میں ٹھہری ایک موم کی عورت از عروہ

نور وجدان

لائبریرین
میں ٹھہری موم کی عورت

جو سورج کی تمازت سے بھی
خود کو دور رکھتی تھی

میں ڈرتی تھی پگھلنے سے
بکھرنے سے بھی ڈرتی تھی

کسی کے پاوں سے لگ کر
کسی انجان چوکھٹ پر
میں رونے سے بھی ڈرتی تھی
میں رہنے سے بھی ڈرتی تھی

......مگر.......
پھر یوں یوا اک دن
کسی کی چار باتوں پر

نزاکت اپنی کھو بیٹھی
قفس بےباب تھا لیکن
میں اس میں قید ہو بیٹھی

مرے صیاد نے مجھ پر
بہت احسان کر ڈالا

مری روشن ان آنکھوں کو
بہت سنسان کر ڈالا
مری ہستی کو تنہائی کی
ڈوری میں پرو ڈالا

مجھے شمع بنا ڈالا
بنا کر پھر جلا ڈالا

مرا اب کام جلنا ہے
پگھلنا ہے بکھرنا ہے

میں ٹھہری موم کی عورت

......ہمیشہ.....
مجھ کو جلنا ہے

سخنور...عروہ شاہنواز خان

عروہ خان یہاں آپ کی شاعری پوسٹ کردی ہے. آپ یہاں پر پوسٹ کرسکتی ہو. اور کچھ سمجھ نہیں آئے تو ہم سب محفلین آپ کو مل کے بتائیں گے.
 

عباد اللہ

محفلین
ماشااللہ باقی تو اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں بس نظم اور غزل کے اشعار کو الگ الگ کرنے کی ضرورت ہے:)
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
مفاعیلن کے وزن پر اچھی نظم کہی ہے کچھ ترامیم تجویز کر رہا ہوں

میں ٹھہری موم کی مورت
میں سورج کی تمازت سے
ہمیشہ دور رہتی تھی
میں ڈرتی تھی
کسی انجان چوکھٹ پر
کسی کے پاؤں میں آ کر
پگھلنے سے
بکھرنے سے
میں رونے سے بھی ڈرتی تھی
مگر پھر یوں ہوا اک دن
کسی کی چار باتوں میں
میں
آکر دل گنوا بیٹھی
قفس بے باب تھا لیکن
میں اس میں قید ہو بیٹھی
تو پھر صیاد نے مجھ پر
یہ اک احسان کر ڈالا
نگاہِ ناز کو میری
بہت ویران کر ڈالا
مجھے ڈوری میں تن تنہا
پرو ڈالا
مجھے شمع بنا ڈالا
بنا کر پھر جلا ڈالا
ہمیشہ اب مجھے جلتے ہی رہنا ہے
پگھلنا ہے بکھرنا ہے
میں ٹھہری موم کی مورت
ہمیشہ مجھ کو جلنا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آزاد نظم میں بھرتی کے الفاظ سے بچا جا سکتا ہے، اسی لئے مجھے آزاد نظم پسند ہے۔ اور ابن رضا نے درست ہی مشورہ دیا ہے۔
’’کسی کی چار باتوں میں
میں
آکر دل گنوا بیٹھی
قفس بے باب تھا لیکن‘‘
باتوں کا چار ہونا کیا ضروری ہے؟ یہاں میں کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی، اس کو درست سرخ کیا ہے ابن رضا نے (رضا نے نہیں، ان کے بیٹے نے)
’بے باب‘ بھی پسند نہیں آیا۔ باب عربی ہے۔
قفس بے در ہی تھا لیکن
کیا جا سکتا ہے۔
 
Top