میں نہ مانوں

ساجد

محفلین
دین محمد کی بدقسمتی کہ وہ جنوبی وزیرستان کے علاقےداندہ درپاخیل میں ایک ایسے گھر کا ہمسایہ تھا کہ جس میں قریبی افغانستان میں امریکیوں سے بر سر پیکار لوگ رہتےتھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ حقانی گروپ سے تعلق رکھتے تھے جو افغانستان مین امریکیوں سے نبرد آزما ہیں۔
8 ستمبر 2010
سی آئی اے کے ڈرون نے علاقے پر پرواز کی اور میزائلوں کی بارش کر کے اس گھر کو نیست و نابود کر دیا۔ چھ لوگ مارے گئے۔ لیکن ایک میزائل کا نشانہ خطا ہو گیا اور دین محمد کا گھر اس کی زد میں آ گیا۔ وۃ خود تو زندہ بچ گیا لیکن اس کا بیٹا ، دو بیٹیاں اور اس کا بھتیجا سبھی جاں بحق ہو گئے۔ اس کا سب سے بڑا بیٹا وزیرستان ملٹری کیڈٹ کالج کا طالب علم تھا۔اور باقی تینوں مّصوم بچے ابھی سکول کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔۔۔۔ اگرچہ
بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے محققین نے اس حملے اور قتل کی تفصیل کی تصدیق کر دی لیکن امریکہ مسلسل انکاری ہے کہ اس کے ڈرون حملوں سے پاکستان میں بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سات میں سے ایک ڈرون حملے میں معصوم بچے مارے جا رہے ہیں۔ اور آٹھ سال سے جاری ان ڈرون حملوں میں بچوں کی اموات تواتر سے ہو رہی ہیں۔ بیورو نے 2010 تک 168 معصوم بچوں کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی۔ مارے جانے والے بچوں کی سترہ سال سے کم ہوتی ہے۔
یونیسف بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے ، " ایک بچے کی موت بھی خواہ ڈرون میزائل سے ہو یا خود کش حملے میں نا قابل قبول ہے"۔
مکمل مضمون یہاں موجود ہے۔

اسے بھی دیکھئیے۔
 
Top