تبصرہ کتب نئے شاعروں کے لیے خاص کتاب: انور سِن رائے

مغزل

محفلین
نئے شاعروں کے لیے خاص کتاب
انور سِن رائے
110718121908_mubarak_226x283__nocredit.jpg
کتاب: مبارک احمد مرتب: ایرج مبارک
ناشر: مبارک پبلشرز، 11 شاداب کالونی، ٹیمپل روڈ۔ لاہور
صفحات: 162
قیمت: دوسو پچاس روپے

تاریخ کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو مبارک احمد کے انتخاب میں شامل مضامین، شاعری اور تراجم کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں اچانک پیدا ہوا ہے۔مجھے ساری تفصیل اور نام تو یاد نہیں اور نہ ہی اس وقت اِس میں جانے کی گنجائش ہے کہ کتنے لوگوں اپنی ساری زندگیاں پوری پوری سچائی سے ادب یا شاعری کو دے دیتے ہیں لیکن تاریخ ان کے ناموں کو فٹ نوٹس میں تو کیا حاشیوں میں بھی جگہ نہیں دیتی۔یہ فیصلہ معاشرہ کرتا ہے، کیسے کرتا ہے، اس کے لیے تو کبھی کوئی ووٹنگ یا رائے شماری بھی نہیں ہوئی؟ معاشرہ دھوکے بازی بھی کرتا ہے لیکن سمجھنے کی کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ایک اصول تو یہ ہو سکتا ہے کوئی بھی کل وقتی طور پر کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی اپنی ساری زندگی اور گذر بسر شاعری پر کرتا ہے تو ہم اسے شاعر کہیں گے، اسی طرح اگر کوئی اپنی زندگی کے لیے مچھلیاں پکڑنے پر انحصار کرتا ہے تو اسے مچھیرا۔ اسی طرح ہم لوگوں کو صحافی، ادیب، سیاستداں، صنعتکار یا کاروباری وغیرہ کہتے ہیں۔انتظار حسین ان سب شاعرات کے حریف ہیں جنہیں مبارک احمد انتہائی پسند کرتے تھے اور اس کی گواہی ان کے وہ کالم بھی دیتے ہیں جن میں انہوں نے مبارک احمد کا ذکر کیا ہےاس شرط پر ہمارے کئی شاعر جیسے میر، غالب، اقبال، میرا جی، ناصر کاظمی، منیر نیازی، حبیب جالب اور فکشن نگاروں میں کرشن چندر، منٹو، بیدی اور دوسرے چند ایک پورے اترتے ہیں۔ فیض اور راشد شاعری میں اور انتظار حسین اور شمش الرحمان فاروقی اور مشتاق یوسفی کل وقتی نہ ہونے کے باوجود شاعر اور فکشن نگار اور ادیب ہونے کی نمایاں اور منفرد مثالیں۔اس مسئلے پر تفصیلی بات کسی اور وقت لیکن اس میں مبارک احمد کہاں فٹ ہوتے ہیں؟ مبارک احمد نے ریلوے کی ملازمت کی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد سارا وقت شاعری اور شاعری کے فروغ کو دیا اس میں انہوں نے اپنے گھر بار اور عزیزوں کو بھی وہ اہمیت نہ دی جو وہ شاعروں اور حلقہ اربابِ ذوق کو دیتے تھے۔اس میں ان کی وراثتی مالی خوشحالی اور سائیکل نے بھی خاص کردار ادا کیا۔ وہ ایک سچے عاشق تھے اور اپنے عشق میں انتظار حسین اور کشور ناہید میں کسی فرق کو کفر سمجھتے تھے۔ یہ بات سن کر، اس عمر میں بھی انتظار حسین کے چہرے پر گلابی سی مسکراہٹ کیوں آ جاتی ہے یہ بات مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آ سکی۔ انتظار حسین ان سب شاعرات کے حریف ہیں جنہیں مبارک احمد انتہائی پسند کرتے تھے اور اس کی گواہی ان کے وہ کالم دیتے ہیں جن میں انہوں نے مبارک احمد کا ذکر کیا ہے۔فیض اور راشد شاعری میں اور انتظار حسین، شمش الرحمان فاروقی اور مشتاق یوسفی کل وقتی نہ ہونے کے باوجود شاعر، فکشن نگار اور ادیب ہونے کی نمایاں اور منفرد مثالیں ایرج مبارک نے یہ انتخاب انتظار حسین کے نام ہی کیا ہے اور اس پر بھی انہوں نے جو کالم لکھا ہے اس میں ان کا حریفانہ جذبہ چھپائے نہیں چھپا۔چاہے انتظار حسین کو یقین آئے نہ آئے لیکن میں ان کی افسانہ نگاری کا انتہائی مداح اور ان کا انتہائی نیازمند ہوں اور مجھے مبارک احمد سے بھی قربت رہی ہے اور ایسی کہ جب وہ کراچی آتے تو ہمارے ہاں ایسے رہتے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ہمیں کئی دن تک خود اپنا گھر مبارک احمد کا گھر لگتا لیکن اس کے باوجود میں اور عذرا انتظار حسین کے حریف نہیں ہیں۔ اس انتخاب میں مبارک احمد کی شاعری ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کی تین اہم نظموں کے تراجم۔ یہ نظمیں ویسٹ لینڈ، ایش وینزڈے اور دی لو سونگ آف جے الفرڈ پرفراک ہیں۔ایلیٹ کے ان نظموں کے اردو میں کئی تراجم ہوئے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب عذرا عباس کی طویل نظم نیند کی مسافتیں شائع ہوئی تھی تو مبارک احمد نے اسے ویسٹ لینڈ سے بہتر نظم قرار دیا تھا اور اس کی اطلاع بھی ہمیں انتظار حسین کے کالم سے ہی ملی تھی جس میں انہوں نے عذرا کی نظم پڑھے بغیر مبارک احمد کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی تھی۔میں پچھلے دو ہفتے سے مبارک احمد کا یہ انتخاب پڑھ رہا ہوں اور اس میں کئی نظمیں میں نے کئی بار پڑھی ہیں اور میری رائے ہے کہ سب لوگوں کو، خاص طور پر نئے شاعروں کو یہ انتخاب پوری توجہ اور تحمل سے پڑھنا چاہیے۔ایرج نے شاید کتاب کی قیمت کم رکھنے کے لیے فونٹ سائز چھوٹا رکھا ہے لیکن اگر وہ اس کتاب کو بھی اپنے شعری مجموعے سرمئی لکیر یا افسانوں کے مجموعے خواب گھر جیسا چھاپ دیتے تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ بیٹے نے باپ کے ساتھ انصاف نہیں کیا لیکن بیٹے اور بیٹیاں اتنا بھی کہاں کرتے ہیں۔
 
Top