انصار عباسی کا کہنا یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کو کیا مجاز ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مختلف مسالک، فرقوں وغیرہ میں بانٹتی پھرے؟ تحریک پاکستان میں تو سنی، بریلوی، شیعہ، قادیانی، عیسائی، ہندو وغیرہ سب شریک تھے اور پہلی کابینہ میں بھی تمام اقلیتوں کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ بعد میں مُلا کے اسلام نے جو دنگل مچایا ہے، یہی اس فرقہ ورانہ فسادات کی جڑ ہے، نہ کہ تعلیم اور روزگار۔ 1953 میں کونسا کوئی تعلیم کی کمی تھی جو لاہور میں مارشل لاء محض مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر حکومت کو فسادات کے بعد لگانا پڑا؟!انصار عباسی نے اچھا تحریر کیا ہے ۔ میرے خیال ہے کہ ریاست سب سے پہلے لوگوں کو با مقصد تعلیم اور روزگار ہی فراہم کر دے تو ان دہشت گردوں تنظیموں کی افرادی کمک بند ہو سکتی ہے۔
1953 کے فسادات جو کہ مغربی پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کے سب سے پہلے تھے کے بعد مارشل لاء نافذ کرنے والوں نے ان فرقہ وارانہ اور شدت پسند گروہوں کے سرغنوں کے خلاف پہلے سزائے موت اور بعد میں عمر قید کی سزا بھی سنائی۔ لیکن چونکہ یہاں کبھی قانون کی پاسداری ہی نہیں ہوئی یوں مولانا مودودی جیسے لوگوں کو ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ اگر اسوقت ان کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دے دی جاتی تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ نیز دیگر اس قسم کے گروہوں جیسے لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، تحریک طالبان پاکستان وغیرہ کو مستقل میں مذہبی بنیادوں پر فسادات کرنے کا موقع نہ ملتا!فرقہ وارانہ تشدد کی بنیاد نفرت ہے۔۔۔ انسان کی انسان سے نفرت۔۔۔ ۔چنانچہ پابندی نفرتوں کے سوداگروں پر لگانی چاہئیے ۔ جو لوگ معاشرے میں شخصیات کے حوالے سے نفرت پھیلا رہے ہیں ان پر تو کوئی پابندی نہیں، تو پھر تشدد کیسے ختم ہوسکتا ہے۔
یار یوسف ٹو نے بھی اسی نام سے تھریڈ کھولا ہے چونکہ اس نے پہلے کھولا ہے اس وجہ سے اس کو بند کرکے اس کے مراسلے بھی اسی میں چسپاں یا منتقل کردیں شکریہانصار عباسی نے اچھا تحریر کیا ہے ۔ میرے خیال ہے کہ ریاست سب سے پہلے لوگوں کو با مقصد تعلیم اور روزگار ہی فراہم کر دے تو ان دہشت گردوں تنظیموں کی افرادی کمک بند ہو سکتی ہے۔