ناروے میں اسلام مخالف ریلی

فرقان احمد

محفلین
اگر آج مغربی یورپ کے پبلک ، سیاسی اور کلچرل ڈومین سے مسیحیت و کلیسا کا غلبہ مٹ چکا ہے تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ بائیں بازو کی لبرل جماعتوں اور ان سے منسلکہ تحریکوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نےیورپی معاشرہ میں مسیحیوں کی مذہبی جنونیت ختم کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کام کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان میں مسیحیت کی تضحیک اور توہین بھی شامل تھی۔
مسلمان تارکین وطن چاہتے ہیں کہ جو معیار مسیحیت پر تنقید کا یورپی اقوام سیٹ کرکے اسے شکست فاش دے چکے ہیں وہ اسلام پر لاگو نہ ہو۔ تاکہ یورپی معاشرہ میں ان کے مذہب کی اجارہ داری ویسے ہی قائم رہے جو ان کے ترک کئے ہوئے مسلم ممالک میں قائم تھی۔ یہ تو ممکن نہیں ہے۔ یورپی اقوام کسی صورت اسلام کیلئے یہ دہرا معیار قبول نہیں کریں گے۔
مسیحت کی تضحیک نہیں کی گئی، مذہبی شخصیات کو نشانے پر رکھا گیا۔ آج بھی لبرل ازم کے پیروکار مذاہب کی توہین پر یقین نہیں رکھتے؛ کم از کم زبانی کلامی تو یہی کہا جاتا ہے مگر اصل رنگ تو اب دکھائی دے ہی رہا ہے۔ کیا کہا جائے؟ سر! اگر آپ نے لبرل ازم کی منزل تک پہنچنے کے بعد یہی کچھ کرنا تھا، تو پھر، اس سے بہتر تھا کہ یہ جدوجہد نہ ہی کی جاتی۔ بصد معذرت عرض ہے!
 

سید عمران

محفلین
اگر آج مغربی یورپ کے پبلک ، سیاسی اور کلچرل ڈومین سے مسیحیت و کلیسا کا غلبہ مٹ چکا ہے تو اس کا زیادہ تر کریڈٹ بائیں بازو کی لبرل جماعتوں اور ان سے منسلکہ تحریکوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نےیورپی معاشرہ میں مسیحیوں کی مذہبی جنونیت ختم کر نے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کام کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان میں مسیحیت کی تضحیک اور توہین بھی شامل تھی۔
ایک جنونیت کا خاتمہ، دوسری جنونیت کی ابتداء!!!
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت ناروے کے ملحدوں کو اس بات کا غم ہے کہ مذہب کا فروغ کیوں ہو رہا ہے
ناروے کا آئین و قانون ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اس لئے ملحدوں کو کسی بھی مذہب سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ان کو مسئلہ صرف اس چیز سے ہے کہ مسلمان اپنے مرضی کے قوانین جیسے مذہبی آزادی کا تو بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اگر ملحد اپنے حق آزادی احتجاج اور آزادی اظہار کا استعمال کریں جس کی اجازت اسی ملک کا آئین و قانون دیتا ہے تو اس پر بعض مسلمان مشتعل ہو جاتے ہیں۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ اس دہرے معیار کو ایکسپوز کرنے کیلئے وہ اس قسم کے احتجاج کرتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ناروے کا آئین و قانون ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اس لئے ملحدوں کو کسی بھی مذہب سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ان کو مسئلہ اس چیز سے ہے کہ مسلمان اپنے مرضی کے قوانین جیسے مذہبی آزادی کا تو بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے آزادی احتجاج اور آزادی اظہار کا استعمال کریں جس کی اجازت اسی ملک کا آئین و قانون دیتا ہے تو اس پر بعض مسلمان مشتعل ہو جاتے ہیں۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ اس دہرے معیار کو ایکسپوز کرنے کیلئے وہ اس قسم کے احتجاج کرتے ہیں۔
ملحد اس معاملے میں غیر منطقی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی انتہا پسندی سے بچنے کے لئے انتہا پسندوں کا دفاع کرنا چاہیے؟ :eek:
کوئی لاکھ بار عرض کر چکا ہوں کہ ناروے کے آئین، قانون، کلچر، تہذیب ، تمدن میں مقدس مذاہب کی تضحیک و توہین کو انتہا پسندی نہیں سمجھا جاتا۔
ہاں اگر توہین کے جواب میں عدم برداشت کا مظاہرہ کر کے خون خرابہ کیا جائے تو اسے سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کوئی لاکھ بار عرض کر چکا ہوں کہ ناروے کے آئین، قانون، کلچر، تہذیب ، تمدن میں مقدس مذاہب کی تضحیک و توہین کو انتہا پسندی نہیں سمجھا جاتا۔
ہاں اگر توہین کے جواب میں عدم برداشت کا مظاہرہ کر کے خون خرابہ کیا جائے تو اسے سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
Norway is in denial about the threat of far-right violence
 

جاسم محمد

محفلین
کیوں؟؟؟
اظہار آزادیِ رائے کے اچار کا کیا ہوا؟؟؟
یعنی نارویجن قوم کو تکلیف ہوئی کہ ان کے جھنڈے جلائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسکی روک تھام کیلئے پاکستان میں کوئی قانون بنانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ناروے میں بھی ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس میں ملک کا جھنڈا جلانے والے کیلئے کوئی سزا مقرر ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یعنی نارویجن قوم کو تکلیف ہوئی کہ ان کے جھنڈے جلائے گئے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسکی روک تھام کیلئے پاکستان میں کوئی قانون بنانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ناروے میں بھی ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس میں ملک کا جھنڈا جلانے والے کیلئے کوئی سزا مقرر ہو۔
اشتعال دلانے والا ہی اصل ذمہ دار ہے جیسا کہ اس معاملے میں قرآن کو جلانے والا۔ اگر اسے قرآن کے پیغام سے اتفاق نہیں تو وہ کتاب کی شکل میں اپنی بات سامنے رکھے نہ کہ اس کو جلا کر ایک کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ مجرم نہیں ہے۔ اس نے آپ کی کس مقدس یا غیر مقدس کتاب کو جلایا۔ اگر ہمارے سامنے کوئی قرآن پاک کو جلاتا تو ہمارا ری ایکشن بھی یہی ہوتا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ ہماری مقدس کتاب کو اظہار رائے کی آزادی سمجھ کر جلاتا پھرے۔ قانون کو بروقت حرکت میں آنا چاہیے تھا اور اگر قانون اس معاملے میں خاموش رہتا ہے تو پھر فیصلہ میدان میں ہوتا ہے اور ایک معنی میں ہو کر رہا۔
مغرب اور اسلامی دنیا میں یہی بنیادی فرق ہے کہ یہاں ہر فعل کو انفرادیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ مسلم دنیا میں اجتماعیت کی نظر سے۔
وہ شخص جس نے قرآن پاک جلایا۔ نارویجن قوانین کی رو سے اس نے یہ کام انفرادی حیثیت میں اپنی خریدی ہوئی کتاب کے ساتھ کیا ہے۔ اگر وہ کسی کی کتاب چوری کر کے یہی کام کرتا تو قانون کی پکڑ میں آتا۔ مگر چونکہ وہ اس کتاب کا مالک تھا اور اسے اپنی مرضی سے ضائع کر دیا تو ایسے میں ناروے کا قانون اس شخص کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
جبکہ مسلم دنیا میں یہی فعل انفرادیت نہیں بلکہ اجتماعیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اور اس شخص کے خلاف توہین مذہب کی سنگین دفعات درج ہوں گی۔ بیشک اس سے یہ فعل انجانے میں ہی سرزد ہی کیوں نہ ہوا ہو۔
 

فرقان احمد

محفلین
مغرب اور اسلامی دنیا میں یہی بنیادی فرق ہے کہ یہاں ہر فعل کو انفرادیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ مسلم دنیا میں اجتماعیت کی نظر سے۔
وہ شخص جس نے قرآن پاک جلایا۔ نارویجن قاونون کی نظر میں اس نے یہ کام انفرادی حیثیت سے اپنی خریدی ہوئی کتاب کے ساتھ کیا۔ اگر وہ کسی کی کتاب چوری کر کے یہ کرتا تو قانون کی پکڑ میں آتا۔ مگر چونکہ وہ اس کتاب کا مالک تھا اور اسے اپنی مرضی سے ضائع کر دیا تو ایسے میں ناروے کا قانون اس شخص کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
جبکہ مسلم دنیا میں ایسے شخص کا فعل انفرادی نہیں اجتماعیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اور اس کے خلاف توہین مذہب کی دفعات لگیں گی۔ بیشک اس سے یہ فعل جان بوجھ کر سرزد نہ ہو ا ہے۔
یہ کتاب وہ گھر میں جلا کر اپنے 'ارمان' پورے کر سکتا تھا، سرِ عام ایسا کیوں کیا، اجتماع میں تو وہ خود گیا صاحب؟ :) جب وہ تماشا بنا، تو پھر، یاد رکھیے، کچھ حق تو تماشائیوں کا بھی ہوتا ہے نا!
 

جاسم محمد

محفلین
مسیحت کی تضحیک نہیں کی گئی، مذہبی شخصیات کو نشانے پر رکھا گیا۔ آج بھی لبرل ازم کے پیروکار مذاہب کی توہین پر یقین نہیں رکھتے؛ کم از کم زبانی کلامی تو یہی کہا جاتا ہے مگر اصل رنگ تو اب دکھائی دے ہی رہا ہے۔ کیا کہا جائے؟ سر! اگر آپ نے لبرل ازم کی منزل تک پہنچنے کے بعد یہی کچھ کرنا تھا، تو پھر، اس سے بہتر تھا کہ یہ جدوجہد نہ ہی کی جاتی۔ بصد معذرت عرض ہے!
لبرل ازم کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ کوئی بھی چیز تنقید اور تضحیک سے ماورا نہیں۔ جب آپ آئین و قانون میں پہلے سے یہ ڈکلیئر کردیں کہ فلاں فلاں چیز مقدس ہے اور اس کا احترام ہر شہری پر لازم ہے تو معاشرہ قدامت پسندی اور دقیانوسیت کے چنگل سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملحد اس معاملے میں غیر منطقی ہیں۔
اس میں غیرمنطقی والی کیا بات ہے؟ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ناروے کے آئین و قانون کے پابند ہوں۔ جس طرح مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔ ویسے ہی ملحدوں کو مذاہب کی تضحیک و توہین کی آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح مذہبی لوگ بھی ملحدوں کے عقائد کی توہین و تضحیک کر سکتے ہیں۔ ناروے میں مذہبی یا غیر مذہبی عقائد مقدس نہیں۔ انسانی جان مقدس ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
لبرل ازم کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ کوئی بھی چیز تنقید اور تضحیک سے ماورا نہیں۔
تنقید اور تضحیک کو ایک لاٹھی سے کب سے ہانکا جانے لگا ہے! ذرا اس بنیادی اصول کی مزید وضاحت کیجیے اور بتلائیے کہ تضحیک لبرل ازم کا بنیادی اصول کب سے بن گئی؟
 

جاسم محمد

محفلین
اشتعال دلانے والا ہی اصل ذمہ دار ہے جیسا کہ اس معاملے میں قرآن کو جلانے والا۔
قرآن جلانے والا اگر یہ کتاب کسی مسلمان سے چرا کر لاتا تو اس پر اشتعال بنتا تھا۔ اگر یہ کتاب اس کی اپنی ملکیت تھی تو اس کے جلانے پر اشتعال کیسا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
کوئی لاکھ بار عرض کر چکا ہوں کہ ناروے کے آئین، قانون، کلچر، تہذیب ، تمدن میں مقدس مذاہب کی تضحیک و توہین کو انتہا پسندی نہیں سمجھا جاتا۔
ہاں اگر توہین کے جواب میں عدم برداشت کا مظاہرہ کر کے خون خرابہ کیا جائے تو اسے سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ارے ہم ناروے والوں کی نہیں، بلکہ ناروے میں مقیم اور محفل میں موجود مسلمانوں کی دینی حمیت کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس پر یکسو ہو کر جواب دیجے۔ آپ مشتعل نہیں ہوتے نہ ہوں، لیکن اپنے دین و مذہب کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی کیا تُک بنتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کتاب وہ گھر میں جلا کر اپنے 'ارمان' پورے کر سکتا تھا، سرِ عام ایسا کیوں کیا، اجتماع میں تو وہ خود گیا صاحب؟ :) جب وہ تماشا بنا، تو پھر، یاد رکھیے، کچھ حق تو تماشائیوں کا بھی ہوتا ہے نا!
پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ جب پاکستان میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کے دوران مشتعل عوام نے ناروے کے جھنڈے جلائے تھے تو اس وقت کسی کو خیال نہ آیا کہ ایسا کرنےسے ایک پوری قوم کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ البتہ جب ایک انتہا پسند نارویجن نے احتجاج کرتے ہوئے قرآن پاک جلا دیا تو مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو گئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :)
 

فرقان احمد

محفلین
پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ جب پاکستان میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کے دوران مشتعل عوام نے ناروے کے جھنڈے جلائے تھے تو اس وقت کسی کو خیال نہ آیا کہ ایسا کرنےسے ایک پوری قوم کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ البتہ جب ایک انتہا پسند نارویجن نے احتجاج کرتے ہوئے قرآن پاک جلا دیا تو مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو گئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :)
عمل اور ردعمل میں کچھ تو فرق ہو گا نا! چاہے ہم سمجھتے رہیں کہ ردعمل مختلف انداز میں دیا جا سکتا ہے تاہم رد عمل، اگر کسی فعل کے جواب میں ہو، تو بسا اوقات قانون میں بھی ایسے افراد کے لیے گنجائش نکل آتی ہے۔ اول تو یہی دیکھا جاتا ہے کہ کسی واقعے کا اصل سبب کیا بنا!
 

جاسم محمد

محفلین
ارے ہم ناروے والوں کی نہیں، بلکہ ناروے میں مقیم اور محفل میں موجود مسلمانوں کی دینی حمیت کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس پر یکسو ہو کر جواب دیجے۔ آپ مشتعل نہیں ہوتے نہ ہوں، لیکن اپنے دین و مذہب کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی کیا تُک بنتی ہے۔
اس بارہ میں میں اپنا ذاتی موقف تو پیش کر چکا ہوں۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکروہ فعل شدید قابل مذمت ہے۔
میں ذاتی طور پر بھی کتب جلانے کے حق میں نہیں کہ مجھے اس کی راکھ سے جرمن نازیوں کی بدبو آتی ہے۔ بہرحال جب تک قوانین اس قسم کے آزادی اظہار اور احتجاج کو لگام نہیں ڈالتے۔ اس حوالہ سے مزید کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں اس کی اکثریت لادین اور سیکولر ہے۔ قانون سازی میں مذہب کا ایک نکتہ تک شامل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آئندہ اگر ایسا کوئی احتجاج ہوا تو پھر یہی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جائے گی :(
 
Top