میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا...اجمل خٹک کشر

جنرل خادم حسین راجہ نے مجھے بتایا کہ جب وہ ڈھاکا میں فوج کی کمان جنرل نیازی کے سپرد کر چکے، تو جنرل نیازی نے پوچھا ”اپنی داشتاؤں کا چارج کب دو گے؟“ اس جملے کے راوی 1971ء میں پاک فوج کے شعبہٴ ابلاغ کے سربراہ اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دو سال تک بھارت میں اسیر رہنے والے بریگیڈیئر صدیق سالک ہیں، جو ان کی خودنوشت ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے صفحہ 100 پر رقم ہے… دو روز قبل عالمِ خیال میں بنگالی مسلمانوں کی یاد آتے ہوئے فیض صاحب کی نظم ”ڈھاکہ سے واپسی پر“ نے من کی دنیا کو بہت رلایا۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گِلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
یہ ناچیز سوچتا رہا کہ 1971میں جنگ کے فیصلے کن موڑ پر جب مغربی پاکستان میں ہر شخص کو مشرقی پاکستان میں اپنی غیرت وناموس کی بازی ہار جانے کی فکر ووسوسے لاحق تھے ہمارے تازہ دم ”ٹائیگر نیازی“ اپنے پیش رو شریف النفس جنرل سے حسیناؤں کا حساب بے باق کرنے میں مشغول تھے،ہائے افسوس کہ پاکستانی عوام تو اپنے سپاہیوں پر نازاں ہیں لیکن نشہٴ اقتدار بھی کیا چیز ہے کہ چند جرنیل وطنِ پاک کو ایسا بدنام کر گئے ہیں کہ قرطاسِ تاریخ پر بکھری ان کی سیاہ کاریوں کو چھپاتے چھپاتے ہم اقوام عالم میں اپنا منہ چھپاتے رہ گئے ہیں، تاہم یہ مٹی اتنی زرخیز ضرورہے کہ اس کے باوجود یہ اپنی نمو آپ کر رہی ہے… ان دنوں معروضی صورت حال کو المیہ مشرقی پاکستان سے مشابہت دینا ایک فیشن بن گیا ہے۔ لیکن یہ احقر ان بقراطوں سے متفق نہیں جو موجودہ دگرگوں واقعات کو ملک ٹوٹنے کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ ان سے یہ مودبانہ سوال ہے کہ کیا اس وقت دستارِ سیاست سر پر سجانے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا لیڈر موجود ہے جو شیخ مجیب الرحمن کی طرح کُل 300 میں 160 یعنی بھٹو مرحوم سے دگنی نشستیں حاصل کر کے یہ دعویٰ کر سکے کہ ہاں وہی عوامی سیل رواں کا رہبر حقیقی ہے؟ 2025ء کے نقشے میں رنگ بھرنے کے آرزو مند تصوراتی عاشقانِ آزادی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کس صوبے میں علیحدگی کی ایسی متفقہ عوامی تحریک بپا ہے کہ جس کی مہار امریکہ بہادر پکڑ کر ان کے تشنہ خوابوں کو تعبیر دے سکے یا کونسی ایسی موٴثر تنظیم ہے جو خفیہ ہی سہی فکری آبیاری کرتے ہوئے ایسا واضح روڈ میپ رکھتی ہو کہ کس صوبے یا علاقے کو کیسے اور کن خطوط پر علیحدہ کرنا ہے !! نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل ہمارے بزرگ اور بلوچستان کے ستارے اور غوث بخش بزنجو مرحوم اور نواب اکبر بگٹی شہید، بلوچوں و ہمارے پیارے ہیں۔ انہوں نے کب ملک توڑنے کی بات کی!؟ کیا یہ امر قابل اعتبار نہیں کہ حضرت باچا خان کے پوتے جناب اسفند یار ولی خان اور خان شہید عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے محترم محمود خان اچکزئی قائداعظم کے پاکستان کے نقشے میں پختونخوا کا نام شامل کرنے کے متمنی رہے اور اب اس پر شاداں و نازاں ہیں!! ملک نہیں ٹوٹنے کا، البتہ عوام ٹوٹ رہے ہیں۔ آئیے ماضی کے رخِ سیاہ کا حال کے ”رخِ زیبا“ سے پھر موازنہ کرتے ہیں۔
بے باک قلم کار و ادیب صدیق سالک متذکرہ کتاب کے صفحہ 14 پر رقم طراز ہیں ”میں جب ڈھاکہ ائر پورٹ پہنچا، ایک فوجی جیپ میرے قریب آ کر رکی۔ حوالدار نے مجھے سمارٹ سا سیلوٹ کیا اور ایک بنگالی لڑکے کو بھبک دار لہجے میں حکم دیا، صاحب کا اٹیچی کیس جیپ میں رکھو، میں نے چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے، مگر حوالدار نے پرزور لہجے میں کہا ”سر، ان حرام زادوں کی عادت نہ بگاڑیے“ بنگالی لڑکا نفرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے چلا گیا… راستے میں جو عورتیں نظر آئیں ان کے پاس ستر پوشی کیلئے چند چیتھڑوں کے سوا کچھ نہ تھا، مردوں کی سیاہ جلد میں منڈھی ہوئی پسلیاں چلتی گاڑی سے بھی گنی جا سکتی تھیں۔ بچوں کی کمزور ٹانگوں کے اوپر ابھری ہوئی توندیں باہر کو امڈ رہی تھیں، بعض بچوں کے کمر کے گرد گندا سا دھاگا بندھا تھا جس سے ایک گھنٹی لٹک رہی تھی، یہ ان کا واحد کھلونا تھا“۔ ملک ٹوٹنے کا راگ الاپنے والے یہ اقتباس پڑھ کر فوراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج عوام کی یہی مفلوک الحالی ہی تو ہمارے استدلال کو تقویت دیتی ہے!! لیکن نہیں جناب نہیں!! آج کے سیاستدان شیخ مجیب کی طرح کوئی اور بنگلہ دیش نہیں ملک کو ایتھوپیا بنانا چاہتے ہیں۔ بنگالیوں نے اپنے سے مختلف زبانیں بولنے والے حکمران اشرافیہ کے ردعمل میں سب کچھ کیا جبکہ آج پاکستانی عوام اپنے ہی ہم زبانوں کے عملِ بد کا شکار ہیں۔ وہاں کے مظلوم کوسوں میل دور کے استحصالی عناصر سے شاکی تھے جبکہ یہاں ظالم و مظلوم ایک ہی گھر کے باسی ہیں۔اُدھر بنگالیوں کے مال کو مال غنیمت سمجھ کر اِدھر مغربی پاکستان لایا جا رہا تھا اور آج اِدھر پاکستانیوں کے مال کو مالِ مفت سمجھ کر اُدھر غیر ملکی بنکوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ وہاں قحط کا سامان کر کے حکمران جام پر جام انڈیلتے رہے اور یہاں سفاک ذخیرہ اندوزوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں سڑکوں پر گرنے والی انسانی لاشوں کو محض دیکھنے کے لئے بھی اختیار مند اپنے عیاش کدوں سے باہر نہیں آتے۔ وہاں فوجی حکمران مسائل کم کرنے کیلئے بنگالیوں کو کم اور یہاں کے زرپرست غریبی کم کرنے کیلئے غرباء کو کم کرنے کے کارخیر میں مصروف ہیں۔ مسئلہ وہاں بھی بالادست و زیردست کے درمیان تھا۔ معاملہ یہاں بھی بالادست و زیردست کا ہے۔ وہاں زمین کے ٹکڑے کر کے اپنا حصہ پانے کی سوچ تھی اور یہاں ٹکڑے کئے بغیر حقوق حاصل کرنے کی امید ہے چنانچہ جو سابق جرنیل، سیاستدان، سیاسی، مولوی، دانشور و صحافی ملک ٹوٹنے کے شوشے چھوڑ رہے ہیں، وہ مایوسی پھیلا کر درحقیقت ایک ایسے عوامی اتحاد کو روکنے میں لگے ہوئے ہیں جو خود ساختہ انتہا پسندی کا راستہ روک اور سفینہٴ زر پرستی لے ڈوب سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ عناصر پاکستانی عوام کو عراق، افغانستان، مصر، شام کی فکر میں مبتلا کر کے دراصل انہیں اپنے غم سے اس لئے بیگانہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسٹیٹس کو برقرار اور غاصبوں اور ان کے طفیلی عناصر کا کاروبار چلتا رہے۔ وقت کا المیہ یہ نہیں ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے سینے پر کوئی اور شیخ مجیب سینہ تانے کھڑا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو حقیقت برسوں قبل فیض صاحب سمجھا گئے تھے، وہ حقیقت ہم عوام آج تک سمجھ نہیں پائے۔ آپ نے کہا تھا…
اِک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اِک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے
 

یوسف-2

محفلین
صدیق سالک کی یاد میں
میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا
اور پھر خود بھی ڈوب گیا
میں اور ڈھاکہ
دونوں کتنے ملتے جلتے تھے
ہم دونوں کے ڈوبتے ہی
یاس کا سورج
جمہور کا لبادہ اوڑھے
کچھ اس شان سے ابھرا
کہ یکبارگی تو سب کچھ ہی ڈوب گیا
میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا
اور پھر خود بھی ڈوب گیا
(سانحہ بھاولپور پر احقر کی ایک تاثراتی نظم)
 

یوسف-2

محفلین
پاکستانی دو قومی نظریہ اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب سقوط ڈھاکہ عمل پزیر ہوا!
غلط بالکل غلط ۔ سقوط ڈھاکہ نے دو قومی نظریہ کو مزید ”تقویت“ دی۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو (بنگلہ دیشی مسلمان) مشرقی بنگال اور (بھارتی ہندو) مغربی بنگال آج تک الگ الگ نہ رہتے بلکہ سقوط ڈھاکہ کے 40 سال بعد تو ”ایک“ ہوچکے ہوتے۔ یہ دونوں آج بھی ”ایک زبان، ایک جغرافیہ، ایک کلچر“ ہونے کے باوجود دو علیحدہ علیحدہ ملک اس لئے ہیں کہ دونوں کا دین و مذہب جداجدا ہے۔
 

arifkarim

معطل
غلط بالکل غلط ۔ سقوط ڈھاکہ نے دو قومی نظریہ کو مزید ”تقویت“ دی۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو (بنگلہ دیشی مسلمان) مشرقی بنگال اور (بھارتی ہندو) مغربی بنگال آج تک الگ الگ نہ رہتے بلکہ سقوط ڈھاکہ کے 40 سال بعد تو ”ایک“ ہوچکے ہوتے۔ یہ دونوں آج بھی ”ایک زبان، ایک جغرافیہ، ایک کلچر“ ہونے کے باوجود دو علیحدہ علیحدہ ملک اس لئے ہیں کہ دونوں کا دین و مذہب جداجدا ہے۔
تو پھر جو بھارت میں آج تک کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں، انہیں کیا مسئلہ ہے؟ وہ کیوں ’’اسلامی‘‘ بنگلہ دیش یا پاکستا ن میں منتقل نہیں ہو جاتے؟ بھارتی جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو، غیر مذہبی اور اسیکولر ہونے کی وجہ سے وہاں ہر مذہب کو ریاست کی طرف سے برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کا پہلا صدر ایک مسلمان تھا۔بھارتی فلم انڈسٹری مسلمان ستاروں سے بھری پڑی ہے، اور بھارتی مسلمان اپنے بھارتی ہونے پر فخر محسوس کر تے ہیں!
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_in_India#Prominent_Muslims_in_India
 

یوسف-2

محفلین
تو پھر جو بھارت میں آج تک کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں، انہیں کیا مسئلہ ہے؟ وہ کیوں ’’اسلامی‘‘ بنگلہ دیش یا پاکستا ن میں منتقل نہیں ہو جاتے؟ بھارتی جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو، غیر مذہبی اور اسیکولر ہونے کی وجہ سے وہاں ہر مذہب کو ریاست کی طرف سے برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کا پہلا صدر ایک مسلمان تھا۔بھارتی فلم انڈسٹری مسلمان ستاروں سے بھری پڑی ہے، اور بھارتی مسلمان اپنے بھارتی ہونے پر فخر محسوس کر تے ہیں!
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_in_India#Prominent_Muslims_in_India
عارف بھائی آپ کیسی بے تکی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ جیسے سمجھدار انسان سے اس قسم کی غیر منطقی گفتگو کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ :)
بات ”دو قومی نظریہ“ کی ہورہی تھی۔ جس کی ”بنیاد“ پر پاکستان بنا تھا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ایک قوم ”ہندوستانی“ بستی ہے۔ جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا کہنا تھا کہ نہیں یہاں دو بڑی ”قومیں“ ہندو اور مسلم رہتی ہیں، جسے قیام پاکستان نے یہ ثابت کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد دونوں بنگال، مسلم بنگال اور ہندو بنگال کا 40 سال سے الگ الگ اپنا وجود برقرار رکھنا اس بات کا دوسرا بڑا ثبوت ہے کہ ”دو قومی نظریہ“ کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے۔
اب آپ اندرا گاندھی کی طرح ”میں نہ مانوں“ اور ”دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا“ لاکھ کہتے رہیں۔ اس سے ”حقیقت“ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی مجھے آپ سے ”دن“ کو دن منوانے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی ”نہ مانوں“ پر قائم رہئے۔ اور سدا خوش رہئے، اپنے خرچ پر :)
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی آپ کیسی بے تکی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ جیسے سمجھدار انسان سے اس قسم کی غیر منطقی گفتگو کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ :)
بات ”دو قومی نظریہ“ کی ہورہی تھی۔ جس کی ”بنیاد“ پر پاکستان بنا تھا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ایک قوم ”ہندوستانی“ بستی ہے۔ جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا کہنا تھا کہ نہیں یہاں دو بڑی ”قومیں“ ہندو اور مسلم رہتی ہیں، جسے قیام پاکستان نے یہ ثابت کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد دونوں بنگال، مسلم بنگال اور ہندو بنگال کا 40 سال سے الگ الگ اپنا وجود برقرار رکھنا اس بات کا دوسرا بڑا ثبوت ہے کہ ”دو قومی نظریہ“ کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے۔
اب آپ اندرا گاندھی کی طرح ”میں نہ مانوں“ اور ”دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا“ لاکھ کہتے رہیں۔ اس سے ”حقیقت“ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی مجھے آپ سے ”دن“ کو دن منوانے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی ”نہ مانوں“ پر قائم رہئے۔ اور سدا خوش رہئے، اپنے خرچ پر :)
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھمت، محض مذہب کی بنیاد پر مختلف قومیں نہیں ہو سکتے۔ آپ ثابت کر کے دکھائیں کہ بھارتی مسلمان، پاکستانی یا بنگلہ دیشی مسلمانوں سے کس طرح مختلف ہیں اور کسی ’’الگ‘‘ قوم کا حصہ ہیں؟ ایک قوم بننے کیلئے یکساں زبان، تہذیب، تمدن و ثقافت کا ہونا ضروری ہے۔ آج ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دور نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی کوئی دو الگ قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم ہیں جنکا مذہب کی بنیاد پر بٹورا کیا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک قوم بننے کیلئے یکساں زبان، تہذیب، تمدن و ثقافت کا ہونا ضروری ہے۔ آج ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دور نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی کوئی دو الگ قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم ہیں جنکا مذہب کی بنیاد پر بٹورا کیا گیا۔
پھر وہی فضول اور رٹی رٹائی بات، جس کا میں مفصل جواب ادھر دے چکا ہوں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/تعلیمی-تنزلی-آخر-کیوں؟.51471/#post-1096481
 

حسان خان

لائبریرین
ایک قوم بننے کیلئے یکساں زبان، تہذیب، تمدن و ثقافت کا ہونا ضروری ہے۔ آج ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دور نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی کوئی دو الگ قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم ہیں جنکا مذہب کی بنیاد پر بٹورا کیا گیا۔

تھوڑا مزید اضافہ کرتا چلوں:

جو قوم اس قسم کی زبان استعمال کرتی ہو، کیا آپ اسے اپنی ہی قوم سمجھیں گے؟ ایمانداری سے جواب دیجیے گا۔ (مذہب سے مجھے چنداں سروکار نہیں، اس لیے اپنی بحث کا محور زبان و ادب کو ہی بنا رہا ہوں)۔

نظم:
ہِمادری تُنگ شرنگ سے پربُدھ شدھ بھارتی
سوئم پربھا سَمُجّولا سوتنترتا پکارتی
'امرتیہ ویر پتر ہو، درِڑھ پرتگیہ سوچ لو،
پرَشَست پُنیہ پنتھ ہے، بڑھے چلو، بڑھے چلو!"

اسنکھیہ کیرتی رشمیاں وِکیرن دِویہ داہ سی
سپوت ماتر بھومی کے رکو نہ شُور ساہسی
اراتی سَینیہ سندھو میں، سُواڑواگنی سے جلو،
پروِیر ہو جئی بنو - بڑھے چلو، بڑھے چلو!

نثر:
شِری یُت بابو جئے شنکر 'پرساد' جی ہندی کے سوَنامدھنیہ سُکوی اور یشودھن سُلیکھک ہیں۔ ساہتیہ سنسار میں انکا شبھ نام سوَتَہ دیدِپیہ مان ہو رہا ہے۔ انکی سروتومکھی پرتبھا اور سُدھ مکھی لیکھنی کا پرساد پا کر ہندی وشیش گوروانوِت ہوئی ہے۔
 

arifkarim

معطل
پھر وہی فضول اور رٹی رٹائی بات، جس کا میں مفصل جواب ادھر دے چکا ہوں۔

یہ میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں۔ اور اسکا جواب بھی دے دیا تھا۔ بات صرف یہ ہے کہ آپ ایک زبان ، تہذیب و تمدن کے ہوتے ہوئے محض مذہب کی بنیاد پر الگ قوم نہیں بنا سکتے۔ تحریک پاکستان کی مخالفت میں خود مشہور مایہ ناز بھارتی مسلمان اور اسکے پہلے صدر جیسے ابوالکلام آزاد خود شامل تھے۔ انہوں نے پاکستان کے بارہ میں جو 70 سال پہلے کہا تھا وہ 100 فیصد پورا ہوا:
 

حسان خان

لائبریرین
نظم:
ہِمادری تُنگ شرنگ سے پربُدھ شدھ بھارتی
سوئم پربھا سَمُجّولا سوتنترتا پکارتی
'امرتیہ ویر پتر ہو، درِڑھ پرتگیہ سوچ لو،
پرَشَست پُنیہ پنتھ ہے، بڑھے چلو، بڑھے چلو!"

اسنکھیہ کیرتی رشمیاں وِکیرن دِویہ داہ سی
سپوت ماتر بھومی کے رکو نہ شُور ساہسی
اراتی سَینیہ سندھو میں، سُواڑواگنی سے جلو،
پروِیر ہو جئی بنو - بڑھے چلو، بڑھے چلو!

نثر:
شِری یُت بابو جئے شنکر 'پرساد' جی ہندی کے سوَنامدھنیہ سُکوی اور یشودھن سُلیکھک ہیں۔ ساہتیہ سنسار میں انکا شبھ نام سوَتَہ دیدِپیہ مان ہو رہا ہے۔ انکی سروتومکھی پرتبھا اور سُدھ مکھی لیکھنی کا پرساد پا کر ہندی وشیش گوروانوِت ہوئی ہے۔

اب ان کے بالمقابل ترکی زبان کے یہ اشعار رکھیے، اور پھر کہیے کہ اجداد کے مذہب سے تمدن اور تہذیب میں فرق نہیں پڑتا۔

خسته جانم نرگسِ بیمارڭه اولسون فدا
کوته عمرم طرهٔ طرارڭه اولسون فدا
جانم ای مه شیوهٔ رفتارڭه اولسون فدا
رنگِ پژمرده‌م رخِ گلنارڭه اولسون فدا

دوست بی‌پروا، فلک بی‌رحم، دوران بی‌سکون
درد چوخ، همدرد یوخ، دشمن قوی، طالع زبون
سایهٔ امید زائل، آفتابِ شوق گرم
رتبهٔ ادبار عالی، پایهٔ تدبیر دون
عقل دون همت، صدای طعنه یئر-یئردن بلند
بخت کم شفقت، بلای عشق گون-گوندن فزون
من غریبِ ملک و راهِ وصل پرتشویش و مکر
من حریفِ ساده لوح و دهر پرنقش و فسون
هر سهی قد جلوه‌سی، بیر سیلِ طوفانِ بلا،
هرهلال ابرو قاشی، بیر سرخطِ مشقِ جنون
یئلده برگِ لاله تک ، تمکینِ دانش بی‌ثبات
سودا عکسِ سرو تک ، تاثیرِ دولت واژگون
سرحدِ مطلوبه پرمحنت طریقِ امتحان
منزلِ مقصوده پرآسیب راهِ آزمون
شاهدِ مقصد، نوای چنگ تک پرده نشین
ساغرِ عشرت، حبابِ صافِ صهبا تک نگون
تفرقه حاصل، طریقِ ملکِ جمیعت مخوف،
آه، بیلمم نئیله‌ییم، یوخ بیر موافق رهنمون.
چهرهٔ زردین فضولی‌نین توتوبدور اشکِ آل
گؤر اونا نه رنگلر چکمیش سپهرِ نیلگون
 

arifkarim

معطل
تھوڑا مزید اضافہ کرتا چلوں:
جو قوم اس قسم کی زبان استعمال کرتی ہو، کیا آپ اسے اپنی ہی قوم سمجھیں گے؟ ایمانداری سے جواب دیجیے گا۔ (مذہب سے مجھے چنداں سروکار نہیں، اس لیے اپنی بحث کا محور زبان و ادب کو ہی بنا رہا ہوں)۔
جی بالکل۔ بھارتی ہندؤں کی اپنی الگ ثقافت ہے۔ سکھوں کی الگ ہے۔ عیسائیوں، بدھمتوں، مسلمانوں کی الگ الگ ہیں۔ لیکن تہذیبی طور پر ہم اسی برصغیر کا کئی سو سال تک ایک حصہ رہے ہیں۔ جب تک مسلمان جنگجو، لٹیرے اور جہادی ’’بادشاہ‘‘ بھارت پر مسلسل یلغار کرکے یہاں مسلمان حکومت بناتے رہے، اسوقت تک بھارتی مسلمانوں کو الگ تھلگ ملک بنانے کا خیال نہیں آیا۔ پھر جب انگریز کے انخلاء کے دوران یہ امرسامنے آیا کہ جمہوریت کی بدولت ہندو مسلمانوں سے زیادہ آبادی کی وجہ سے اسلامی ثقافت کیلئے مسئلہ بن سکتے ہیں تو اس دو قومی تحریک کا آغاذ کیا گیا۔ الغرض بھارتی مسلمانوں کی ایک پارٹی کو یہ گوارہ نہ تھا کہ وہ ہندو اکثریت کے زیر سایہ آجائیں گو کہ خود اقلیتی مسلمانوں نے کئی صدیاں اکثریت ہندو ؤں پر کئی سو سال تک محض ڈنڈے کے زور پر حکومت کی! یہیں محفل پر ابن سعید جیسے کئی بھارتی مسلمان موجود ہیں جو پاکستانی نہ ہونے کے باوجود محض اردو زبان ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمان ثقافت کا حصہ ہیں۔ وگرنہ تو بھارتی مسلمان بلوچستان سے لیکر بنگال تک مختلف بولیوں اور زبانوں کیساتھ اپنے اپنے منفرد ثقافت کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ اور مشرقی پاکستان میں سب سے پہلا شور بھی تب پڑا تھا جب قائد اعظم نے جبراً پورے پاکستان کی قومی زبان کو اردو کیا تھا جو کہ حقیقتاً سوائے برصغیر کے چنداں علاقوں کے کہیں بھی بولی نہیں جاتی تھی!
 

arifkarim

معطل
اب ان کے بالمقابل ترکی زبان کے یہ اشعار رکھیے، اور پھر کہیے کہ اجداد کے مذہب سے تمدن اور تہذیب میں فرق نہیں پڑتا۔

خسته جانم نرگسِ بیمارڭه اولسون فدا
کوته عمرم طرهٔ طرارڭه اولسون فدا
جانم ای مه شیوهٔ رفتارڭه اولسون فدا
رنگِ پژمرده‌م رخِ گلنارڭه اولسون فدا

دوست بی‌پروا، فلک بی‌رحم، دوران بی‌سکون
درد چوخ، همدرد یوخ، دشمن قوی، طالع زبون
سایهٔ امید زائل، آفتابِ شوق گرم
رتبهٔ ادبار عالی، پایهٔ تدبیر دون
عقل دون همت، صدای طعنه یئر-یئردن بلند
بخت کم شفقت، بلای عشق گون-گوندن فزون
من غریبِ ملک و راهِ وصل پرتشویش و مکر
من حریفِ ساده لوح و دهر پرنقش و فسون
هر سهی قد جلوه‌سی، بیر سیلِ طوفانِ بلا،
هرهلال ابرو قاشی، بیر سرخطِ مشقِ جنون
یئلده برگِ لاله تک ، تمکینِ دانش بی‌ثبات
سودا عکسِ سرو تک ، تاثیرِ دولت واژگون
سرحدِ مطلوبه پرمحنت طریقِ امتحان
منزلِ مقصوده پرآسیب راهِ آزمون
شاهدِ مقصد، نوای چنگ تک پرده نشین
ساغرِ عشرت، حبابِ صافِ صهبا تک نگون
تفرقه حاصل، طریقِ ملکِ جمیعت مخوف،
آه، بیلمم نئیله‌ییم، یوخ بیر موافق رهنمون.
چهرهٔ زردین فضولی‌نین توتوبدور اشکِ آل
گؤر اونا نه رنگلر چکمیش سپهرِ نیلگون
خود برصغیر میں مختلف مسلمان کمیونیٹیز کے باعث کسی اکلوتی مسلمان قومیت کی بات کر نا بیکار ہے۔ جب مشرقی پاکستان میں جبراً اردو سرکاری زبان رائج کی گئی تو اسکا نتیجہ ہمنے بنگالی زبان تحریک کی صورت میں دیکھا اور ہم اپنی دانستہ مسلمان قومیت میں یہ بھول گئے کہ بھارتی مسلمانوں کی ثقافتیں جڑیں مختلف ہیں:
While the use of Urdu grew common with Muslims in northern India, the Muslims of Bengal (a province in the eastern part of British Indian sub-continent) primarily used the Bengali language. Bengali is an Eastern Indo-Aryan language that arose from the eastern Middle Indic languages around 1000 CE[6] and developed considerably during the Bengal Renaissance. As early as the late 19th century, social activists such as the Muslim feminist Roquia Sakhawat Hussain were choosing to write in Bengali to reach out to the people and develop it as a modern literary language. Supporters of Bengali opposed Urdu even before the partition of India, when delegates from Bengal rejected the idea of making Urdu the lingua franca of Muslim India in the 1937 Lucknow session of the Muslim League.
 

حسان خان

لائبریرین
لیکن تہذیبی طور پر ہم اسی برصغیر کا کئی سو سال تک ایک حصہ رہے ہیں۔

یونانی، آرمینی اور ترک بھی ایک ہی خطے میں سات صدیوں تک ساتھ رہے۔ اس سے کیا وہ یک تمدنی قوم بن گئے؟

جی بالکل۔ بھارتی ہندؤں کی اپنی الگ ثقافت ہے۔ سکھوں کی الگ ہے۔ عیسائیوں، بدھمتوں، مسلمانوں کی الگ الگ ہیں۔

ثقافتی شناخت نہیں، الگ الگ تمدنی شناخت۔ ہندوؤں اور سکھوں کی تمدنی شناخت ایک ہی ہے۔ اسی طرح پاکستانیوں، ایرانیوں، ترکوں، تاجکوں کی تمدنی شناخت ایک ہی ہے، ہاں ثقافتی شناخت میں فرق ہے۔ اسے ایک اور مثال سے واضح کرتا ہوں۔ جرمنوں اور فرانسیسیوں کی تمدنی شناخت ایک ہے، مگر ان دونوں کی علاقائی ثقافتی شناخت جدا۔
جب تمدنی شناخت مختلف ہے، تو کانگریس کے اس دعوے کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں صرف اور صرف مذہب کا فرق ہے؟ ارے مذہب کیا چیز ہے؟ محض چند عقائد کی پوٹلی جسے کبھی بھی کچرا دانی کی نذر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا مذہب کو منہا کر کے میں تمدنی و ثقافتی لحاظ سے بھارتی ہو گیا؟ قطعی نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بھارتی مسلمانوں کی ثقافتیں جڑیں مختلف ہیں:
تمدن (civilization) اور ثقافت (culture) دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ انہیں مت ملائیے۔
بطور مہاجر میری ثقافتی شناخت پنجابی مسلمان سے الگ ہے، بے شک الگ ہے۔ لیکن کیا تمدنی لحاظ سے بھی ہم دونوں الگ ہیں؟ کیا پنجابی کی کلاسیکی زبان فارسی نہیں ہے؟ کیا میں تمدنی لحاظ سے ایک ترک سے جدا ہوں؟
 

حسان خان

لائبریرین
خود برصغیر میں مختلف مسلمان کمیونیٹیز کے باعث کسی اکلوتی مسلمان قومیت کی بات کر نا بیکار ہے۔

سرکار قبل از ۴۷ کے ہندوستان میں سماجی تفاوت کا بنیادی عنصر لوگوں کا مذہب ہی رہا تھا۔ ایسے میں مذہب کی بنیاد پر جداگانہ قومیت کا دعویٰ اور اس بنیاد پر ریاست کی تشکیل ہندوستان کے سماجی حقائق کا منطقی نتیجہ تھا۔ آپ قبل از ۴۷ کے ہندوستان کے حقائق کو ۴۷ کے بعد کے پاکستان پر یا ہندوستان کے باہر کے مسلمانوں پر لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مغالطہ ہے۔
 

arifkarim

معطل
ثقافتی شناخت نہیں، الگ الگ تمدنی شناخت۔ ہندوؤں اور سکھوں کی تمدنی شناخت ایک ہی ہے۔ اسی طرح پاکستانیوں، ایرانیوں، ترکوں، تاجکوں کی تمدنی شناخت ایک ہی ہے، ہاں ثقافتی شناخت میں فرق ہے۔
آپ بار بار مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو آپس میں ملا رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کا دعویٰ یہ تھا کہ تمام بھارتی مسلمان ایک الگ قوم ہیں جو کہ بعد میں بالکل غلط ثابت ہوگیا جب سقوط ڈھاکہ عمل میں آیا، جب کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کیساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا، جب بعض بلوچ، پشتون اور دیگر گروپ آج تک پاکستان سے علیحدگی کیلئے کوشاں ہیں۔ نیز آج تک بھارت میں ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کی موجود ہے جنکو تمام شہری اور قومی حقوق حاصل ہیں۔ جہاں کسی ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی کو محض مذہب کی بنیاد پر الگ الگ حقوق و فرائض نہیں سونپے جاتے!
http://en.wikipedia.org/wiki/Two_nation_theory#Post-partition_debate
 
Top