میں کون ہوں؟

مغرب سے پہلے آفس سے گھر آنے کا معمول ہے۔ واپسی سے قبل گھر فون کرتا ہوں یا گھر سے فون آتا ہے کہ کون سی چیز کی ضرورت ہے اور خرید کر لانی ہے کیوں کہ ہمارا علاقہ ایسا ہے کہ جہاں مغرب کی اذان سے پہلے دکانیں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ صرف فاسٹ فوڈ کی دکانیں اور چند ایک ہوٹل رات دس، گیارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا گھر شہر کے وسط میں واقع ہے لیکن شہر کی معمولات برسوں سے یہی چلی آرہی ہیں۔
گزشتہ پینتیس چالیس دن سے میرے مشاہدے میں ایک بوڑھا بابا ہے۔ وہ خدا کے گھر کے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ادھ گز کا کپڑا بچھا ہوتا ہے جس پر گنے چنے پیاز پڑے ہوتے ہیں۔ یقین جانیے، چند پیاز جن کو گننے میں ٥ سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے ہوں گے۔ میں ان دنوں اس بوڑھے بابے کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ روزانہ جب میں اس کے پاس سے گزرتا ہوں، اس کے پاس یہی چند پیاز۔۔۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ چند پیاز اس سے نہیں بکتے ہوں گے کیوں کہ روزانہ پیازوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی نظر نہیں آتی۔ پھر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر وہ یہ بیچ بھی دے تو اس کی کتنی کماٸی ہوتی ہوگی۔
خیر اس دن میں آفس سے لیٹ ہو گیا اور مغرب کی نماز کے بعد واپسی کے لٸے روانہ ہوا۔ مسجد کے پاس سے گزرا تو میری نگاہ بوڑھے بابے پر پڑی۔ وہ خالی کپڑا جھاڑ رہا تھا۔ کوٸی سبزی یعنی پیاز نہیں تھے۔ وہ سب بیچ چکا تھا اور نہایت مطمٸن نظر آرہا تھا۔
میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوٸے۔ اول، اس سے کون یہ پیاز خریدتا ہوگا؟ دوم، کیا اس کماٸی اس کے لٸے کافی ہوگی؟ وغیرہ وغیرہ۔
جب میں اسے مطمٸن دیکھا تو خیال آیا کہ میں کون ہوں کہ ایسے سوچوں۔ اللہ کی ذات بہت بڑی ہے اور وہ ہر ظاہر اور باطن راز کو جانتی ہے۔ ہم تو صرف ظاہر کو دیکھ کر اندازے لگانا شروع کردیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ
اللہ پر توکل کے لیے اعلیٰ تحریر۔

امید ہے آیندہ بھی اپنی تحریروں سے نوازتے رہیں گے۔
 
جنوری ٢٠٠٤ کے تیسرے ہفتے میں فریضہ حج کی اداٸیگی کا سفر کیا۔ اُس وقت میں لیکچرر کے عہدے پر تعینات تھا۔ جمعہ کا دن اور سہہ پہر کا وقت، ہم حرم شریف میں داخل ہوٸے۔ طواف کے دوران ہلکی ہلکی بارش شروع ہوٸی۔ وہاں کے شب روز عبادات اور فراٸض کی اداٸیگی میں گزر رہے تھے کہ ایک دن ہوٹل میں مقیم ایک حاجی صاحب نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ اُس کے سوال نے مجھے ایسے چونکا دیا جیسے اچانک نیند سے کوٸی بیدار کرے اور انسان کو سمجھنے اور سنبھلنے میں کچھ وقت لگے۔ بالکل اسی طرح مجھے اس کے سوال کا جواب دینے کے لٸے کچھ لمحے سوچنا پڑا کہ میں کون ہوں ، میں کیا کام کرتا ہوں اور میرے عزیز و اقارب کہاں ہیں۔ یقین جانیے، میں اپنی شناخت بھول چکا تھا اور مجھے سوال کے جواب میں تاخیر ہوٸی۔
یہی حالت آج کل ہر انسان کی ہے، دنیا کے کاموں میں اتنا مگن ہوچکا ہے کہ وہ بھول گیا ہے کہ وہ کون ہے اور کس مقصد کے لٸے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے؟
 
Top