ناطقہ سر بگریباں ہے

یہاں کوئی مقابلہ نہیں ہورہا کہ ہار جیت کا سوال پیدا ہو۔ آپ جب یہ جملہ استعمال کر تے ہیں کہ "میں ہار مان رہا ہوں"، تو اس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص آپ کے افکارِ عالیہ کو نہ سمجھتے ہوئے کٹ حجتی کر رہا ہے چنانچہ آپ جان چھڑانے کے لئے ہار مان رہے ہیں۔۔۔ اور ایسا تاثر دینا بذاتِ خود علمی رویے کے منافی ہے اور میری دانست میں بداخلاقی کے ضمن میں آتا ہے۔
آپ نے خود اس بحث میں حصہ لیا کسی نے مجبور نہیں کیا۔ عین ممکن ہے کہ ہم آپ کے افکارِ عالیہ کو سمجھ نہ سکے ہوں، لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ اپنی بات کو مناسب انداز میں سمجھانے میں ناکام رہے ہوں۔
اگر یہ شکوہ ہے کہ قاری آپ کے شعبے کا نہیں ہے اس لئے ابلاغ میں دقت ہورہی ہے تو ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو، چنانچہ ہم اپنے جہل اور ناسمجھی کا اعتراف کرلیتے ہیں۔۔۔:)
 
یوں بھی آج کل بحث و مباحث سے جان جاتی ہے کہ مشغولیات بہت کٹھن قسم کی ہیں۔ امید ہے برا نہیں منائیں گے۔
جو حکم سرکار۔
عین ممکن ہے کہ ہم آپ کے افکارِ عالیہ کو سمجھ نہ سکے ہوں، لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ اپنی بات کو مناسب انداز میں سمجھانے میں ناکام رہے ہوں۔
محمود بھائی، جانے دیں۔ دونوں امکانات روشن ہیں۔ مگر ان کے پاس شاید وقت نہیں ہے۔ عین ممکن ہے وہ درست فرما رہے ہوں۔ حجت تو فریقین میں سے کوئی بھی نہیں ہے نا۔ میں فی الحال آپ سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ مگر دیکھنا چاہوں گا کہ بسمل صاحب کس بنیاد پر اپنے نقطہءِ نظر سے اس درجہ مطمئن ہیں۔ کچھ تو خاص ہو گا ہی۔ فیصلہ مزید مطالعے اور مشاہدے کا محتاج ہے۔ مجھے تو موصوف کا رویہ نہایت شائستہ معلوم ہوا ہے۔ آپ جلدی نہ کیجیے۔ بلکہ اگر اپنی رائے کی صحت کا یقین ہی ہے تو
لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش!
 

نمرہ

محفلین
اور اس صفحے پر کافی دلچسپ اور مناسب حل ہیں۔
یہ واقعہ ہم نے کافی عرصہ پہلے منطق کی ہی ایک کتاب میں پڑھا تھا۔ یہ یونانی فلسفی پرطاغورس (Protagoras) اور اس کے شاگرد Euathlus سے منسوب واقعہ ہے۔ میرے خیال میں اس واقعہ سے منطق کی بے بسی کا مقدمہ کبھی نہیں لڑاجاتا۔ یہ معضلہ کی بازگشت (Rebuttal Of Dilemma) کے ابتدائی اسباق میں پڑھایا جاتا ہے جو کہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ایسے مغالطات کو بنیاد بنا کر ایک طرف تو منطق کا رد نہیں کیا جاسکتا۔اور دوسری طرف یہ بات ہے کہ منطق کا رد کرنے والا خود ہی رد کرنے میں بھی منطق کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔
در اصل منطق کسی کا ایجاد کردہ علم نہیں ہے۔ بلکہ اس کے قوانین کائنات کے اندر پائے جاتے ہیں۔ انسان نے صرف اسکی دریافت کرکے اسے مدون کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ریاضی کے قوانین ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ منطق کسی کی اسیر ہو نہ ہو۔ ہم خود ہی منطق کے اسیر ہیں۔ کیونکہ ہم خود منطق سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ اتنا امر ضرور ہے کہ کوئی موٹی موٹی اصطلاحات کا استعمال کرکے بتاتا ہے کہ وہ منطق جانتا ہے۔ حالانکہ منطق انسان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے۔
کسی کا چہرہ دیکھ کر اس کے غصے کا اندازہ لگانا۔ کسی کا لہجہ محسوس کرکے اسکی خفگی کا سراغ لگانا۔ باپ کا موڈ دیکھ کر بچے کا سہم جانا۔ کسی کی ہچکچاہٹ دیکھ کر یہ کہنا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ سارے ابتدائی نوعیت کے منطقی استدلالات ہی ہیں جو ہر انسان میں کسی نہ کسی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ علم منطق صرف انہی مظاہرکو مدون کرکے انہیں آفاقی بنا کر پیش کردیتا ہے۔
باقی سب سے سو فیصد متفق مگر ہے تو یہ ڈیلیما یا پیراڈوکس ہی کیونکہ اس میں منطقی مغالطہ کوئی نظر نہیں آتا :)
 
محترم احبا ب اچھے پیرائے میں اچھی اور علمی گفتگو ہو رہی تھی۔ میری درخواست ہے کہ اسے جاری رکھا جائے۔
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے ! !
معاف کیجیے گا۔ مجھے اس کے سوا کوئی اور جواب سوجھا نہیں۔ اگر آپ کو کسی معقول ردِ عمل کی توقع تھی تو یقین مانیے میں آپ کے غم میں آپ سے پہلے سے شریک ہوں!
فنا تعلیمِ درسِ بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر !
 
مجھے اس کے سوا کوئی اور جواب سوجھا نہیں۔ اگر آپ کو کسی معقول ردِ عمل کی توقع تھی تو یقین مانیے میں آپ کے غم میں آپ سے پہلے سے شریک ہوں!
مجھے تو پڑھ کے مزہ آ رہا تھا اور سیکھنے کو بھی مل رہا تھا۔ بہر حال انسان کی حدود متعین ہیں اور اسے اسی میں رہ کر چلنا پڑتا ہے۔ اگر عقلمندی کامیابی کا جزو لا ینفک ہوتی تو بیوقوفوں پر یہ دنیا تنگ ہو جاتی۔ عارفِ کھڑی فرماتے ہیں۔
کہ بیوقوفاں دے نوکر ویکھے عقل مند سیانے
لیکن انسانوں کی واضح اکثریت واضح چیزوں پہ عمل کرنے کو چھوڑ کے غیر واضح چیزوں یا افکار و نظریات میں غرق ہونے کو باعث افتخار سمجھتی ہے۔
بہر حال منطق کو لے کر اچھی گفتگو دیکھنے کو ملی اس دھاگے میں امید ہے کہ کچھ نہ کچھ مزید بات چیت بھی دونوں اطراف سے ہو گی۔
 
کرٹ گورڈیل کا سرسری سا مطالعہ کرکےاکبر الہ آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے:
ہم نے چاہا تھا کہ کٹ جائیں جو ناقص شعر ہوں
یہ نتیجہ تھا کہ کُل دیوان رُخصت ہوگیا۔۔۔۔۔۔
یعنی کجا یہ بات تھی کہ ہم اپنی پوسٹ سے صرف یہ نتیجہ نکالنے تک محدود تھے کہ "منطق اور فلسفیانہ اصول اپنی حدود سے ماواراء ہوکر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے"، لیکن اب جو ں جوں کرٹ گوڈیل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تُوں تُوں یہ نظریہ قائم ہورہا ہے کہ "منطق اور فلسفیانہ اصول نہ صرف یہ کہ اپنی حدود سے ماوراء ہوکر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے، بلکہ یہ بھی کہ ان سے انسان کو یقینی علم بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یعنی منطق اور فلسفے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا علم، غیر یقینی ہوتا ہے"۔۔۔۔
یعنی کہ !۔۔۔یہ تو کُل دیوان ہی رخصت ہوگیا۔۔۔:p:mrgreen::LOL:
بہرحال۔۔۔ابھی مطالعہ جاری ہے اس لئے کسی نتیجے پر قبل از وقت پہنچنا نامناسب ہوگا۔
 
لیکن اس حوالے سے بھی ایک پیراڈوکس پائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ :
اگر میں کہوں کہ منطق اور فلسفے سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔۔۔تو جواب میں اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ کیا آپ کو اس بات پر یقین ہے؟۔۔۔
ناطقہ سر برگریباں ہے، اسے کیا کہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
فلسفے سے سرسری سا تعلق ہے۔ نصابی مضمون کے طور پر نہیں پڑھا۔ بس چیدہ چیدہ، معلومات عامہ تک! لیکن اس مضمون پر میں کسی اور نقطہ فکر سے بات کرنا چاہوں گا۔ صاحب مراسلہ سے معذرت کے ساتھ کہ میں کوئی مخصوص اصطلاح نہیں استعمال کر سکوں گا۔ اس مضمون پر نصابی نا اہلی کے سبب :)
تو اجازت ہو تو بات کروں؟ :) :)
 
یہ نتیجہ تھا کہ کُل دیوان رُخصت ہوگیا۔۔۔۔۔۔
حضرت، انھی اصولوں کو متاعِ حیات سمجھا تھا۔ دیوان بھی رخصت ہوا اور دیوانہ بھی انٹا غفیل ہو گیا۔ کچھ صاحب نظروں نے بمشکلِ تمام بیدار کیا۔ اب فلاسفہ کے دلائل جتنے بھی قوی ہوں، بھروسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف لگتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے سرکار۔ آپ ایمان کے خلاف اور عقل کے حق میں جتنی چاہے براہینِ قاطعہ و ساطعہ لے آئیے۔ عقل زندگی نہیں گزروا سکتی۔ ایک پل بھی عبور کرنا ہو تو آپ کو ایمان رکھنا پڑتا ہے کہ یہ گرے گا نہیں۔ ورنہ امکانات سے تو عالمِ دوں میں کسی مظہر کو مفر نہیں۔ کون ضمانت دے سکتا ہے کہ آپ یقیناً گزر جائیں گے۔ ریاضی؟ ایں خیال است و محال است و جنوں!
البرٹ آئین سٹائین کا فرمان ہے کہ عقل مضبوط تن و توش تو رکھتی ہے مگر شخصیت یا کردار کے رنگ سے محروم ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب کے سر پر چوٹ لگی اور کچھ ایسی لگی کہ کہ ذہن کا جذبات سے متعلق حصہ ماؤف ہو گیا۔ اب حضرت خالصتاً حیوانِ ناطق ہو گئے۔ عقل کام کرتی تھی۔ جذبات اور ان کے متعلقات سے عاری تھے۔
ان کے معالج نے ایک دن ان سے کہا کہ ہمارے پاس دو دن آپ کے لیے وقت ہو گا۔ مثلاً جمعے کے دن یا سوموار کے دن تشریف لے آئیے۔ لیکن ہمیں بتاتے جائیے کہ کب نزول فرمائیں گے۔ بس پھر کیا تھا۔ ان صاحب نے کاغذ قلم سنبھالا اور لگے حساب کرنے۔ جمعے کو فلاں کام ہے۔ سوموار کو فلاں۔ جمعے کو ننھے کے سکول جانا ہے۔ سوموار کو ننھے کی نانی کو موصول کرنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان کا معالج حیرت سے انھیں دیکھتا رہا۔ جب انھیں اپنی مصروفیات کا شمار کرتے کوئی آدھ گھنٹا بیت گیا اور فیصلہ نہ ہو سکا تو معالج نے جھلا کر کہا آپ جمعے کے روز تشریف لے آئیے۔ اور صاحب کاغذ قلم پھینک جھٹ راضی ہو گئے۔
یہ تو عقل کی اوقات ہے۔ کم بخت مسیحا کے لقا کا فیصلہ تک نہیں کر سکتی۔ ایک شعر یاد آ گیا مولائے روم کا۔
زیرکی بفروش و حیرانی بخر
زیرکی ظن است و حیرانی نظر
فرماتے ہیں سمجھداری بیچ ڈال اور حیرانی خرید لے۔ سمجھداری تو فقط ظن ہے یعنی گمان کا کھیل ہے اور حیرانی گویا نظر ہے جس سے ایک ٹھوس مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
 
فلسفے سے سرسری سا تعلق ہے۔ نصابی مضمون کے طور پر نہیں پڑھا۔ بس چیدہ چیدہ، معلومات عامہ تک! لیکن اس مضمون پر میں کسی اور نقطہ فکر سے بات کرنا چاہوں گا۔ صاحب مراسلہ سے معذرت کے ساتھ کہ میں کوئی مخصوص اصطلاح نہیں استعمال کر سکوں گا۔ اس مضمون پر نصابی نا اہلی کے سبب :)
تو اجازت ہو تو بات کروں؟ :) :)
سر نیکی اور پوچھ پوچھ؟۔۔۔۔بلا تکلف اپنے خیالات سے مستفید فرمائیں
 
اس سلسلے میں کچھ مطالعہ کیا تو ایک کتاب نظر سے گذری جس میں کرٹ گوڈیل کی تھیورم میرے جیسےعام لوگوں (جو ماہرِ ریاضیات و منطق نہیں ہیں) کو سمجھانے کے لئے دو تین پہیلیوں کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔مجھے یہ خاصی دلچسپ لگی ۔مرکزی خیال کسی اور کا ہے، میں صرف اپنے الفاظ اور پیرائے میں بیان کر رہا ہوں لیکن آخر میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نےاس طرزِ فکر کو استعمال کرتے ہوئےایک اور بات عرض کی ہے یعنی حقیقت کا فلسفہ و منطق سے ماوراء ہونا۔ اگر کوئی دوست اس Reasoning کی غلطی کی نشاندہی کرے تو ہم مشکور ہونگے) :
پہلی پہیلی
احمد کے پاس ایک نوکیا اور ایک سام سنگ کا موبائل ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص اسے سچی بات بتائے گا تو اس کو ان دونوں میں سے کوئی بھی موبائل دے دیا جائے گا۔ اب کوئی بھی شخص اس سے انعام حاصل کرسکتا ہے کوئی ایسی بات کہہ کر جو سچ ہو۔ چنانچہ اگر کوئی کہے کہ "دو جمع دو چار کے برابر ہوتے ہیں" تو اسے انعام مل سکتا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے انعام میں سام سنگ ملے۔ چنانچہ مجھے اسے کوئی ایسی بات بتانی چاہئیے جو سچ ہو اور جس کے نتیجے میں مجھے صرف سام سنگ کا موبائل ہی مل سکے۔ وہ بات کیا ہوگی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ میں اسے کہوں گا " تم مجھے نوکیا کا موبائل نہیں دو گے"۔
اب اگر یہ بات جھوٹ ہے، تو اسکو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجھے نوکیا کا موبائل دے دے۔ لیکن اس نے کہا تھا کہ میں صرف سچی بات کرنے پر موبائل دوں گا۔ چنانچہ وہ مجھے موبائل نہیں دےسکتا۔ اب اگر وہ مجھے موبائل نہیں دیتا تو اس کا مطلب ہے میری بات سچ ثابت ہوگئی۔ چنانچہ اس صورت میں مجھے وہ سام سنگ کا موبائل ہی دے گا، نوکیا کا نہیں کیونکہ اگر نوکیا کا دے گا تو اس کا مطلب ہے میری بات سچ نہیں۔ چنانچہ ہر دو صورت میں مجھے سام سنگ کا موبائل ملے ہی ملے۔ :)
دوسری پہلی
احمد ایک جزیرے پر پہنچا جہاں صرف دو قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔ صرف سچ بولنے والے، اور صرف جھوٹ بولنے والے۔ صرف سچ بولنے والوں کے لئے جزیرے میں دو پارک بنائے گئے تھے ایک کا نام تھا جناح پارک اور ایک کا نام تھا اقبال پارک۔ لیکن ہر سچے آدمی کو ان دونوں میں سے کسی ایک پارک میں آنے جانے کا اجازت نامہ دیا گیا تھا۔ چنانچہ اگر کوئی جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ رکھتا ہے تو وہ اقبال پارک میں داخل نہیں ہوسکتا اور اسی طرح اس کے برعکس۔ لیکن یہ سہولت صرف سچ بولنے والوں کے لئے تھی۔ جو لوگ صرف جھوٹ بولتے تھے، وہ کسی بھی پارک میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
احمد جزیرے میں پھرتا پھراتا ایک اجنبی سے ملا اور اس اجنبی نے ایک ایسی بات کہی جس سے احمد کو یقین ہوگیا کہ اس شخص کے پاس جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ بات کیا ہوسکتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس اجنبی نے یہ کہا کہ " میرے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے"۔
اب اگر یہ بات سچ ہے کہ اس کے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس یقیناّ جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہوگا۔ کیونکہ یہ بات کرنے والا یا تو صرف سچ بولنے والوں میں سے ہوگا، یا صرف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہوگا۔ اب اگر وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے تب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اور یقیناّ اسکے پاس جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہوگا۔ اور اسکے علاوہ دوسری کوئی صورت نہیں ہے۔ کیونکہ صرف جھوٹ بولنے والا شخص یہ سچ نہیں بول سکتا کہ اسکے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے۔ :)
گوڈل کی پہیلی
اب یہاں تک سمجھنے کے بعد گوڈل کی انٹری ہوتی ہے۔ اور گوڈل یہ کہتا ہے کہ فر ض کرو ہم کسی سسٹم میں پائے جانے والے تمام سچے بیانات (True Statements) کی دو فہرستیں بناتے ہیں۔۔ اب گوڈل کے کہنے پر ان کی دو فہرستیں بنالی جاتی ہیں۔ ایک فہرست A وہ ہے جس میں صرف ایسے سچے بیانات ہیں جن کو اسی سسٹم میں رہتے ہوئے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسری فہرست B وہ ہے جس میں صرف ایسے سچے بیانات ہیں جن کو اسی سسٹم میں رہتے ہوئے سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اب گوڈل نے کیا یہ کہ اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ بات فہرست B میں پائی جاتی ہے۔ ۔ وہ بات کیا ہوسکتی ہے؟
جواب یہ ہے کہ گوڈل کی وہ بات یہ تھی " سسٹم کے اندر رہتے ہوئےمیرا سچ ثابت نہیں ہوسکتا"۔
اب اگر یہ بات جھوٹی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ وہ سسٹم کے اندر رہ کر سچی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ اگر وہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سچ ثابت ہوسکتی ہے تو وہ جھوٹی تو نہ ہوئی۔ جبکہ یہاں ہم نے پہلی صورت میں یہ فرض کیا کہ وہ جھوٹی ہے۔ اب اگر اسے سچی مانا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اس کا سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ایسی تمام باتوں کو فہرست B میں رکھا گیا ہے، ثابت ہوا کہ گوڈل کی یہ بات بھی فہرست B میں پائی جاتی ہے۔
اب ان تینوں پہیلیوں کو سمجھنے کے بعد مطلب کی بات کی طرف آتے ہیں۔
وہ یہ کہ گوڈل کی طرح ہم نے بھی دو فہرستیں بنائیں۔ ایک فہرستA میں وہ تمام حقائق(سچی باتیں) ہیں جن کو منطق اور فلسفے سے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے، اور دوسری فہرست B میں وہ تمام حقائق ہیں جن کو منطق اور فلسفے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔اس کے بعد میں ایک ایسی بات کہتا ہوں جو فہرست B میں لازماّ پائی جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ "منطق اور فلسفے کے ذریعے میرا سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا"۔اب اگر یہ بات جھوٹی ہے تو اس کا مطلب ہے منطق اور فلسفے کے ذریعے میرا سچ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر منطق اور فلسفے سے میرا سچ ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر میری یہ بات جھوٹی تو نہ ہوئی۔(ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ منطق اور فلسفے سے جھوٹی بات کو بھی سچ ثابت کیا جاسکتا ہے:mrgreen::mrgreen::mrgreen:)۔ اور اگر میری یہ بات سچ ہے تو اس ان حقائق کی فہرست B میں رکھنا پڑے گا جو منطق اور فلسفے کے ذریعے سچ ثابت نہیں ہوسکتے۔:p:p:p
 
آخری تدوین:
Top