوص رات ہی کا ذکر کرنا چاہا تھا، تبھی تو دوسرے مصرعے میں آج کا محل بنتا۔ اور ہاں وہ مخصوص رات ہر بار دسمبر میں آتی ہے۔ اور ایک ہی ستمگر یاد دلاتی ہے۔ مختصر یہ کہ جیسا آپ نے سمجھا ویسا ہی کہنا چاہا تھا، اب اچھا لگنا یا نہ لگنا ایک الگ بحث ہے۔
اچھا ہے -"اسے" کی جگہ" ہمیں "زیادہ پر اثر لگتا ہے -
آپ کی رائے درست لگی، شکریہ اپنے پاس تبدیل کر رہا ہوں ۔
کونسی نئی شمع امید ؟، کون پیمبر ؟ شعر میں بھی یہ عنوان وحشت ناک ہے -
شمع امید تو اگلے مصرعے میں بتا ہی دی تھی یعنی نامہ عشق
پیمبر کو بمعنیٰ پیامبر استعمال کیا ہے اسے پیغمبر سمجھ کر مجھے بھی قابلِ گردن زنی نہ ٹھہرایا جائے ، اسی قسم کی ظلمت میں ہی تو شمع امید چاہیئے، جہاں آج کل تو ایک قانون کی شق کا شمار نمبر بھی تقدیس کے مرتبے پر فائز ہوا جاتا ہے۔
"چیختی خامشی" بھرتی کی ترکیب لگی اور پھر رخصت تو گھر کے دروازے سے ہی ہونا ہے کھڑکی سے تھوڑی کودے گی -
یہاں پھر معذرت خواہ ہوں ، ترکیب پہلے سے مستعمل ہے یا نہیں لیکن مجھے آج کے دور میں مسلسل اس چیختی خاموشی کا احساس کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر مواد کی بہتات اور اس کی عامیانہ پن اور سطحیت کے حوالے سے اسے محسوس کرنے کی کوشش فرمائیں
مجھے کم از کم اس میں شتر گربہ نہیں محسوس ہوا -
ہمارے راز =میرے راز +تیرے راز
شکریہ، میں نے بھی اسے ایسے ہی باندھا تھا، استادِ محترم کی رہنمائی کا انتظار رہے گا
یہاں "مضراب کرنا یاد کی تاروں کو " تکنیکی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا -مضراب خود ساز تو نہیں یہ ایک آلہ ہے جو انگلیوں میں لگا کر ساز بجانے کے کام آتا ہے
یہاں مزید وضاحت فرمادیں کہ تکنیکی طور پر کیا درست نہیں۔ میں نے بھی تو مضراب کو ساز نہیں بلکہ یاد کی تاروں کو چھیڑنے کے عمل ہی کو کہا ہے۔


رہنمائی کا بہت بہت شکریہ،
مجھے ہمیشہ اپنی اصلاح درکار رہتی ہے
جزاک اللہ
 

یاسر شاہ

محفلین
میری محدود سمجھ کے مطابق میں نے کسی ایک مخصوص رات ہی کا ذکر کرنا چاہا تھا، تبھی تو دوسرے مصرعے میں آج کا محل بنتا۔ اور ہاں وہ مخصوص رات ہر بار دسمبر میں آتی ہے۔ اور ایک ہی ستمگر یاد دلاتی ہے۔ مختصر یہ کہ جیسا آپ نے سمجھا ویسا ہی کہنا چاہا تھا، اب اچھا لگنا یا نہ لگنا ایک الگ بحث ہے۔
سوال اٹھایا تھا بھیگتی رات پر، جب ہر دسمبر میں آتی ہے تو ہر دسمبر میں بھیگ کیسے جاتی ہے جبکہ آپ :بھیگی راتوں: کہہ کر بیرونی موسم اوس وغیرہ کی مراد سے بھی مدد نہیں لے رہے -
بھیگتی رات لئے پھر سے دسمبر آیا
آج پھر یاد ہمیں ایک ستمگر آیا
یہ ایک عجیب صورت پیدا ہو رہی ہے کہ فرض کریں اصل بھیگتی رات ہے ١٢ دسمبر ٢٠١٥ اب آپ کہنا چاہتے ہیں ٢٠١٦ میں دسمبر کا مہینہ پھر سے بھیگتی ہوئی بارھویں رات لے آیا ہے اور یوں ہی ٢٠١٧ ،٢٠١٨ اور آگے کے سالوں میں بھی دسمبر ٹھیک بارھویں کی رات بھیگتی لا رہا ہے توہر سوچنے والے قاری کے اندر تشویش یہ پیدا ہو رہی کہ آخر دسمبر ایک ہی رات کیسے بھگوتا ہے -کیا شاعر محبوبہ کی بارھویں مناتا ہے اور روتا ہے کیونکہ صرف ایک ہی رات میں اوس پڑنا تو محال ہے -اگر واقعی ایسا ہے کہ شاعر اس ایک شب میں روتا ہے تو یہ ایک مخصوص رات کے تعلّق سے ایک واقعاتی شعر ہے جس کے مخصوص قارئین ہیں کیونکہ میرے محدود مطالعے کی روشنی میں غزل نے آج تک ایسا عاشق نہیں دیکھا -غزل نے البتہ ایسا عاشق ضرور دیکھا ہے :

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
شمع امید تو اگلے مصرعے میں بتا ہی دی تھی یعنی نامہ عشق
پیمبر کو بمعنیٰ پیامبر استعمال کیا ہے اسے پیغمبر سمجھ کر مجھے بھی قابلِ گردن زنی نہ ٹھہرایا جائے ، اسی قسم کی ظلمت میں ہی تو شمع امید چاہیئے، جہاں آج کل تو ایک قانون کی شق کا شمار نمبر بھی تقدیس کے مرتبے پر فائز ہوا جاتا ہے۔
پیمبر اور پیغمبر میں وہی فرق ہے جو پیام اور پیغام میں ہے -باقی کسی نئی شمع امید پہ لعنت بھیجتا ہوں ہمارے لیے سراجِ منیر کافی ہے اور جو ایسی نئی شمع امید کو قبول کر رہے ہیں سو محض اپنی جہالت کے سبب کہ جیسے گاڑی کا مکینک پانچ سو کا کم کر کے پانچ ہزار وصول کرتا ہے تو ساڑھے چار ہزار جہالت کا خمیازہ ہوتا ہے جو چکایا جاتا ہے -ہر شعبے میں یہی خمیازہ ہے جو ہم چکا رہے ہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی میں بھی کبھی وحی نازل ہوئی ہے، اچی ٹچی بھی کہیں فرشتوں کے نام ہوئے ہیں !!
یہاں پھر معذرت خواہ ہوں ، ترکیب پہلے سے مستعمل ہے یا نہیں لیکن مجھے آج کے دور میں مسلسل اس چیختی خاموشی کا احساس کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر مواد کی بہتات اور اس کی عامیانہ پن اور سطحیت کے حوالے سے اسے محسوس کرنے کی کوشش فرمائیں
ترکیب پہلے سے مستعمل ہے کا تو سوال ہی نہیں یہاں بھرتی کی بات کی تھی جو پکار ہے جمالیاتی ذوق کی -اگر یہ ذوق پیدا کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ بھرتی کی اصطلاحات اور اشعار کی حس آجاتی ہے بلکہ بھرتی کے جذبے ،بھرتی کے رویے ،بھرتی کے تعلق، بھرتی کی گفتگو وغیرہ سب کچھ آشکار ہونے لگ جاتا ہے -دیکھیے کسی نے انگریز کی بھرتی کی نبوت کو محض اپنے ذوق جمالیات سے رد کیا ہے :

اگر ہوتا مرزا خدا کا نبی
تو ٹٹیوں میں اپنی نہ مرتا کبھی
یہاں مزید وضاحت فرمادیں کہ تکنیکی طور پر کیا درست نہیں۔ میں نے بھی تو مضراب کو ساز نہیں بلکہ یاد کی تاروں کو چھیڑنے کے عمل ہی کو کہا ہے۔
"کس نے مضراب کیا یاد کی تاروں کو شکیل" سے میں یہی مراد لیتا ہوں کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کس نے یاد کی تاروں کو مضراب میں بدل دیا جو کہ درست نہیں لگتا -
 
آخری تدوین:
Top