نئے منظر۔ جدون ادیب

اسلم رضا غوری

لائبریرین
نئے منظر
جدون ادیب۔ کراچی
میں نے اپنے دفتر کی انتظار گاہ کی طرف دیکھا۔ وہاں فردوس علی موجود تھا۔ اس نے اپنے بالوں کو خضاب لگایا ہوا تھا۔ چہرے کی جھریوں سے اس کی ڈھلتی عمر کا اندازہ ہورہا تھا۔ وہ کچھ بوڑھا ہوگیا تھا، مگر اس کی مونچھیں آج بھی تنی ہوئی تھیں اور وہ حسب عادت انھیں تاؤ دے رہا تھا۔
میں اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھااور کچھ پرانے مناظر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے:
میرے والد فردوس علی کے حجرے میں مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے ۔ میں ان کے پہلو سے لگ کر کھڑا تھا۔ فردوس علی میرے والد پر چلّا رہا تھا کہ ان کی ہمت کیسے ہوئی مجھے اسکول میں داخل کرانے کی۔
کہانی یہ تھی کہ ایک مسافر نے میرے والد کے حالات دیکھ کر انھیں مشورہ دیاتھا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ غربت سے نکلنے اور باشعور ہونے کا یہی راستہ ہے۔ والد صاحب کی گاؤں میں ایک چھوٹی پرچون کی دکان تھی اور ہم کئی لوگوں سے اچھی زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک دفعہ شہر سے واپسی پر ایک مسافر نے والد صاحب کو بڑی تفصیل سے تعلیم کی افادیت و اہمیت کے بارے میں بتلایا۔ گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ دوسرا گاؤں کئی میل کے فاصلے پر تھا۔ اسی گاؤں میں میری خالہ رہتی تھیں۔ والد صاحب نے گھر میں مشورہ کرکے مجھے خالہ کے گھر چھوڑ دیا اور میں وہاں پڑھنے لگا۔
فردوس علی ایک ظالم اور سخت مزاج وڈیرا تھا۔ یہ اس کی فطرت میں شامل تھا کہ وہ غریب کسانوں اور گاؤں والوں پر ظلم کرے، تاکہ وہ ہمیشہ دب کر رہیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ کرسکیں۔ اسے سب سے زیادہ خطرہ تعلیم سے تھا، اس لیے اس نے اب تک مختلف حیلوں سے گاؤں میں اسکول کھلنے نہیں دیا تھا اور اسی جہالت کی بدولت وہ گاؤں کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا تھا۔ اسے جب پتا چلا کہ میں دوسرے گاؤں میں پڑھ رہا ہوں تو وہ سیخ پا ہوگیا۔ اس نے اپنے حواریوں اور خوشامد پسند ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر کے میرے والد کو بلایا اور انھیں گاؤں کے رسم و رواج کو توڑنے کا مجرم قرار دیا۔ اس نے والد صاحب کو خوب ذلیل کرنے کے بعد انھیں حکم دیا کہ وہ اس کے جوتے پر ناک رگڑ کر معافی مانگیں۔
والد صاحب تردد کا شکار تھے۔ وہ ذلت و بے عزتی کے احساس سے کانپ رہے تھے۔ فردوس علی کی دہشت اور اس کے ظلم کی وجہ سے وہ سخت خوف زدہ تھے۔ انھوں نے کئی بار کوشش کی کہ وہ معافی مانگ لیں، مگر فردوس علی کے حواریوں اور چیلوں نے انھیں ٹوک دیا کہ پہلے وڈیرے کا حکم مانو، پھر کوئی بات ہوگی۔
اس وقت میرے والد صاحب بہت مجبور تھے اور آخر وہ آگے بڑھے اور جھکتے ہوئے فردوس علی کے قریب گئے اور آہستہ سے جھکنے لگے تھے کہ میں نے سختی سے ان کا بازو پکڑلیا اور انھیں اپنے ٹیچر سے پڑھا ہوا سبق سنایا کہ تمام انسان برابر ہیں اور ایک انسان کا دوسرے انسان کے آگے جھکنا ٹھیک نہیں ہے۔
وہ الفاظ تھے کہ کوئی بم پھٹا تھا۔ سب سناٹے میں آگئے۔ فردوس علی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس گستاخی پر مجھے تھپڑوں اور ٹھڈوں کے آگے رکھ دیا۔ میں مضبوط کاٹھ کا لڑکا تھا، مگر سچی بات ہے کہ مجھے بہت درد ہورہا تھا اور میرے جسم کا کوئی حصہ نہیں بچا تھا کہ جہاں کوئی ضرب نہ لگی ہو، لیکن میں نے فردوس علی سے معافی نہیں مانگی اور نہ اپنے والد صاحب کو اس کے آگے جھکنے دیا۔
اب ایک اور منظر میری آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا۔ میں اور میرے گھر والے آخری بار اپنے گھر کے در و دیوار کو حسرت سے تک رہے تھے اور پھر ہم مختصر سا سامان لے کر گاؤں سے نکل گئے۔
مناظر بدلتے جارہے تھے۔۔۔ شہر کی زندگی بہت مشکل تھی، مگر ہم سب کی مشترکہ جد و جہد آہستہ آہستہ رنگ لے آئی۔ میری والدہ اور بہنیں گھر پر کشیدہ کاری اور لفافے بناتیں۔ والد صاحب ایک فیکٹری میں چوکی دار لگ گئے اور میں دن رات پڑھائی میں مصروف رہنے لگا۔
فردوس علی کے تھپڑوں اور ٹھڈوں کی ضربیں مجھے بے چین رکھتی تھیں اور میرے اندر ہر وقت ایک آگ لگی رہتی تھی، لیکن تعلیم کے میدان میں سب سے آگے نکلتا چلا گیا۔
کئی برس گزر گئے۔ میں ایک بڑا افسر بن گیا۔ اس دن میرے والد، والدہ اور میری بہنیں بہت خوش تھیں۔ وہ سب کہہ رہے تھے کہ میری جد و جہد ختم ہوگئی اور مجھے منزل مل گئی، مگر میں جانتا تھا کہ میرے اندر کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔
منظر بدلا اور پھر میری تعیناتی میرے گاؤں کے قریب شہر میں ہوگئی اور پھر قسمت نے اپنا کھیل کھیلا۔ ایک دن ایک فائل میری میز پر آئی تو میرے اندر کی آگ شدت سے بھڑکنے لگی۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ منظر بدلتے جارہے تھے۔۔۔ ایک کے بعد ایک منظر سامنے آتا جارہا تھا۔۔۔ یکایک انٹرکام بجا اور میں خیالات کی دنیا سے حال کی دنیا آگیا، میں نے ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف میرا سیکریٹری تھا۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ فردوس علی اپنی فائل کے لیے جلد ملنا چاہتے ہیں اور تاخیر پر ناراض ہورہے ہیں۔
میں نے اپنے سامنے رکھی فائل کو دیکھتے ہوئے سیکرٹری کو اجازت دے دی کہ وہ فردوس علی کو آنے دے۔ ایک لمحے بعد دروازہ کھلا اور فردوس علی اندر داخل ہوا۔ وہ میری میز تک آیا۔ میں نے سیاہ چشمہ پہن لیا تھا اور غور سے اس شخص کو دیکھنے لگا جس نے مجھ سے میرا بچپن چھین لینے کی کوشش کی تھی۔
فردوس علی توقع کررہا تھا کہ میں اس کے سماجی مرتبے کی وجہ سے اٹھ کر ملوں گا، مگر جب میں بیٹھا رہا تو اس نے مجھے زور سے سلام کیااور خشک لہجے میں کہا:
’’میرے پاس وقت کم ہے۔ آپ کو جو کہنا ہے، جلدی کہہ دیں۔‘‘
فردوس علی نے مجھے نہیں پہچانا تھا۔ اسے میرے رویے سے بہت دھچکا لگا۔ شاید پوری زندگی میں اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوا ہوگا۔ وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا:
’’کمشنر صاحب! میرے آدمیوں نے سارا کیس فائل میں لکھ دیا ہے۔ حکومت ہم پر اپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتی۔ میرے علاقے میں اسکول نہیں بن سکتا۔ ہمارے بڑے اس بات کو ناپسند کرتے تھے، خود ادھر کے لوگ اپنے بچوں کو پڑھاکر خراب نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری زمینوں پر ہماری مرضی کے بغیر سرکار کیوں اسکول کھولنا چاہتی ہے؟ کیوں ہمارے ہاریوں کو آپ لوگ خراب کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے پرسکون اور مدھم لہجے میں کہنا شروع کیا: ’’وڈیرے صاحب! زمانہ بدل رہا ہے، آج لوگ پہلے سے زیادہ اپنے حقوق سے باخبر ہیں اور سرکار بھی اپنے فرائض اور اختیارات جانتی ہے۔ رہی بات آپ کی مرضی اور اجازت کی تو میں نے پٹواری سے ساری معلومات لے لی ہیں۔ آپ نے تو آدھے سے زیادہ گاؤں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اور لوگوں کو تعلیم یافتہ نہیں ہونے دیتے کہ وہ آپ کی حاکمیت کو چیلنج نہ کرسکیں، مگر ایسا ہوچکا ہے۔‘‘
’’کیا ہوچکا ہے کمشنر صاحب!؟ آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہیں۔‘‘ فردوس علی بہت پریشان نظر آنے لگا۔
میں نے فائل اس کی طرف کھسکاتے ہوئے کہا: ’’خان صاحب! آپ کے خلاف کم از کم چالیس لوگوں نے مختلف نوعیت کے ظلم و زیادتی کی درخواستیں جمع کرادی ہیں اور نئی حکومتی تعلیمی پالیسی کے تحت آپ کے خلاف انکوائری ہونے والی ہے کہ آپ نے آج تک گاؤں میں اسکول کھلنے کیوں نہیں دیا۔ آپ کو یہ ساری باتیں سمجھنے کے لیے اپنے وکیل کو ساتھ لانا چاہیے تھا۔‘‘
فردوس علی کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ جلد ہی منت سماجت پر اتر آیا اور اس نے مجھے منہ مانگی رقم دینے کی آفر کی تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔ یکایک وہ پلٹا اور اپنے سر سے ٹوپی اتار کر میرے پیروں میں رکھنے کی کوشش کی۔
میرے اندر کا انسان بھی یہی چاہتا تھا کہ جس طرح اس نے میرے والد کو اپنے جوتے رگڑنے کے لیے جھکنے پر مجبور کیا تھا، میں بھی اسے اپنے پیروں میں پڑنے سے نہ روکوں، مگر میرا علم مجھے روک رہا تھا، لہٰذا میں نے اپنے پاؤں کھینچ لیے اور اس کی ٹوپی اس کے سر پر رکھتے ہوئے بولا:
’’اگر میں آپ کی ٹوپی کو روند دیتا یا آپ کو ٹھدے مارتا تو مجھ میں اور ایک جاہل انسان میں کوئی فرق نہ رہتا۔‘‘
اسی وقت میرے بلائے گئے سیکیورٹی گارڈ اندر داخل ہوئے اور فردوس علی کو باہر لے گئے۔
میں اپنے دفتر میں تنہا بیٹھا ہوا سوچ رہا تھاکہ میں نے بلاوجہ اپنے من میں بدلے اور انتقام کی آگ برسوں جلائے رکھی، جب کہ قدرت کے ایک فیصلے نے برسوں بعد میرے اندر ٹھنڈک تو بھردی تھی، لیکن میری جد و جہد اب بھی پوری نہیں ہوئی تھی، وہ تو اس وقت پوری ہوگی جب میرے ضعیف والد میرے گاؤں میں ایک اسکول کا افتتاح کررہے ہوں گے اور جب گاؤں کے بچے تعلیم کی طاقت سے لیس ہوکر ظلم و زیادتی کے خلاف ڈٹ جایا کریں گے تو وہ منظر اور وہ لمحہ فتح کا ہوگا۔
میری آنکھوں میں نئے منظر طلوع ہورہے تھے۔۔۔ آج میں نے ماضی کی تکلیف دہ سوچوں سے چھٹکارا پالیا تھا اور مستقبل کے نئے اور خوش آیند مناظر نے میری آنکھوں میں ڈیرے ڈال دیے تھے۔
 
Top