نئی کاوش ،اساتذۂ کرام کی نظرِ عنایت کی التجا

تجھ سے پہلے ہی چلی آئی تھی تیری خوشبو
دل گلستان ہوا پھیلی جو تیری خوشبو
چند گھڑیوں کے لئے تُو مرے گھر کیا آئی
در و دیوار میں رچ بس گئی تیری خوشبو
اب تو ہر دم ترے ہونے کا گماں ہوتا ہے
تیری قربت سے، مری ہو گئی تیری خوشبو
مشک و عنبر کو جو چاہو تو پرے مجھ سے رہو
مجھ سے تو صرف ملے گی تجھے، تیری خوشبو
اک شبِ وصل نصیبوں سے ملی تھی ، میں نے
تجھ سے مَل مَل کے بدن، چھین لی تیری خوشبو
شمع کی ضو میں ھے پروانے کا انجام چھپا
اور شامت مری خود ڈھونڈے ھے تیری خوشبو
ان رقیبوں سے مِری جان بھلا کب چھوٹے
ان کو خود پاس بلاتی ھے یہ تیری خوشبو
وصل کی شب ہو اور اتنی بڑھے قربت تجھ سے
ہر لباس اترے بدن پر رہے تیری خوشبو
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو بڑی مہکتی ہوئی کہی ہے۔ بس قوافی ندارد ہیں۔ ردیف ’تیری خوشبو‘اچھی ردیف ہے۔ قافیہ بھی پہلے مصرع کے مطابق آئی، چھائی وغیرہ کر دیں تو غزل مانی جا سکے۔
 
معریٰ وہ نظم ہوتی ہے جس میں افاعیل کے ارکان طے ہوں یعنی ان کی تعداد، دوسرے الفاظ میں ہر مصرع ایک ہی بحر میں ہو، اس میں کچھ مصرعوں میں قوافی ممکن ہیں، لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ اگر قوافی کا کچھ التزام رکھا جائے، یا با قاعدہ قطعہ بند اشعار ہوں، یعنی ہر بند میں قوافی ہوں اور ایسے متعدد بند ممکن ہیں، جن میں اپنے اپنے قوافی ہوں، اس نظم کو پابند کہا جا سکتا ہے۔ ان دونوں صنفوں میں حد بندی نہیں ہے، محض قوافی کی تعداد پر ہے، جسے تم پابند مانو، میں اسے معریٰ کہہ سکتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن معری نظم میں ردیف کا ہونا بڑا سقم ہے۔ صرف ہم وزن مصرعے اور ایک دو جگہ قوافی آ جائیں تو درست ہے۔ مذکورہ غزل مسلسل غزل کہی جا سکتی ہے بشرطیکہ قوافی درست کر دیے جائیں
 
معلومات میں از حد اضافہ ہوا۔ آپ سب کا شکرگزار ہوں ۔ اس محفل میں آنے کا یہی تو مقصد ہے کہ آپ جیسے نامور اساتذہ سے کچھ سیکھا جائے۔ مجھے تو شاعری کی ابجد کا بھی شائد پتہ نہیں بس شائد طبیعت میں کچھ حد تک موزونیت تھی اور ہے اور اٹکل پچوں سے میٹر درست کر لیتا ہوں اور ویسے بھی یہ مرض لگے پانچ چھ ماہ ہی ہوئے ہیں - تریسٹھ برس کی عمر میں شاعری شروع کرنا گویا کسی حنوط شدہ لاش میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کرنا ہے بحر حال اس کام میں مجھے لطف ملتا ہے سو کئے جا رہا ہوں اور آپ سب کی طرف داد طلب نگاہوں سے نہیں بلکہ رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا ہوں۔
 
Top