کاشف اسرار احمد
محفلین
تقریباََ ایک مہینے سے ایک مصرع بھی نہیں لکھ پایا تھا۔ لیکن یقین جانیئے کل شاید 2 گھنٹے میں ہی یہ غزل مکمل ہو گئی! یہی غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہاہوں ۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سےبطورِ خاص اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سےبطورِ خاص اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
*******............********............********
میں دل ہتھیلی پہ اپنی نکال کر دوں، تو؟
میں اس کے سامنے اپنا سوال کر دوں، تو ؟
میں دل ہتھیلی پہ اپنی نکال کر دوں، تو؟
میں اس کے سامنے اپنا سوال کر دوں، تو ؟
یہ دنیا ختم تو ہونی ہے اس کا غم کیا ہو
مگر ہنسی کو تری لازوال کر دوں، تو ؟
میں اس کہانی میں خاموش ہوں، کبھی لیکن
میں چپ کو توڑ کے افشائے حال کر دوں، تو؟
مگر ہنسی کو تری لازوال کر دوں، تو ؟
میں اس کہانی میں خاموش ہوں، کبھی لیکن
میں چپ کو توڑ کے افشائے حال کر دوں، تو؟
تری خوشی پہ میں دنیا لٹا نہیں سکتا !
نگیں میں سینے سے تجھ کو نکال کر دوں، تو ؟
یہ ظرفِ بادہ کشی کے خلاف ہے، میں جب
بہک کے خوب، اچانک سوال کر دوں، تو؟
مجھے تو قول کوئی یاد ہی نہیں رہتا
میں شعر اپنی غزل سے نکال کر دوں، تو؟
نگیں میں سینے سے تجھ کو نکال کر دوں، تو ؟
یہ ظرفِ بادہ کشی کے خلاف ہے، میں جب
بہک کے خوب، اچانک سوال کر دوں، تو؟
مجھے تو قول کوئی یاد ہی نہیں رہتا
میں شعر اپنی غزل سے نکال کر دوں، تو؟
یہ میرے عِلم کے موتی، یہ میرے گھر کے نگیں
ترے جواب کو اِن سے نکال کر دوں، تو ؟
میں اُس گلی سے گزرتا ہوں روز ہی لیکن
بدل کے اپنی یہ عادت کمال کر دوں، تو ؟
ترے جواب کو اِن سے نکال کر دوں، تو ؟
میں اُس گلی سے گزرتا ہوں روز ہی لیکن
بدل کے اپنی یہ عادت کمال کر دوں، تو ؟
ترے خیال کی آوارہ رَو کو پکڑوں اور
میں اس کی چال کو مثلِ غزال کر دوں تو ؟
مری پسند سے تیری پسند مل جائے
میں تیری ضد کو کسی دن نڈھال کر دوں، تو !
تمھارا حسن ہماری غزل کا پرتَو ہے!
میں خود عروج کو اپنے زوال کر دوں، تو؟
میں اس کہانی میں بدلاؤ چاہتا ہوں ذرا
میں اس غلام کو باغی خیال کر دوں، تو؟
میں اس کی چال کو مثلِ غزال کر دوں تو ؟
مری پسند سے تیری پسند مل جائے
میں تیری ضد کو کسی دن نڈھال کر دوں، تو !
تمھارا حسن ہماری غزل کا پرتَو ہے!
میں خود عروج کو اپنے زوال کر دوں، تو؟
میں اس کہانی میں بدلاؤ چاہتا ہوں ذرا
میں اس غلام کو باغی خیال کر دوں، تو؟
یہ مان لے تُو مری روح، میری جان میں ہے
میں اپنے آپ سے تجھ کو نکال کر دوں، تو؟!
میں اپنے آپ سے تجھ کو نکال کر دوں، تو؟!
تجھے یہ غم ہے کہ تیرا کوئی حبیب نہیں
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!
تو میرے دل کو دکھانا حرام کہتا ہے
میں ایسے شغل کو تجھ پر حلال کر دوں، تو ؟!
میں ایسے شغل کو تجھ پر حلال کر دوں، تو ؟!
میں اپنے نام سے پہلے لگا کے نام ترا
جو ایک رشتہ نیا پھر بحال کر دوں، تو ؟
جو ایک رشتہ نیا پھر بحال کر دوں، تو ؟
دلا کے یاد تجھے واقعے پرانے کچھ
میں تیری یاد کی شاخیں نہال کر دوں، تو؟!
یہ تم نے خوب کہا ہے سنو میاں کاشف
بھُلا کے رشتوں کو سارے وبال کر دوں، تو؟!
سیّد کاشف
*******............********............********
شکریہمیں تیری یاد کی شاخیں نہال کر دوں، تو؟!
یہ تم نے خوب کہا ہے سنو میاں کاشف
بھُلا کے رشتوں کو سارے وبال کر دوں، تو؟!
سیّد کاشف
*******............********............********