نئی غزل برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام جناب الف عین،
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد احسن سمیع: راحل

بلبل کی طرح سیر چمن ڈھونڈ رہا ہوں
خوشیوں سے بھرا اپنا وطن ڈھونڈ رہا ہوں

اک سوئی کی تلاش ہے بھوسے کے ڈھیر میں
میں شہر کراچی میں امن ڈھونڈ رہا ہوں

اپنی ہی کتابوں سے جو اغیار نے سیکھے
اس قوم کے لوگوں میں وہ فن ڈھونڈ رہا ہوں

قاتل لٹیرے چور ہو غدار یا ظالم
میں سب کو مار ڈالوں گا گن ڈھونڈ رہا ہوں

مٹ جائیں گے ظلمت کے اندھیرے بھی ایک دن
میں بعد شب صبح کی کرن ڈھونڈ رہا ہوں

غزلوں کو میری ہے ابھی اصلاح کی ضرورت
محفل میں میں استاذ سخن ڈھونڈ رہا ہوں

یا میں تلاش میں ہوں سمندر میں سیپ کی
ٰیا پھر کسی جنگل میں ہرن ڈھونڈ رہا ہوں

شارؔق تمہیں معلوم ہے کیا ڈھونڈ رہے ہو
شاید کسی صحرا میں چمن ڈھونڈ رہا ہوں
 
مکرمی شارقؔ صاحب، آداب!
مطلع سے غزل کی بحر کی قائم ہوتی ہے، سو آپ کی غزل کی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن بنتی ہے۔
تاہم کچھ آگے چل کر کچھ اشعار میں آپ نے اس کو ایک دوسری بحر مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن سے خلط کردیا ہے، جیسے کہ دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ۔

بلبل کی طرح سیر چمن ڈھونڈ رہا ہوں
خوشیوں سے بھرا اپنا وطن ڈھونڈ رہا ہوں
مطلع عروضی اعتبار سے تو درست نظر آتا ہے، تاہم معنوی سقم لیے ہے۔ سیرِ چمن تو کی جائے گی، نہ کہ ڈھونڈی جائے گی ۔۔۔سو یہ بیان محاورتاً درست معلوم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ زیادہ عملی بات یہ ہوگی کہ آپ اپنے وطن میں خوشیوں کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ جب وطن پہلے ہی خوشیوں سے بھرا ہوا ہے، تو اس کی تلاش کوئی مشکل کام تو نہ ہوا :)

اک سوئی کی تلاش ہے بھوسے کے ڈھیر میں
میں شہر کراچی میں امن ڈھونڈ رہا ہوں
پہلے مصرعے کی بحر غلط ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے کا وزن بھی ناقص ہے، کیونکہ لفظ امن میں م مفتوح نہیں، ساکن ہوتی ہے۔ یعنی اس کا درست تلفظ اَمْ+نْ ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے گا کہ لفظ امن اپنے درست تلفظ کے ساتھ اس زمین میں بطور قافیہ نہیں آ سکتا!

اپنی ہی کتابوں سے جو اغیار نے سیکھے
اس قوم کے لوگوں میں وہ فن ڈھونڈ رہا ہوں
یعنی اغیار نے ’’اپنی‘‘ کتابوں سے کچھ سیکھا؟؟؟ غالباً آپ کا مافی الضمیر یہ تھا کہ ’’ہماری‘‘ کتابیں پڑھ کر اغیار نے بہت کچھ سیکھ لیا؟
کس قوم کے لوگوں کی بات ہو رہی ہے؟ ’’اِس‘‘ کے مقابل مشار الیہ واضح نہیں۔

قاتل لٹیرے چور ہو غدار یا ظالم
میں سب کو مار ڈالوں گا گن ڈھونڈ رہا ہوں
یہاں دنوں مصرعوں میں بحر خلط ہوگئی ہے۔

مٹ جائیں گے ظلمت کے اندھیرے بھی ایک دن
میں بعد شب صبح کی کرن ڈھونڈ رہا ہوں
’’ظلمت کے اندھیرے‘‘ ۔۔۔ یہ تو ’’جناح کیپ ٹوپی‘‘ والی بات ہوگئی؟
علاوہ ازیں پہلے مصرعے میں بحر خلط ہوگئی ہے، جبکہ دوسرے کا وزن ناقص ہے۔

غزلوں کو میری ہے ابھی اصلاح کی ضرورت
محفل میں میں استاذ سخن ڈھونڈ رہا ہوں
پہلے مصرعے کا وزن ٹھیک نہیں۔ دوسرے مصرعے میں ’’میں میں‘‘ ۔۔۔ میں دونوں دفعہ ی ساقط ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے شدید تنافر پیدا ہو رہا ہے۔
اصلاح کی محتاج ابھی ہیں مری غزلیں
پیہم کوئی استاذِ سخن ڈھونڈ رہا ہوں

یا میں تلاش میں ہوں سمندر میں سیپ کی
ٰیا پھر کسی جنگل میں ہرن ڈھونڈ رہا ہوں
معنوی اعتبار سے شعر انتہائی گنجلک ہے۔ سیپ اور ہرن کی تلاش کیوں کی جارہی ہے؟ اس جانب کوئی اشارہ نہیں۔
اس کے علاوہ پہلے مصرعے میں یہاں بھی بحر خلط ہوگئی ہے۔


شارؔق تمہیں معلوم ہے کیا ڈھونڈ رہے ہو
شاید کسی صحرا میں چمن ڈھونڈ رہا ہوں
جب سوال شارقؔ سے ہے تو جواب شاعر اپنی طرف سے کیوں دے رہا ہے؟ یا تو شارقؔ سے یہ استفسار کیا جائے کہ کیا اسے معلوم ہے کہ شاعر کیا ڈھونڈ رہا ہے!

دعاگو،

راحلؔ
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
مکرمی شارقؔ صاحب، آداب!
مطلع سے غزل کی بحر کی قائم ہوتی ہے، سو آپ کی غزل کی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن بنتی ہے۔
تاہم کچھ آگے چل کر کچھ اشعار میں آپ نے اس کو ایک دوسری بحر مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن سے خلط کردیا ہے، جیسے کہ دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ۔


مطلع عروضی اعتبار سے تو درست نظر آتا ہے، تاہم معنوی سقم لیے ہے۔ سیرِ چمن تو کی جائے گی، نہ کہ ڈھونڈی جائے گی ۔۔۔سو یہ بیان محاورتاً درست معلوم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ زیادہ عملی بات یہ ہوگی کہ آپ اپنے وطن میں خوشیوں کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ جب وطن پہلے ہی خوشیوں سے بھرا ہوا ہے، تو اس کی تلاش کوئی مشکل کام تو نہ ہوا :)


پہلے مصرعے کی بحر غلط ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے کا وزن بھی ناقص ہے، کیونکہ لفظ امن میں م مفتوح نہیں، ساکن ہوتی ہے۔ یعنی اس کا درست تلفظ اَمْ+نْ ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے گا کہ لفظ امن اپنے درست تلفظ کے ساتھ اس زمین میں بطور قافیہ نہیں آ سکتا!


یعنی اغیار نے ’’اپنی‘‘ کتابوں سے کچھ سیکھا؟؟؟ غالباً آپ کا مافی الضمیر یہ تھا کہ ’’ہماری‘‘ کتابیں پڑھ کر اغیار نے بہت کچھ سیکھ لیا؟
کس قوم کے لوگوں کی بات ہو رہی ہے؟ ’’اِس‘‘ کے مقابل مشار الیہ واضح نہیں۔


یہاں دنوں مصرعوں میں بحر خلط ہوگئی ہے۔


’’ظلمت کے اندھیرے‘‘ ۔۔۔ یہ تو ’’جناح کیپ ٹوپی‘‘ والی بات ہوگئی؟
علاوہ ازیں پہلے مصرعے میں بحر خلط ہوگئی ہے، جبکہ دوسرے کا وزن ناقص ہے۔


پہلے مصرعے کا وزن ٹھیک نہیں۔ دوسرے مصرعے میں ’’میں میں‘‘ ۔۔۔ میں دونوں دفعہ ی ساقط ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے شدید تنافر پیدا ہو رہا ہے۔
اصلاح کی محتاج ابھی ہیں مری غزلیں
پیہم کوئی استاذِ سخن ڈھونڈ رہا ہوں


معنوی اعتبار سے شعر انتہائی گنجلک ہے۔ سیپ اور ہرن کی تلاش کیوں کی جارہی ہے؟ اس جانب کوئی اشارہ نہیں۔
اس کے علاوہ پہلے مصرعے میں یہاں بھی بحر خلط ہوگئی ہے۔



جب سوال شارقؔ سے ہے تو جواب شاعر اپنی طرف سے کیوں دے رہا ہے؟ یا تو شارقؔ سے یہ استفسار کیا جائے کہ کیا اسے معلوم ہے کہ شاعر کیا ڈھونڈ رہا ہے!

دعاگو،

راحلؔ
بہت شکریہ راحل صاحب میں مزید اچھا لکھنے کی کوشش کروں گا
 
Top