تعارف ناعمہ عزیز کا تعارف

نایاب

لائبریرین
یہ لیں لالہ پہلا کام یہی کیا ہے ۔
جیتی رہو بٹیا جی
اب ذرا فلسفے کی کلاس ہوجائے ۔
فلسفے سے اتنی زیادہ دل چسپی کیوں ہے ۔ ؟
کیا فلسفہ صرف لفاظی کہلا سکتا ہے ؟
کیا بابا اشفاق صاحب نے کسی نئے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے
یا کسی پرانے فلسفی کی بات کو آگے بڑھایا ہے ۔ ؟
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جیتی رہو بٹیا جی
اب ذرا فلسفے کی کلاس ہوجائے ۔
فلسفے سے اتنی زیادہ دل چسپی کیوں ہے ۔ ؟
کیا فلسفہ صرف لفاظی کہلا سکتا ہے ؟
کیا بابا اشفاق صاحب نے کسی نئے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے
یا کسی پرانے فلسفی کی بات کو آگے بڑھایا ہے ۔ ؟


پتا نہیں لالہ بس قدرتی طور پر ہے فلسفے سے بہت پیار ہے مجھے :)

میرا نہیں خیال کہ فلسفہ لفاظی کہلا سکتا ہے کیونکہ اگر میں بات کروں اشفاق احمد صاحب کے فلسفے کی تو وہ لفاظی نہیں تھا انہوں نے حقیقت پر لکھا اور ایسی حقیقت جو ہماری روزمرہ زندگی سے وابسطہ ہے ایسی حقیقت جسے پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے مجھے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ اشفاق صاحب نے سب کچھ میرے بارے میں لکھا لیکن اب جا کے پتا چلا کہ نہیں وہ میرے نہیں بلکہ سب کے بارے میں لکھتے ہیں ، کسی کی بھی سوچ اس کے ایک ایک لفظ سے جھلکتی نظر آتی ہے ، کوئی بھی اپنی زندگی کے ایسے پہلوؤں کو لفظوں میں بیان دیکھ کر عش عش کر اٹھتا ہے ۔


اشفاق احمد صاحب نے کسی امیجینیشن کی بات نہیں کی ، وہ ہمیشہ آج کی سوچ کی بات کرتے ہیں حقیقت کی بات کرتے ہیں ، وہ زندگی کی ، لوگوں کی ، لوگوں کی بھلائی کی ، لوگوں کے رویے کی بات کرتے ہیں فلسفہ میں نے بہت زیادہ نہیں پڑھا لیکن جتنا جو بھی پڑھا وہ اشفاق احمد صاحب کے فلسفے کے آگے کچھ بھی نہیں تھا ۔

پرانے فلسفی کا مجھے کچھ پتا نہیں لالہ ہاں البتہ میں نے انگلش لٹریچر میں بیکن کو پڑھا وہ بھی نثر نگار ہے ، اور مجھے اس کی باتوں میں تھوڑی تھوڑی اشفاق احمد صاحب کی جھلک نظر آئی ، لیکن وہ اشفاق صاحب کی طرح morality کی بات نہیں کرتا وہ صرف worldly wisdom کی بات کرتا ہے ۔ وہ میں جب بھی پڑھا کرتی تھی تو یہی کہتی کہ اس نے اشفاق صاحب کو کاپی کیا ہوگا :)
 

نایاب

لائبریرین
بٹیا رانی ۔ آپ چلتے قلم کو روک لیتی ہیں ۔ ،،،،،،،،
اللہ تعالی آپ کی روشن سوچوں کو اپنے نور سے مزید روشن فرمائے آمین
بابا صاحب نے اک محفل میں ہنستے ہوئے فرمایا تھا کہ
میری اکثر تحریروں میں بیان کردہ واقعات میری اپنی صناعی ہیں ۔
میں انہیں عدم سے وجود میں لایا ہوں ۔
آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اگر یہ بات حقیقت ہے تو بابا صاحب کا ایسے واقعات بیان کرنے کا مقصود کیا ہو سکتا ہے ۔ ؟
اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ ۔ دونوں لکھاری ہیں ۔ اور دونوں انسانوں کے رویوں کو اپنا موضوع بناتے رہے ہیں ۔
بانو قدسیہ اور اشفاق صاحب کی تحریروں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے ۔
یہ " بیکن صاحب " کی کچھ سوچیں شئیر کر دیتیں ۔ تو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ " اخلاقیات " اور " لفظی آزادی " سے کیا مراد ہے ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بٹیا رانی ۔ آپ چلتے قلم کو روک لیتی ہیں ۔ ،،،،،،،،
اللہ تعالی آپ کی روشن سوچوں کو اپنے نور سے مزید روشن فرمائے آمین
بابا صاحب نے اک محفل میں ہنستے ہوئے فرمایا تھا کہ
میری اکثر تحریروں میں بیان کردہ واقعات میری اپنی صناعی ہیں ۔
میں انہیں عدم سے وجود میں لایا ہوں ۔
آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اگر یہ بات حقیقت ہے تو بابا صاحب کا ایسے واقعات بیان کرنے کا مقصود کیا ہو سکتا ہے ۔ ؟
اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ ۔ دونوں لکھاری ہیں ۔ اور دونوں انسانوں کے رویوں کو اپنا موضوع بناتے رہے ہیں ۔
بانو قدسیہ اور اشفاق صاحب کی تحریروں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے ۔
یہ " بیکن صاحب " کی کچھ سوچیں شئیر کر دیتیں ۔ تو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ " اخلاقیات " اور " لفظی آزادی " سے کیا مراد ہے ۔
پہلے تو آپ مجھے یہ بتائیں لالہ کہ صناعی کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

لالہ اشفاق احمد صاحب کی تحریروں اور واقعات کے لکھنے کا کیا مقصود ہو سکتا ہے اس کا جواب میں بہت وثوق سے نہیں دے سکتی ہوں کیونکہ انہوں جو جو لکھا اس کی اصل وجہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ہاں اگر ایک قاری کی حیثیت سے میں کہوں تو مجھے اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لئے لکھا ، اصلاح کے لکھا ، پتا نہیں میرے علاوہ بھی کسی کو ایسا لگتا ہےیا نہیں لیکن اگر کوئی بھی ان کی تحریروں کو دل پڑھ لے تو ایک بار حیران رہ جائے گا ۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ہم نے پہلے دن ایم اے انگلش کی کلاس لی تو ہم سب نے خود کو انٹروڈیوس کروانا تھا ، میں ڈائیز پر جا کر کھڑی ہوئی تو سر سہیل ایک یہ سوال پوچھا کہ ناعمہ آپ کے انٹرسٹس کیا ہیں ؟
میں جواب دیا سر ،
Reading, Learning, and Writing
انہوں نے پوچھا زیادہ کیا پڑھتی ہیں آپ ؟
میں نے کہا سر زیادہ تر روحانیت ہی میرا موضوع ہوتا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی ایسا موضوع جو لوگوں سے وابسطہ ہو ، اس کے رویوں سے وابسطہ ہو،
پھر انہوں نے پوچھا اور کیا کیا سیکھا ؟
میں نے کہا سر میں نے بہت کچھ سیکھا لیکن صرف کتابوں سے نہیں لوگوں سے بھی ،
اور آخری سوال ہوا کہ آپ نے کہا آپ رائٹر ہیں تو لکھنے میں کون کون سے موضوعات سر فہرست ہوتے ہیں ؟
میں نے کہا سر لوگوں کے رویے

اور آج میرے ذہن میں وہی بات یاد آگئی لالہ جب آپ نے کہا بانو آپا اور اشفاق صاحب دونوں انسانی رویوں پر لکھتے ہیں جہاں تک فرق کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے ان کی سوچیں ایک جیسی تھیں ، مجھے کوئی فرق نہیں آتا ہاں اگر کسی کو محسوس ہوتا ہے مجھ سے ضرور شیئر کرے ، کیونکہ رویے ایک جیسے ہوتے ہیں اظہار کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے ۔
میں فرانسک بیکن کے کچھ مضامین کی ٹرانسلیشن کرکے آپ سے ضرور شیئر کروں گی لالہ ،آپ کو پڑھنے میں غلطی لگی ہو گی لالہ میں نے Worldly wisdom لکھا مطلب دنیاوی آزادی ۔ وہ دنیاوی آزادی کی بات کرتا ہے ، کیسے ہم ترقی کر سکتے ہیں ، کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
 

نایاب

لائبریرین
پہلے تو آپ مجھے یہ بتائیں لالہ کہ صناعی کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟
میں فرانسک بیکن کے کچھ مضامین کی ٹرانسلیشن کرکے آپ سے ضرور شیئر کروں گی لالہ ،آپ کو پڑھنے میں غلطی لگی ہو گی لالہ میں نے Worldly wisdom لکھا مطلب دنیاوی آزادی ۔ وہ دنیاوی آزادی کی بات کرتا ہے ، کیسے ہم ترقی کر سکتے ہیں ، کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اللہ تعالی سدا اپنی امان میں رکھے آمین
ماشاءاللہ
بہت اچھا لگا آپ کا جواب ۔
" صناعی " سے مراد کسی شئے کا خود سے بنانا ۔
بٹیا ہائی کلاس انگلش سمجھتا ہوں اس لیئے " ورلڈلی " کو " ورڈلی " پڑھ سمجھ بیٹھا ۔
یہ سمجھا کہ پڑھی لکھی بٹیا سے ٹائپو ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے انتظار رہے گا فرانسک بیکن کی تحاریر کے ترجمے کا ۔
آپ کی مندرجہ بالا تحریر سے کچھ سوال مزید ابھرے ہیں ۔
ذرا نیٹ کی جانب سے تسلی ہو جائے تو پھر لکھتا ہوں ۔
 

نایاب

لائبریرین
لالہ اشفاق احمد صاحب کی تحریروں اور واقعات کے لکھنے کا کیا مقصود ہو سکتا ہے اس کا جواب میں بہت وثوق سے نہیں دے سکتی ہوں کیونکہ انہوں جو جو لکھا اس کی اصل وجہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ہاں اگر ایک قاری کی حیثیت سے میں کہوں تو مجھے اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لئے لکھا ، اصلاح کے لکھا ، پتا نہیں میرے علاوہ بھی کسی کو ایسا لگتا ہےیا نہیں لیکن اگر کوئی بھی ان کی تحریروں کو دل پڑھ لے تو ایک بار حیران رہ جائے گا ۔
جہاں تک فرق کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے ان کی سوچیں ایک جیسی تھیں ، مجھے کوئی فرق نہیں آتا ہاں اگر کسی کو محسوس ہوتا ہے مجھ سے ضرور شیئر کرے ، کیونکہ رویے ایک جیسے ہوتے ہیں اظہار کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے ۔
اشفاق احمد بابا صاحب کی شخصیت بارے حقائق


قاضی جاوید فلسفے کے آدمی ہیں اور فلسفیانہ افکار و مسائل سے ان کو بہت گہرا شغف ہے ۔ ان کا شمار بلا شبہ ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جنھوں نے پاکستان کے سیاق سباق میں فلسفیانہ افکار اور رحجانات کی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے ۔پاکستان میں فلسفہ سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے مختصر گروہ میں ان کا نام ا نتہائی قابل احترام ہے ۔ فلسفیانہ نظریات کو عام قاری کی دسترس میں لانے میں انھوں نے بہت کام کیا ہے اور ان کی لکھی ہوئی کتب قبول عام کا درجہ حاصل کرچکی ہیں
قاضی جاوید کی تازہ کتاب’ منڈلی ‘ ان کے خصوصی مضمون فلسفہ سے ہٹ کر ہے ۔ ’یہ کتاب ان دوستوں کی یادوں پر مشتمل ہے جو کبھی زندگی کی رونقوں کا حصہ تھے اور منڈلی میں شامل تھے ،پھر موت نے ان کو نظروں سے اوجھل کردیا ۔‘ اس کتاب میں جن احباب کے تذکرے شامل کئے گئے ہیں، ان میں سے بعض کے ساتھ قاضی جاوید کو برسوں میل ملاپ کے مواقع ملے اور بعض کے ساتھ محض پل دو پل کا ساتھ رہا۔
قاضی جاوید لکھتے ہیں ’ اشفاق احمد ہمارے ادبی منظرنامے کا اہم کردار ہیں ۔انھوں نے نظریاتی اور فکری کنفیو ژن کو دور کرنے اور اس کو باقاعدہ ایک فن کا درجہ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔تلقین شاہ اشفاق احمد کا تخلیق کیا ہوا سب سے اہم کردار ہے ۔ان کے اس کردار نے سا لہا سال تک لوگوں کو متوجہ کئے رکھا تھا ۔ اس کو اتنی شہرت ملی کہ خود اشفاق حمد اس کے سامنے دب گئے تھے ۔یہاںتک کہ وہ تلقین شاہ کے نام سے جانے لگے تھے ۔مگر جب کسی ادیب کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آتا ہے کہ اس کی شخصیت عوامی ذہن میں پیچھے رہ جائے اور کوئی ایک کردار اس سے آگے بڑھ جائے تو پھر ادیب کے لئے نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے تخلیق کردہ اس کردار کی مٹھی میں آجاتا ہے، اس کردار میں ہوا بھرنے لگتی ہے اور وہ خیالی پیکر سے ہولناک جن میں بدل جاتا ہے اور اپنے خالق کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے ‘ اشفاق احمد کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔ ان کی اپنی ذات گم ہوگئی اور بس تلقین شاہ بن کر رہ گئے ۔یوں ان کے ڈراموں،افسانوں اور گفتگو میں اخلاقیات اور مذہب کا رنگ گہرا ہوتا چلا گیا اور آخر کار صرف یہی رنگ ان کی شناخت بن گیا ۔
اشفاق احمد کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں قدسیہ بانو کا بہت عمل دخل ہے ۔ جب بانو نے پہلے سال اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوںنے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے۔ جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی
بقول ممتاز مفتی:
”ان دونوں نے جوانی میں روایت توڑ محبت کی اسے اچھی طرح علم تھا کہ گھر والے کسی غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے لیے تیار نہ ہوں گے ۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ گھر میں اپنی محبت کا اعلان کرنے کی اس میں کبھی جرات پیدا نہ ہوگی اس کے باوجود ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ محبت میں کامیاب ہو گیا۔ اگر چہ شادی کے بعد اُسے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔“
بشکریہ
قاضی جاوید کی کتاب ” منڈلی “ سے ماخوذ


یادوں کے جھروکے سے
" لالا رخ خاں "

بقول اے حمید:
” قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد جب لاہور منتقل ہوئے تو مالی حالت دگرگوں تھی ۔ لہٰذا میٹرک کی سند دکھا کر محکمہ ریلوے میں ملازمت حاصل کر لی جہاں صرف ایک دن گزار سکا۔ اس کے بعد مہاجرین کیمپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن سودی خانہ میں گزارا اور اگلے دن ایک اور شعبہ میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اس کی ڈیوٹی لاوڈ سپیکر کے ذریعے انائونسمنٹ پر لگا دی گئی۔“
اس کے بعد ایم ۔ اے کے دوران ریڈیو آزاد کشمیر سے بھی وابستگی رہی ۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انھوں نے ریڈیو میں ۳۰۰ روپے ماہانہ پر کچی نوکری کر لی مگر گھر والوں کے دبائو پر نوکری چھوڑ کر پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ اس کے بعد جب ایم ۔ اے اردوکا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کرلیا تو انہیں عابد علی عابد نے لیکچر ار بھرتی کروا دیا۔یوں وہ دو سال تک ”دیال سنگھ کالج “ میں پڑھاتے رہے۔
”اسی دوران اٹلی میں اردو پڑھانے اور براڈ کاسٹر کی اسامی نکلی تو یہ دونوں صلاحیتیں اُن میں موجود تھیں۔ حصول سیٹ کی تحریک کا امتحان پاس کرنے پر وہ اٹلی چلے گئے۔“
اس طرح اشفاق احمد 1953ءمیں روم یونیورسٹی اٹلی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے اور سابقہ ریڈیو روم سے پروگرام بھی کرنے لگے اور یہاں رہ کر انہوںنے اٹلی کی زبان بھی سیکھ لی۔
پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ایک ادبی مجلہ”داستان گو“ کے نام سے جاری کیا۔ جو اردو کے چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دو سال تک ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کی ادارت بھی کی۔ 1972ءمیں مرکزی ارد و بورڈ کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے جو بعد ازاں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہو گیا وہ 1979ءتک اس ادارے سے وابستہ رہے۔
اس کے علاوہ صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی رہے۔
اشفاق احمد اور ریڈیو کی دنیا:۔
تاریخ کے اوراق دہرائے جائیں تو یقینا ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام الگ اہمیت کا حامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے اشفاق احمد کی خدمات بیش قیمت ہیں انہوں نے 1949ءکے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے”اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس محنت ، لگن اور محبت کے ساتھ اس نے افسانے لکھے اسی محنت اور لگن کے ساتھ ریڈیو کے لیے لکھا۔“ )
ریڈیو کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہکار ”تلقین شاہ“ ہے جو 30 برس بعد بھی اسی طرح مقبول خاص و عام رہا جس طرح پہلے تھا۔ ”تلقین شاہ“ ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کرچمکتا رہا اور اشفاق احمد کے فن کو نکھار بخشتا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیچر کی کامیابی میں اشفاق احمد کی ادائیگی کا بہت عمل دخل ہے۔
بقول ا ے حمید:
” جب تک تلقین شاہ کا فیچر ریڈیو پر نشر ہوتا رہتا لوگ ریڈیو سیٹ سے الگ نہیں ہوتے تھے ۔ آج بھی جب ریڈیو پاکستان کے کسی سٹیشن سے یہ فیچر نشر ہوتا ہے تو اس کی تازگی اور شادابی روز اوّل کی طرح قائم و دائم رہتی ہے۔“
1956ءمیں اشفاق احمد نے باقاعدہ طور پر ”تلقین شاہ“ کا ہفتہ وارپروگرام شروع کیا۔یہ پروگرام دو کرداروں ”تلقین شاہ“ اور” ہدایت “ پر مشتمل تھا۔
”تلقین شاہ“ کی کامیابی ایک اوریجنل ادیب اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کی کامیابی تھی ۔ اس فیچر میں اشفاق احمد کی باریک بین نظر اپنے معاشرے کے کرداروں کے روزمرہ معمولات کا گہرا مشاہدہ اور اس کی ہمدردی بھر ا طنز عروج پر ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ میں جو کردار تخلیق کیے وہ ہمارے معاشرے کے سچے کردار ہیں۔ تلقین شاہ کا فیچر سنتے ہوئے اور اس کے کرداروں کو بولتے ہوئے سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مختلف کرداروں کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ اشفاق احمد کے قلم اور ایک بھر پور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کے فن کا کمال ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ محض ہنسی مذاق کے لیے نہیں لکھا بلکہ اس غرض سے لکھا کہ ہم اپنی خامیوں سے آگاہ ہوسکیں۔
اس طرح اپنے ریڈیائی فیچر ”ٹاہلی دے تھلے“ میں اشفاق احمد نے پاکستان کے دیہاتی افراد کی خوشیوں اور ان کے مختلف مسائل کی بڑی جامع تصویر کشی کی ”یہ پاکستانی معاشرے کی بڑی سچی تصویریں تھیں جو ریڈیو کے ذریعے ہمارے دل و دماغ میں نقش ہوتی چلی گئیں۔“ اپنے افسانوں کی طرح اشفاق احمد نے اپنی ریڈیائی تخلیقات کے ذریعے بھی ہمیں ہماری خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ کیا۔
” یہ حقیقت ہے کہ اشفاق احمد نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کو اپنی اعلیٰ ترین ادبی تخلیقات دیں۔ ”تلقین شاہ“ ”ٹاہلی دے تھلے “ ”اچے برج لاہور دے “ او ر دوسرے کئی ریڈیائی فیچر اور ڈرامے ۔ اگر ریڈیو پاکستان لاہور کی ادبی وراثت کا کوئی تذکرہ لکھا گیا تو اشفاق احمد کی تخلیقات کا شمار ریڈیو کے ادب عالیہ میں ہوگا۔“
اشفاق احمد نے ریڈیو کے لیے اصلاحی سکرپٹ بھی لکھے اور پرپیگنڈہ سکرپٹ بھی لکھے۔ لیکن کسی مقام پر بھی اُس نے ادب اور اسلوب ِ تحریر سے انحراف نہیں کیا۔ ہر انسان خواہ بنیادی طور پر وہ ادیب ہو، تخلیق کار ہو تو اس کی کوئی بھی تحریر ادبی دائرے سے باہر نہیں رکھی جا سکتی۔ ”اشفاق احمد ادب کے انشاپرداز اورتخلیق کار ہیں۔ وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر لکھنے سے پہلے اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔“
اشفاق احمد کی شخصیت میں ایک کشش اور جاذبیت ہے۔ اُس کا ہر ریڈیائی سکرپٹ ایک مکمل اور مضبوط ادبی سکرپٹ ہوتا تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے کئی دوسرے نامور ادیبوں نے بھی بہت کچھ لکھا مگر اشفاق احمد کے مقام تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ قدرت نے اشفاق احمد کو ادب تخلیق کرنے کے لیے بنایا تھا۔ اور جب کوئی صلاحیت اللہ کی طرف سے ملی ہوتو اس کا سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا اور لکھنے والا بڑی بے ساختگی اور روانی سے لکھتا ہے۔
اشفاق احمد کا ریڈیو کا زمانہ ان کا اور ریڈیو دونوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اشفاق احمد زندگی کی تمام تر توانائیوں سے بھر پور ایک زندہ دل ، خوبصورت اور صحت مندسوچ رکھنے والے ادیب تھے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا برصغیر میں ایک اہم مقام بن چکا ہے۔
” ریڈیو کے لیے وہ اسی یک سوئی اور لگن سے لکھتا جس طرح وہ نقوش یا ادب لطیف کے لیے کوئی افسانہ لکھتا تھا۔“
اشفاق احمد کے ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ایک پوری ٹیم تھی جس کو انہوںنے پوری ٹریننگ دی ہوئی تھی ۔ اس میں چند ایک تو اپنے زمانے کے مشہور ریڈیو آرٹسٹ تھے۔ مثال کے طور پر آفتاب احمد، مظہر حسینی، اور محمد حسین وغیرہ ۔ لیکن جو نو آموز آرٹسٹ تھے وہ بھی اشفاق احمد کے زیر تربیت رہ کر بڑے مشاق آرٹسٹ ہو گئے تھے۔
اسی طرح اشفاق احمد کے پنجابی فیچر ”اچے برج لاہور دے “ نے بھی ریڈیو پر کامیابی کا لوہامنوایا ۔ یہ فیچر لاہور شہر اور اسکے آس پاس کے دیہات کی سوشل زندگی کے روزمرہ مسائل کے بارے میں تھا۔ اشفاق احمد کے بعد کے پنجابی ریڈیائی ڈراموں اور فیچروں میں مزاح کا رنگ جگت بازی کی حد تک پہنچ گیا۔ مگر اشفاق احمد کا ہر سکرپٹ اس قسم کے مزاح سے پاک ہوتا تھا۔ اس کے پاس مزاج کے برخلاف طنز کے نشتر تھے۔ اس کا طنز آدمی کے دل پر اثر کرتا تھا۔ ریڈیو کے اردو ڈراموں میں اشفاق احمد نے اپنے ادبی معیار کو برقرار کھا ۔”اس کے ریڈیو ڈرامے فنی اور ادبی اعتبار سے مکمل اور پختہ ہوتے تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں اس کی عمر میں اتنی پختگی نہیں آئی تھی مگر یہ ان خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا۔ اور خدادا دصلاحیتوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔“
جب ریڈیو پاکستان پر پرگراموں کی ریکارڈنگ ہونے لگی تو اس کے کچھ عرصے بعد اشفاق احمد نے اپنی کوٹھی میں ہی ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنالیا ۔ یہ ان کا شوق تھا۔ وہ ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ اپنے گھر یلو سٹوڈیو میں ہی کرتے اور پروگرام کا پور ا پیکج بنا کر ریڈیو پاکستان لاہور کودے دیتے تھے۔ چونکہ اشفاق احمد ریکارڈنگ وغیر ہ کے تمام تکنیکی شعبوں سے واقف تھے۔ اس لیے پروگرام کی ریکارڈنگ اورکوالٹی کبھی خراب نہیں ہوتی تھی۔ گھریلو سٹوڈیو میں وہ صرف اپنے فیچر ” تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ ہی کرتے تھے۔ ان کے اردو اور پنجابی کے مکمل دورانےے کے ڈرامے لاہور ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیو میں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔
لاہورٹیلی وژن اسٹیشن ٹائم ہونے سے پہلے ہی اشفاق احمد نے ریڈیو کے واسطے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور ان کے ریڈیا ئی فیچر اور ڈرامے سن کر ایسا لگتا تھا جیسے اس کے ریڈیائی سکرپٹس میں اس کے افسانوں کے کردار بو ل رہے ہوں۔ اور بقول اے حمید :
” افسانوں کا سچا اور طاقتور ماحول نظر آتا تھا۔ چارپائیاں مرمت کرنے والوں سے لے کر کوٹھیوں کے پچھلے برآمدوں میں بٹھائے ہوئے پرانی وضع کے بات بات پرتنقید کرنے والے بوڑھے ملتے تھے۔“
اشفاق احمد اور ٹیلی وژن:۔
جس وقت لاہور کے ٹیلی وژن نے کام کرنا شروع کیا تو 1964ءکے اواخر کا زمانہ تھا۔ ریڈیو لاہور اپنی نئی عمارت میں منتقل ہو چکا تھا۔ اور اشفاق احمد کافیچر ”تلقین شاہ“ اپنے عروج پرتھا۔ 1965ءمیں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو اشفاق احمد کے ریڈیو فیچروں اور ڈراموں اور خاص طور پر ”تلقین شاہ“ میں قومی اور حب الوطنی کا جذبہ کھل کر سامنے آیا۔ تلقین شاہ فیچر کے ذریعے اشفاق احمد نے محاذ جنگ پر لڑتے اپنے بہادر جوانوں کے سینوں میں جذبہ ایمانی کا ایک نیاولولہ پیدا کیا اور ا س محاذ پر بھی اُس نے اپنے قومی کردار کا پورا پور ا حق ادا کیا۔
1965ءکی جنگ کے بعد اشفاق احمد ریڈیو سے دور اور ٹیلی وژن کے زیادہ قریب تر ہوگئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب وہ پورے کے پورے ٹیلی وژن کے ہو کر رہ گئے۔ اور ریڈیو کے ساتھ ان کا رشتہ تلقین شاہ کی حد تک باقی رہ گیا۔ ٹیلی وژن کے لیے لکھتے ہوئے اشفاق احمد کو محسوس ہوا کہ ان کے بیان کے لیے جو وسعت درکار تھی وہ انہیں مل گئی۔ ریڈیو پر ان کی جن پوشیدہ صلاحیتوں کو آواز کی لہروں نے محدود کر رکھا تھاٹیلی وژن نے انہیں ایک بحر بیکراں سے ہم کنار کر دیا۔
” جس جوش اور جذبے کے ساتھ اشفاق احمد نے قیام پاکستان کے فوراً بعد افسانے لکھنے شروع کیے تھے ۔ اسی جذبے اور جوش کے ساتھ وہ ٹیلی وژن کے لیے لکھنے لگا۔“
اشفاق احمد نے جب پاکستان ٹیلی وژن کے لیے لکھنا شروع کر دیا تو ان میں خداداد صلاحیتوں کی کمی نہیں تھی ۔ ٹیلی وژن کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اشفاق احمد کے حقیقی جوہر ٹیلی وژن پر آکر کھلے ۔ ٹیلی وژن کے لیے انھوں نے جو فیچر اور ڈرامے لکھے ان کی تعداد پونے چار سو کے لگ بھگ بنتی ہے۔
اس کے علاوہ اشفاق احمد نے ٹیلی وژن کے لیے عام دورانیے اور طویل دورانیے کے ڈرامے بھی لکھے ہیں جو بہت پسند کیے گئے ۔ اپنے آخری دور میں اشفاق احمد کے ڈراموں پر تصوف کے فلسفے کا رنگ بہت گہرا ہوگیاتھا۔ اور اس کے کردار طویل مکالمے بولنے لگتے تھے۔
”کسی نے اشفاق احمد پر اعتراض کیا کہ آپ کے ڈراموں کے کردار فلسفیانہ رنگ کے طویل مکالمے بولتے ہیں۔ اس پر اشفاق احمد نے جواب دیا ۔ کہ کبھی آپ نے شکسپیئر کے ڈرامے پڑھے ہیں اگر اس کے ڈراموں کے کردار ایک ایک منٹ کے مکالمے بول سکتے ہیں تو میرے ڈراموں کے کردار بھی بول سکتے ہیں۔“
یہ ایک حیرت انگیز بات تھی اور یہ خوشگوار حادثہ صرف اشفاق احمد کے ساتھ ہی ہوا جو کہ ایک چیلنج بھی تھا جسے اشفاق احمد نے قبول کیا۔ ریڈیو اور ٹی وی جیسا سب جانتے ہیں کہ سرکاری ادارے ہیں اور ان کی ایک خاص پالیسی ہوتی ہے اور ہر ادیب کو یہاں کچھ اصول و قواعد کے اندر رہ کر لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں اشفاق احمد نے یہ کمال دکھایا کہ ایسے ایسے نادر اور یگانہ روز گار ڈرامے لکھے کہ یوں محسوس ہوتا تھا وہ ادبی رسالوں کے لیے افسانے اور ڈرامے لکھ رہے ہوں۔
” ٹیلی وژن کو اُس نے اپنے ڈراموں کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایسے ایسے کردار عطاکیے جنہوں نے لوگوں کو مسحور کرلیا۔ دیکھنے والوں کوشاید پہلی بار احساس ہوا کہ وہ ٹیلی وژن پر اپنے آپ کو چلتا پھرتا باتیں کرتا دیکھ رہے ہیں۔“
”ایک محبت سو افسانے“ اشفاق احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹی وی ڈراموں کی سیریز بھی انہوں نے اسی نام سے لکھی ۔اور اس سیریز کے ڈراموں نے بڑی شہرت حاصل کی۔
”لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہونے سے پانچ دس منٹ قبل ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ جتنی دیر تک ڈرامہ نشر ہوتا کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔“
بعد میں یہی ڈرامے نئے اداکاروں پر رنگین فلمبند کرکے ٹیلی وژن پر ایک دفعہ پھر پیش کیے گئے تو اس بار بھی یہ ڈراموں کا ایک مقبول ترین سلسلہ ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی سیریز ”تو تا کہانی “ ،”حیرت کدہ“ اور ”کاروان سرائے “ کے ڈراموں میں بھی اشفاق احمد کا فن اور اس کی فنی اور تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کے ٹی وی ڈراموں میں فلسفیانہ خیالات اور تصوف کا اثر نمایاں ہوتا گیا۔ یہ ان کے طبعی رجحان کا تقاضا اور ان کے فن کے فطری عمل کا نتیجہ تھا۔ صوفیانہ اثرات شروع ہی سے ان پر غالب رہے۔ جیسے جیسے ان کی ادبی تخلیقات کی عمر بڑھتی گئی تصوف کا اثر گہرا ہوتا گیا ۔یہاں تک کہ ٹیلی وژن کے ڈراموں میں ان کے بعض کردار جو فلسفیانہ موشگافیاں کرتے وہ عام بلکہ خاص آدمیوں کی سمجھ سے بھی باہر ہوتیں ۔ لیکن اشفاق احمد اپنی روش پر قائم رہے۔ اپنے نظریات کے وفادار رہے۔ اور یہی ایک بڑے ادیب کی شا ن ہوتی ہے۔
بقول اے حمید:
” ایک بار میں نے اس سے کہا تھا کہ تم اپنے ڈراموں میں تصوف کے جس فلسفے کا طویل طویل لیکچروں کے ذریعے اظہار کرتے ہو وہ میری سمجھ سے باہر ہوتا ہے مگر میں تمہیں اس کے اظہار سے کبھی نہیں روکوں گا۔“
اشفاق احمد نے ٹیلی وژن پر ”تلقین شاہ “ کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا جس کی سب سے بڑی وجہ اشفاق احمد کی کیمرے کے سامنے جھجک تھی۔ ریڈیو میں بھی اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے ریکارڈنگ کے وقت کسی باہر کے آدمی کو سٹوڈیو میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
اشفاق احمد کا ڈرامہ سیریل ”من چلے کا سودا “ تصوف کے موضوع پر ایک انوکھی کاوش تھی۔ اس ڈرامے نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ فنی اعتبار سے اشفاق احمد کا یہ ڈرامہ اتنہائی مکمل اور حد کمال تک پہنچا ہوا ہے۔ اشفاق احمد اگر اپنے ڈراموں کو کتابی شکل میں چھاپتے تو پڑھنے والے پر وہ اثر نہ ہوتا جو ڈرامے دیکھنے سے ہوتا ہے۔
بقول اے حمید:
” میرے خیال میں اشفاق احمد نے اپنا آدھے سے زیادہ ادبی ٹیلنٹ ریڈیو ٹی وی کی نذر کر دیا ہے۔ ہماری ایک نسل اس کے ڈراموں کو ضرور یاد رکھے گی۔ اس کے بعد کی نسل اس سے محروم ہو جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر اشفاق احمد ”تلقین شاہ“ کے کردار کو ایک ناول کی شکل میں بیان کرتا تو میری رائے میں اس کا درجہ جدید اردو ادب کے ناولوں میں فسانہ عجائب سے کسی طرح کم نہ ہوتا ۔“
اشفاق احمد اور سفر نامہ نگاری:۔
افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے صنفِ سفر نامہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ وہ بڑے کامیاب سفر نامے لکھ سکتے تھے لیکن اُنہوں نے اس صنف پر پوری توجہ نہیں دی۔ اشفاق احمد کا ایک بہترین سفر نامہ ”سفردرسفر “ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے اور کتابی شکل میں موجود ہے۔
”سفر درسفر “ اشفاق احمد کا پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں سیاحت کا سفر نامہ ہے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ کچھ ادیب اور شاعر دوست بھی ان کے ہمسفر تھے۔ جن میں مسعود قریشی اور ممتاز مفتی کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
” یہ سفر نامہ بھی ہے اور وطن پاک کے شمالی علاقہ جات کے حسین مناظر پر لکھا گیا رپورتاژ بھی ہے۔“
”سفر در سفر “ میں اشفاق احمد کی حسن ظرافت طنز کے کٹیلے نشتروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ جب اس کی کسی بات پر پڑھنے والا قہقہہ لگاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہنس رہا ہے۔ اشفاق احمد کے سفر نامے ”سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
” یہ دیکھ کر مجھے ندامت ہوئی کہ میں کھا رہا ہوں اور یہ بابا مکھیاں جل رہا ہے۔ میں نے کہا ”باباجی آپ نماز پڑھیں “ بابا بولے ”آپ کھائو “ میں نے کہا ”مجھے شرمندگی ہو رہی ہے آپ جا کر نما ز پڑھیں “ ۔ وہ مسکرا کر بولے کوئی بات نہیں آپ کھانا کھائو “ میں نے کہا ”قضا ہو جائے گی “ بابا ہنس کر بولے ”نماز کی قضا ہے مگر بیٹا خدمت کی کوئی قضا نہیں ، آپ آرام سے کھائو۔“
اشفاق احمد نے ایک اور سفر نامہ اپنے اٹلی کے قیام پر لکھا ہے ۔ جس کا عنوان ”سوادرومتہ الکبریٰ“ ہے۔ اس سفر نامے میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک تخلیق کاراور مکمل ادیب کے سفر نامے میں موجود ہوتی ہے۔
اشفاق احمد نے ایک سفر نامہ ایک مضمون کی شکل میں لکھا ہے اور اس میں اُن کے قیام نیویارک کے احوال درج ہیں۔ اس سفر نامے میں نیویارک کے شہر کی سچی اور حقیقی تصویریں دکھائی دیتی ہیں جو کہ اشفاق احمد کے فن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
ایک مکمل ادیب جب سفر نامہ لکھتا ہے تو اس کا انداز کچھ اور ہوتا ہے وہ قاری کو اپنے آپ سے الگ نہیں ہوتے دیتا ۔ وہ قاری کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ اور جس زمین کی سیر کرتا ہے وہاں کے کچھ ایسے پوشیدہ مناظر دکھاتا ہے جو قاری کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اور جنہیں دیکھنے کے بعد قاری وہاں کے لوگوں کی سرشت ان کی ذہنیت اور ان کے باہمی تعلقات کی خامیوں اور خوبیوں سے اس طرح واقف ہو جاتا ہے کہ جیسے اُن لوگوں میں کئی برسوں سے وہ رہا ہو۔
اشفاق احمد کے سفر ناموں میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے سفر نامے میں اپنی ذات کو بھی شامل کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے کی ذات کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
”داستان گو “ کا زمانہ:۔
”داستان گو“ وہ رسالہ تھا جسے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے مل کر نکالا۔ یہ ایک پاکٹ سائز رسالہ تھا ۔ یعنی قمیص کی جیب میں آسانی سے آجاتا تھا۔ اس رسالے پر اشفاق احمد کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس میں فیچر نما مضمون”حیرت کدہ“ کے عنوان سے ہر ماہ چھپتا۔ یہ سچے آسیبی واقعات ہوتے تھے۔ جو کسی نہ کسی کے ساتھ گزرے ہوتے تھے بعد میں اشفاق احمد نے اسی عنوان سے ٹیلی وژن پر ڈراموں کی ایک سیریز بھی لکھی جو بہت پسند کی گئی ۔
”اس رسالے میں ادب کے علاوہ سائنسی معلومات ،شکاریات ، آسیبیات ، نفسیات ، مزاحیات ہر قسم کا مواد چھپتا تھا ۔ مگر کوئی بھی چیز غیر معیاری نہیں ہوتی تھی۔“(١)
اشفاق احمد نے ”داستان گو “ کے معیار کو بہترسے بہتر اور منفرد سے منفرد بنانے کے لیے اتنی ہی محنت کی جتنی اس نے افسانے لکھنے کے لیے اور بعد میں ریڈیو ٹی وی ڈرامے لکھنے کے لیے کی تھی ۔” میر شکاری“ کے قلمی نام سے انہوں نے شکاریات کے جو قصے لکھے وہ ادب کا ایک حصہ بن گئے۔ مگر کتابی صورت میں شائع نہ ہو سکے۔ اس رسالے میں اشفاق احمد کے کچھ مزاحیہ مضامین بھی چھپے ۔ جو خاص ان کے اپنے انداز میں لکھے گئے تھے۔
”داستان گو“ کا ایک کارنامہ اس کاناولٹ نمبر ہے۔ جس میں منٹو ، شوکت تھانوی ، بانو قدسیہ ، ممتاز مفتی ، اے حمید ، اشفاق احمد قراة العین حید ر اور عزیز احمد کے ناولٹ شامل تھے۔ یہ ناولٹ نمبر واقعی ایک یادگار نمبر ہے۔ لیکن داستان گو زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔ اور آخر کار بند ہو گیا۔ اس رسالے میں شائع ہونے والی اشفاق احمد کی تخلیقات کو اگرکتابی صورت میں شائع کیا جاتا تو یہ مرقع بھی اشفاق احمد کے ادب عالیہ میں شمارکیا جاتا ۔
بانو قدسیہ:۔
اشفاق احمد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم ۔اے اردو کے طالب علم کی حیثیت سے پڑھ رہے تھے کہ بانو قدسیہ نے بھی وہاں داخلہ لیا۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کی ادبی ذوق سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بات شادی تک پہنچ گئی ۔
اشفاق احمد نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف بانو قدسیہ سے شادی کی جس کی وجہ سے انھیں اپنے خاندان سے علیحدہ ہونا پڑا۔
بانو قدسیہ کو افسانہ نگاری کا شوق بچپن سے تھا مگر جو کچھ لکھا ضائع کر دیا تاہم شادی کے بعد اشفاق احمد جیسا ساتھی نصیب ہوا تو باقاعدہ چھپنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
” بانو کا پہلا افسانہ ”درماندگی شوق“ سن 1965ءمیں ادب لطیف لاہور میں شائع ہوا جبکہ اشفاق احمد کا پہلا افسانہ ”توبہ “ 1964ءمیں ”ادبی دنیا “ لاہور میں شائع ہوا تھا۔“(٢)
بانو قدسیہ نے افسانوں ، ڈراموں اور ناول کی صورت میں ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافہ کیا۔ حکومت پاکستان نے 1983ءمیں بانو قدسیہ کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیںستارہ امتیاز (برائے ادب ) دیا جو کہ حکومت پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے ۔
بانو قدسیہ کے افسانوں کے معروف مجموعوں میں سے ”بازگشت “ ”امر بیل“ ”کچھ اور نہیں “ ”دانت کا دستہ “ اور ”ناقابلِ ذکر “ شامل ہیں۔ جنہیں 1985ءمیں ”توجہ کی طالب “ کے نام سے کلیات کی صورت میں سنگ میل لاہور نے چھاپا۔
بانو قدسیہ نے ناولٹ اور ناو ل بھی لکھے ہیں۔ ”ایک دن “”موم کی گلیاں “ وغیر ہ ناولٹ ہیں جبکہ ”شہر بے مثال “” راجہ گدھ“اور ”حاصل گھاٹ“ ان کے ناول ہیں۔ ”راجہ گدھ “ ایک ایسا فکری ناول ہے جس نے بانو کے ادبی قد کاٹھ میں بہت اضافہ کیا۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ناول ایک منفرد اور اچھوتے اسلوب کا حامل ہے جس میں دوسرے ناولوں سے الگ تکنیک استعمال کی گئی ہے۔
بانو قدسیہ نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز اشفاق احمد کی رفاقت میں ہی شروع کیا اور اشفاق احمد کو اس کا کریڈیٹ یوں جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی ادیب بیوی کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس کی صلاحیتوں کو فطر ی طور پر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے یہی وجہ ہے کہ آج بانو قدسیہ کا ادب میں ایک الگ مقام ہے۔
اشفاق احمد تصوف کی دنیا میں:۔
اشفاق احمد کی تحریروں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ کہ اُن کے ابتدائی دور کی تحریروں میں محبت کا رنگ غالب ہے۔ یعنی اُن کے افسانوی مجموعے ”ایک محبت سو افسانے “ پر محبت کارنگ چڑھا ہوا ہے۔ لیکن ان کے آخری دور کی تحریریں اور خصوصاً ڈراموں میں اُن کا رجحان تصوف کی طرف مائل نظر آتا ہے۔
جب تک قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی زندہ رہے اشفاق احمد کا تذکرہ اُن کے ساتھ آتا رہا ۔ اور جوں ہی ان تینوں کا ذکر آتا تصوف کے حوالوں سے عجیب و غریب مباحث چھڑ جاتے۔ اشفاق احمدمیں یہ خوبی تھی کہ وہ ایسا فقرہ بول دیتے کہ مقابل چونکپڑتا تھا ۔
” ممتاز مفتی نے خود کئی مافوق الفطرت واقعات لکھ کر اپنے گرد ایک دھند کا دائرہ سا بنا لیاتھا۔ یہی حیلہ اشفاق احمد نے کیا۔“
اشفاق احمد کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے اچانک ظاہر یا پھر غائب ہو جانے والے ”بابے “ فکشن کی ضرورت کے تحت آتے ہیں۔ تاہم اشفاق احمد کا اصرار رہا کہ ان کا وجود ہے اور جوکچھ وہ بیان کرتے ہیں حقیقی زندگی میں روحانی سطح پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اشفاق احمد نے اسی فکری مواد پر مشتمل کئی ڈرامے بھی لکھے جن کو ٹیلی وژن پر بڑی مہارت سے پیش کیا گیا۔ ”من چلے کا سودا “ ایسے ہی ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اچھوتے موضوع اور فکری مواد کی وجہ سے ڈراموں کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور اشفاق احمد لوگوں کو اپنی اس فکری جہت کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔بقول اے حمید:
” اخبارات اور رسائل کے لیے جب اشفاق احمد انٹرویو دیتے یا پھر تقاریب میں گفتگو کرتے تو اس میں حیرت کاعنصر ضرور شامل ہو جاتا ۔ اشفاق کے حوالے سے عجیب و غریب واقعات اخبارات کی زینت بننے لگے ۔اور یوں اس کی ذات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ تاہم یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ روحانیت اور تصوف سے متعلق لوگوں کی وہ ہمیشہ کھوج میں رہتا ہے۔“
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ظاہر و باطن دونوں دنیائوں کا مطالعہ کیا جائے ۔ کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں جہاں جبلی اور فطری عناصر کارفرما ہوتے ہیں ۔وہاں خاندانی خصائص اور اردگرد کے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے۔ شخصیت محض گوشت پوست کی چلتی پھرتی ہوئی مورتی کا نام نہیں بلکہ اس میں فرد کی شخصی کوائف اور باطنی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ دونوں کے امتزاج سے شخصیت کا وجود مکمل ہوتا ہے۔ اوراگر شخصیت ایسی ہو جس کا اظہا ر اس کے تخلیقی فن پاروں میں بھی ہو تو پھر ان فن پاروں کی صحیح تقسیم و تحسین کے لیے داخلی اور خارجی زاویوں سے شخصیت کا مطالعہ اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم اس ضرورت کے پیش نظر جامع طور پر اشفاق احمد کی شخصیت کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔
اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے ۔ بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹے تھے۔ باپ ایک محنتی ،قابل اور سخت مزاج آدمی تھے۔ جن کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ اس کے باوجود اشفاق احمد کی شخصیت میں بنیادی طور پر پٹھانیت کا عنصر مفقودتھا۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ کہ اشفاق احمد کی شخصیت میں دکھ اور چپ کاعنصر بدرجہ اتم موجودتھا۔
بقول ممتاز مفتی :
” گزشتہ دو ایک سال سے اشفاق احمد نے بڑی دھوم مچا رکھی ہے وہ جگہ جگہ مجمع لگائے کھڑا ہے۔ ریڈیو پر ، ٹی وی پر محفلوں میں ، سماجی گٹ ٹو گیدر میں عوام اس کے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ دانشوار اس کے ڈراموں پر بحث کرتے ہیں۔بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ رنگین اور منفرد باتوں کے جال بن کر مجمع لگانے والا درحقیت گونگا ہے۔ اس کی شخصیت دکھ اور چپ کے تانے بانے سے بنی ہے اس کی بزم آرائی اورزعفران زاری شخصیت کے ان بنیادی عناصر سے فرارکی سعی ہے۔“
اشفاق احمد ایک ایسے انسان تھے کہ جب وہ اکیلے بیٹھے ہوتے تھے تو اس کے چہرے کے خطوط نیچے کی طرف ڈھلک جاتے تھے۔ پیشانی کی سلوٹیں رینگ رینگ کر باہر نکل آتی تھیں۔ آنکھیں اندر کی طرف ڈوب جاتی تھیں اور چہرے پر اکتاہٹ ڈھیر ہو جاتی تھی۔بقول ممتاز مفتی :
” اگر آپ اس کی شخصیت کے بنیادی عناصر سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو اسے اُس وقت دیکھیئے جب وہ اکیلے میں بیٹھا ہو۔ جب اسے یہ احساس نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے ۔ اگر اسے ذرا بھی شک پڑ گیا تو اس کے اندر کی بنی سجی طوائف خاتون ہوشیار ہو جائے گی ۔“
چونکہ اشفاق احمد کی شادی والدین کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی اس لیے شادی کے بعد مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا ۔ اس وقت انتہائی بے سہارا تھے اور بے وسیلہ گھر کا چولہا جلانے کے لیے انھیں سکرپٹ رائٹر بننا پڑا۔ اشفاق احمد کو اس کاروبار میں صرف کامیابی حاصل نہ ہوئی بلکہ شہرت بھی ملی ۔
اشفاق احمد واقعی ایک ٹیلنٹیڈ فنکار تھے۔ان کی ٹیلنٹ کا مرکز آنکھ اور کان تھے۔ خصوصاً وہ زیادہ سننے والے اور دیکھنے والے تھے۔ان کاذہن ہر تفصیل کو ریکارڈ کر لیتا اور ان کا نطق اسے من و عن ری پروڈیوس کر سکتا تھا۔
اشفاق احمد سارا سارا دن کتابوں کے انبار میں بیٹھے رہنے والے ادیب تھے۔ بے دکھ کے مارے ہوئے۔ بے وجہ چپ تلے دبے ہوئے۔ ایک وحشت بیدار ہوتی ۔ لہک کر وہ سنہرے پھل بوٹوں والا چغہ پہن لیتے ۔ چغہ پہنتے ہی چہرے کے زاوےے اوپر کو ابھر آتے ۔ہونٹوں پر روغنی تبسم کھلنے لگتا اور چٹکیاں بجاتے ہوئے گھرسے نکل جاتے اور اوپن ائیر تھیٹر میں پہنچ جاتے ۔ وہاں ڈگڈگی بجاتے ۔ گھنگرو چھنکاتے ۔ مجمع لگاتے ۔ رنگین باتوں کے جال نکالتے ۔ گنگناتے ۔ گاتے ڈرامے کھیلتے ۔ قہقہے لگاتے خود ناچتے دوسروں کو نچاتے لیکن یہ دور تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ۔ اس کے بعد وہی تنہائی ۔ وہی دکھ وہی چپ ۔ یہی اشفاق احمد کی زندگی تھی۔
اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا ۔ رکھ رکھائو سے سرشار ۔ ایک دنیا دار ۔ خود نمائی سے بھرپور ۔ پتھر کا بنا ہوا دیوتا ۔ دوسروں کونصیحتیں کرنے والا ایک” تلقین شاہ“ ۔ اپنے منوانے والا گھرکا مالک ۔ اور سن کر جذب کرنے والے ایک عظیم کان تھے۔ بیگم اس سوچ میں کھوئی رہتی کہ عجز و ادب و احترام اور دنیا داری کا کونسا نیا مرکب ایجاد کیا جائے جس کی ذریعے ان کو ڈھب پر لایا جاسکے۔ ان کے دل میں انفرادیت کی ایک کلی کھلی ہوئی تھی وہ چاہتے تھے کہ کوئی انوکھی بات کرے ۔ انوکھا کام کرے او رانوکھی خبر سنا کر دنیا کو حیران کر دے ۔بقول ممتاز مفتی
”اشفاق احمد ایک پرفیکشنٹ ہے وہ جو کام کرتا ہے اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ اس قدر اندر دھنس جاتا ہے کہ لت پت ہوئے بغیر باہر نہیں نکلتا ۔ مثلاً جب وہ ماڈل ٹاون میں مکان بنا رہاتھا تو کوئی ایک ماہ کے لیے معمار بن گیا چنائی اور پلستر کے کاموں کے اندر دھنس گیا ۔ جب وہ مکان میں نلکے لگوا رہاتھا تو آٹھ روز برانڈ رتھ روڈ کے چکر لگا تا رہا ۔ اس نے تما م ٹونٹیاں دیکھیں۔ کس کس کا منہ کھلا ہو اہے کس کس کا منہ بند ہے۔ کس کا واشل مضبوط ہے آٹھ دن کی تحقیق کے بعد وہ ٹونٹیوں پر تفصیلی مقالہ لکھ سکتا تھا کہ پاکستانی کارخانوں کی بنی ہوئی ٹونٹیوں کے کیا کیاخواص ہیں۔ یہ تفصیلات اکٹھی کرنے کے بعد اُس نے مکان کے نلکوں کے لیے ٹونٹیاں خریدیں۔“
اشفاق احمد کو کباب بنانے اور کھانے کابہت شوق تھا۔ قیمہ کیسا ہوناچاہےے، مصالحہ کیسا ہونا چاہےے ۔ آنچ کیسی ہو اور کتنی ہو ۔ سب کے متعلق معلومات رکھتے تھے۔ میاں بیوی مل کر کباب سازی کی مشق کرتے تھے ۔ وہ اکثر دوستوں کو مدعو کرتے تھے خود کباب بناتے اور دوست کھاتے جاتے تھے۔
اشفاق احمدکو شریفانہ قسم کا غصہ نہیں آتا تھا۔ غصہ تو آتا تھا لیکن غصے میں بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم تھے۔ وہ چڑ چڑ کرتے تھے ۔سلگتے اور بل کھاتے رہتے ۔ اپنی تخلیق میں اشفاق احمد کسی دوسرے فرد کو کریڈیٹ میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تمام تر کریڈیٹ لکھنے والے کا حق ہے۔ اگر کوئی اُسے کہتا کہ یار تیرے ٹی وی ڈرامے میں فلاں شخص نے اچھا رول کیا تو یہ بات اُسے ناگوار گزرتی تھی۔ فوراً جواب میں کہتے ہاں اُس نے خاصا کام کیا بڑی ڈھونڈ کے بعد یہ لڑکا تلاش کیا تھا۔ ریہرسل میں آیا تو بالکل کچا تھا بڑی محنت کرنی پڑی۔ خیر نبھا گیا۔ کریڈیٹ دینے میں اشفاق احمد کٹر بنیا تھے۔
اشفاق احمدایک باغ و بہار انسان تھے۔ خوش گفتار دوست تھے۔ بظاہر نرم مگر اندر سے بڑے سخت گیر تھے۔ چڑ چڑ کرنے والے خاوند تھے ۔ کام اپنی مرضی کے مطابق کرتے تھے ۔ اور افسر کو یہ احساس دیتے تھے کہ اُن کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ پسینہ بہانے والے کامی تھے۔ منہ زبانی مرد تھے۔ ایک عظیم پراپگینڈسٹ تھے۔ اثر ڈالنے کے بادشاہ تھے۔ سلف سفیشنٹ تھے ۔اشفاق احمد نے بانوقدسیہ کی تخلیقی قوتوں کو سچے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا ۔ حالانکہ ادبی میدان میں بانوکی حیثیت اشفاق احمد سے بلند تر ہے۔ اگرکوئی بانو کی تخلیق کاری کے بارے میں کہتا تو کہہ دیتے کہ اچھا لکھتی ہے۔ لیکن یار بڑی مغزماری کے بعد اسے یہاں لایا ہوں اب بھی میرے فقرے چراتی رہتی ہے۔بقول ممتاز مفتی :
”اشفاق احمد کو اپنے رنگ میں دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیے جب وہ کچھا بنیان پہنے درخت کی چھائوں میں کھاٹ پر بیٹھا کچھ کھا پی رہا ہو۔ اشفاق کھانے کا رسیا ہے بشرطیکہ کھانا من بھاتا ہو وہ پسند کی چیز کھاتا ہے اور پھر بسیار خوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب وہ کھارہا ہو تو اندر کی طرف طوائف بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ اس انہماک سے کھاتا ہے کہ گردو پیش معدوم ہو جاتے ہیں۔“
اشفاق احمد ذات کے مستری تھے۔ انھیں مشینوں سے محبت تھی۔ ا ن کے گھر میں مشینوں اور اوزاروں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہوتی تھی ۔ دکان میں نئے گیجٹ کو دیکھ کر بچے کی طرح مچل جاتے اسے غور سے دیکھتے اس کے ورکنگ کو سمجھنے کی کوشش کرتے اس سے کھیلتے رہتے اور پھر اس کو خریدنے کے لیے تڑپتے اور جب تک خرید نہ لیتے چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ اشفاق احمد نے اپنے گیراج میں ایک ورکشاپ بنا رکھی تھی ۔ جو تمام اوزاروں اور سامان سے لیس ہوتی تھی۔ فارغ وقت میں اشفاق احمد اپنی مشینوں کو باہر نکالتے۔ پیار سے صاف کرتے تیل گریس لگاتے ۔ کل پرزے چیک کر لیتے ۔ کوئی خرابی ہوتی تو اُسے دور کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اُن سے گاڑی مانگتا تو کبھی نہ دیتے بلکہ خود کو ڈرائیور بنا کر پیش کر دیتے تھے۔
اشفاق احمد اینٹی سوشل نہیں صرف سوشل آدمی تھے۔ انہوں نے کئی بار شدت سے محسوس کیا کہ انہیں سوشل بننا چاہےے اور بقول ممتاز مفتی :
”کئی بار میاں بیوی نے بیٹھ کر سوشل بننے کا پروگرام بنایا کہ شام کو سوشل وزٹ کیا کریں گے آج ان کے ہاں کل اُن کے ہاں ۔ انھوں نے قابل وزٹ لوگوں کی ایک لسٹ بنائی ۔ بازار سے ایک جامع کتاب خریدی جس میں سوشل گفتگو کی تفصیلات درج تھیں۔ سوشل آداب درج تھے ۔ ایک مہینے کی تیاری کے بعد جب عمل کا موقع آیا تو ایک ہفتہ وزٹ کرتے رہے۔ آٹھویں دن دونوں بیٹھے آہیں بھر رہے تھے مشکل کام ہے۔ اشفاق نے کہا ۔ بات نہیں بنی بانو نے جواب دیا۔ الٹا بگڑ رہی ہے۔ اشفاق احمد نے کہا اور سوشل پروگرام ختم ہو گیا ۔“
الغرض اشفاق احمد ایک اچھے ادیب ، وفادار دوست ، پر خلوص مہمان نواز ، خوش طبع، خوش گفتار ، خوددار ، ہمدرد ، محبت کی خوشبوئیں بکھیرنے والے اور سارے عالم انسانیت اور تمام تر مخلوقات سے دلی محبت اور شفقت کرنے والے انسان تھے ۔
اشفاق احمد اردو ادب کی تاریخ میں ایک چمکتے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تصانیف کی بدولت اردو ادب کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشفاق احمد کی تصانیف اردو ادب کے لیے بے مثال اور لازوال سرمایہ ہےں۔ اردو ادب میں اپنے تصانیف کی بدولت اشفاق کا نام تاحیات زندہ و تابندہ رہے گا۔ اشفاق احمد کو اگر اردو ادب کا نادر سرمایہ قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اشفاق احمد کی تصانیف میں افسانے ، ناول ، ٹی وی ڈرامے ، ریڈیائی ڈرامے ، فیچر اور سفر نامے شامل ہیں۔ اشفاق احمد کے لازوال اور شاہکار تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔
اجلے پھول ، ایک محبت سو افسانے ، وداع جنگ ، ایک ہی بولی ، سفر مینا ، صبحانے فسانے ، ایک محبت سو ڈرامے ، توتا کہانی ، بند گلی ، طلسم ہو شرافزا،اور ڈرامے، ننگے پائوں ، مہانسرائے ، حیرت کدہ ، شالہ کوٹ ، من چلے کا سودا، بابا صاحبا، سفر در سفر ، اچے برج لاہور دے، ٹاہلی تھلے، کھیل تماشا، گلدان ، حسرتِ تعمیر ، جنگ بجنگ ، کھیل کہانی ، زاویہ ، گرما گرم لطیفے وغیرہ۔
بشکریہ
لالا رخ خان
 

شیہک طاہر

محفلین
خوش آمدید۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کو فلسفے سے دلچسپی ہے۔ یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے۔۔۔۔۔۔ امید ہے اس متعلق کچھ پڑھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔
 
Top