میں چپ کو توڑ کے افشائے حال کر دوں، تو؟۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

تقریباََ ایک مہینے سے ایک مصرع بھی نہیں لکھ پایا تھا۔ لیکن یقین جانیئے کل شاید 2 گھنٹے میں ہی یہ غزل مکمل ہو گئی! یہی غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہاہوں ۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سےبطورِ خاص اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
*******............********............********
میں دل ہتھیلی پہ اپنی نکال کر دوں، تو؟
میں اس کے سامنے اپنا سوال کر دوں، تو ؟

یہ دنیا ختم تو ہونی ہے اس کا غم کیا ہو
مگر ہنسی کو تری لازوال کر دوں، تو ؟

میں اس کہانی میں خاموش ہوں، کبھی لیکن
میں چپ کو توڑ کے افشائے حال کر دوں، تو؟

تری خوشی پہ میں دنیا لٹا نہیں سکتا !
نگیں میں سینے سے تجھ کو نکال کر دوں، تو ؟

یہ ظرفِ بادہ کشی کے خلاف ہے، میں جب
بہک کے خوب، اچانک سوال کر دوں، تو؟

مجھے تو قول کوئی یاد ہی نہیں رہتا
میں شعر اپنی غزل سے نکال کر دوں، تو؟

یہ میرے عِلم کے موتی، یہ میرے گھر کے نگیں
ترے جواب کو اِن سے نکال کر دوں، تو ؟

میں اُس گلی سے گزرتا ہوں روز ہی لیکن
بدل کے اپنی یہ عادت کمال کر دوں، تو ؟

ترے خیال کی آوارہ رَو کو پکڑوں اور
میں اس کی چال کو مثلِ غزال کر دوں تو ؟

مری پسند سے تیری پسند مل جائے
میں تیری ضد کو کسی دن نڈھال کر دوں، تو !

تمھارا حسن ہماری غزل کا پرتَو ہے!
میں خود عروج کو اپنے زوال کر دوں، تو؟:p


میں اس کہانی میں بدلاؤ چاہتا ہوں ذرا
میں اس غلام کو باغی خیال کر دوں، تو؟

یہ مان لے تُو مری روح، میری جان میں ہے
میں اپنے آپ سے تجھ کو نکال کر دوں، تو؟!

تجھے یہ غم ہے کہ تیرا کوئی حبیب نہیں
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!

تو میرے دل کو دکھانا حرام کہتا ہے
میں ایسے شغل کو تجھ پر حلال کر دوں، تو ؟!

میں اپنے نام سے پہلے لگا کے نام ترا
جو ایک رشتہ نیا پھر بحال کر دوں، تو ؟

دلا کے یاد تجھے واقعے پرانے کچھ
میں تیری یاد کی شاخیں نہال کر دوں، تو؟!

یہ تم نے خوب کہا ہے سنو میاں کاشف
بھُلا کے رشتوں کو سارے وبال کر دوں، تو؟!

سیّد کاشف
*******............********............********
شکریہ
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب۔ اس غزل کا خیال، لہجہ اور انداز آپ کی سابقہ غزلوں سے انتہائی مختلف ہے۔ نہایت عمدہ ہے۔

تجھے یہ غم ہے کہ تیرا کوئی حبیب نہیں
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!
"شجر"؟ شاید شہر کہنا چاہ رہے ہیں۔
آخری شعر بدل دیں۔
 
بہت خوب۔ اس غزل کا خیال، لہجہ اور انداز آپ کی سابقہ غزلوں سے انتہائی مختلف ہے۔ نہایت عمدہ ہے۔

تجھے یہ غم ہے کہ تیرا کوئی حبیب نہیں
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!

"شجر"؟ شاید شہر کہنا چاہ رہے ہیں۔
آخری شعر بدل دیں۔
شکریہ۔
میں اس غلطی سے واقف ہوں۔
اساتذہ سے اور مشورہ ہو جائے تو شاید کچھ اور بہتر شکل معلوم ہو سکے۔
 

الف عین

لائبریرین
؟چہتا ہے"
کئی اشعار میں ابلاغ درست نہیں ہو رہا۔ شاید زیادہ سے زیادہ قوافی استعمال کرنے کے چکر میں!!
میں دل ہتھیلی پہ اپنی نکال کر دوں، تو؟
میں اس کے سامنے اپنا سوال کر دوں، تو ؟

ہتھیلی پر دل نکالنے سے اس کے سامنے سوال کرنے کا کیا تعلق ہے؟
یہ دنیا ختم تو ہونی ہے اس کا غم کیا ہو
مگر ہنسی کو تری لازوال کر دوں، تو ؟
یہاں تو! کی معنویت کیا ہے؟


میں اس کہانی میں خاموش ہوں، کبھی لیکن
میں چپ کو توڑ کے افشائے حال کر دوں، تو؟
کبھی لیکن۔۔ کی جگہ کچھ لفظ بدل کر دیکھو۔
تری خوشی پہ میں دنیا لٹا نہیں سکتا !
نگیں میں سینے سے تجھ کو نکال کر دوں، تو ؟
نگیں؟


یہ ظرفِ بادہ کشی کے خلاف ہے، میں جب
بہک کے خوب، اچانک سوال کر دوں، تو؟
دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے

مجھے تو قول کوئی یاد ہی نہیں رہتا
میں شعر اپنی غزل سے نکال کر دوں، تو؟

یہ میرے عِلم کے موتی، یہ میرے گھر کے نگیں
ترے جواب کو اِن سے نکال کر دوں، تو ؟
دوسرے مصرع کا مفہوم؟

میں اُس گلی سے گزرتا ہوں روز ہی لیکن
بدل کے اپنی یہ عادت کمال کر دوں، تو ؟

کیا کمال کر دوں؟​

ترے خیال کی آوارہ رَو کو پکڑوں اور
میں اس کی چال کو مثلِ غزال کر دوں تو ؟
بہت خوب، لیکن کیا محبوب کی چال اس کے بغیر پسند نہیں!!!


مری پسند سے تیری پسند مل جائے
میں تیری ضد کو کسی دن نڈھال کر دوں، تو !
ضد کو نڈھال کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔


تمھارا حسن ہماری غزل کا پرتَو ہے!
میں خود عروج کو اپنے زوال کر دوں، تو؟:p


میں اس کہانی میں بدلاؤ چاہتا ہوں ذرا
میں اس غلام کو باغی خیال کر دوں، تو؟
کس غلام کو؟
یہ مان لے تُو مری روح، میری جان میں ہے
میں اپنے آپ سے تجھ کو نکال کر دوں، تو؟!
یہ بھی مجہول سا خیال ہے۔
تجھے یہ غم ہے کہ تیرا کوئی حبیب نہیں
میں اس شجر کو ترا ہم خیال کر دوں تو؟!
شجر کو ہی کیوں؟
تو میرے دل کو دکھانا حرام کہتا ہے
میں ایسے شغل کو تجھ پر حلال کر دوں، تو ؟!
خوب، درست

میں اپنے نام سے پہلے لگا کے نام ترا
جو ایک رشتہ نیا پھر بحال کر دوں، تو ؟
بحال کرنا مطلب Restore کرنا، پھر نیا کیسے ہوا رشتہ؟
دلا کے یاد تجھے واقعے پرانے کچھ
میں تیری یاد کی شاخیں نہال کر دوں، تو؟!
شاخوں کو نہال کرنا، یعنی پیڑ بنا دینا؟

یہ تم نے خوب کہا ہے سنو میاں کاشف
بھُلا کے رشتوں کو سارے وبال کر دوں، تو؟!
یہاں وبال کا قافیہ سمجھ میں نہیں آیا
 
Top