میں عباس ٹاؤن گیا ‘ میں نے دیکھا

صرف علی

محفلین
میں عباس ٹاؤن گیا ‘ میں نے دیکھا
سعید پرویز
6 مارچ 2013، بدھ کا دن،عباس ٹاؤن میں شہید ہونے والوں کا آج سوئم تھا۔ میں ساڑھے دس بجے صبح گھر سے نکلا، گیارہ بجے عباس ٹاؤن کی کھنڈر عمارتیں میرے سامنے تھیں۔ اقراء سٹی اور رابعہ فلاور آمنے سامنے واقع ہیں، دو بلڈنگیں چار چار منزلہ ہیں،گراؤنڈ فلور پر دکانیں ہیں، ان دونوں بلڈنگوں کے اپنے اپنے کمپاؤنڈ ہیں، جن میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے فلیٹ بنے ہوئے ہیں، جن میں ہزاروں لوگ رہ رہے ہیں، ان دونوں بلڈنگوں کے درمیان تقریباً60 فٹ کا فاصلہ ہے اور یہ فاصلہ مصروف بازار ہے، جس میں صرف ان دو بلڈنگوںمیں چالیس یا پچاس دکانیں ہیں، روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء ان دکانوں پر دستیاب تھیں، ان دکانوں کے علاوہ پتھارے دار، ٹھیلے والے،آلو کے چپس بنانے والے جن کے گرد معصوم بچے ہر وقت چپس خریدتے نظر آتے تھے۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع عباس ٹاؤن میں داخل ہونے کے لیے اقراء سٹی اور رابعہ فلاور کے درمیان موجود بازار ہی بڑا راستہ ہے، ہر قسم کا ٹریفک اسی بازار سے عباس ٹاؤن میں داخل ہوتا ہے اور پھر یہ راستہ آگے تک چلا جاتا ہے، اسی راستے پر عباس ٹاؤن کا امام باڑہ ہے اور ایک فرلانگ آگے چلیں تو عثمانیہ مسجد آجاتی ہے۔ چند دن پہلے تک یہ راستہ ایک پرہجوم بازار ہوتا تھا، جہاں بقول شخصے کھوے سے کھوا چھلتا تھا، مگر آج اس بازار میں چار چار منزلہ آمنے سامنے جلی ہوئی،تباہ حال عمارتیں کھنڈر کی صورت ’’بظاہر‘‘ کھڑی ہیں۔ گراؤنڈ فلور کی تمام دکانوں کے شٹر پتہ نہیں کیا ہوئے اوردکانیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر جگہ جگہ فلاحی تنظیموں کے لوگ کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ مقامی لوگوں پر مشتمل یہ تنظیمیں متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن امداد پہنچارہی ہیں۔ اب میں وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں بارود سے لدی گاڑی کھڑی کی گئی تھی۔ یہ اقراء سٹی کے ساتھ جہاں بجلی کے کھمبوں پر دو PMT نصب تھیں، عین ان کے نیچے بارود بھری گاڑی کھڑی کی گئی تھی اب نہ یہاں گاڑی ہے نہ بارود، بس ایک گڑھا ہے، چار فٹ گہرا اور آٹھ فٹ چوڑا بننے والا گڑھا۔ اب ملبہ ڈال کر بھردیا گیا ہے، مگر اب بھی دھماکے والی جگہ دیکھی جاسکتی تھی۔ تین دن اور تین راتیں گزر جانے کے بعد بھی انسانی خون کی بو جائے حادثے پر موجود تھی۔ تباہ وبرباد راستے پر عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے جگہ جگہ جمع تھے، جس نے جو دیکھا، وہ سنا رہا تھا۔ عورتیں جھولیاں پھیلا پھیلا کر ظالموں اور حکمرانوں کو بددعائیں دے رہی تھیں کہ اچانک لبیک یا حسین کی آوازیں آنے لگیں، اب سب کی نظریں مین ابوالحسن اصفہانی روڈ کی طرف تھیں۔ میں بھی دیکھ رہا تھا، ایک شیعہ عالم روایتی کالاجبہ، سیاہ امامہ پہنے آرہا تھا، اس نے کفن میں لپٹی ایک چھوٹے سے بچے کی لاش اٹھارکھی تھی، مگر اب میرے کان کچھ اور سن رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا ’’یہ عمران بھائی کے بازو ہیں، جو ابھی کچھ دیر پہلے باہر مین روڈ پر پھینکے گئے ملبے سے ملے ہیں، عمران بھائی کے والد نے اپنے بیٹے کے بازوؤں کو پہچان لیا تھا۔‘‘علامہ شہنشاہ حسین نقوی یہ بازو اٹھائے مسجد کی طرف جارہے تھے، جہاں عمران بھائی کی نماز جنازہ انھی بازوؤں کو سامنے رکھ کر ادا کی جائے گی۔ لبیک یا حسین کی صدائیں اب نہیں آرہی تھیں، یقینا بازوؤں والا کفن مسجد میں پہنچ گیا ہوگا۔ اب میں دیکھ رہا تھا اقراء سٹی کے کمپاؤنڈ میں داخلے کے دروازے کو ،دروازے کا نام، میں دیکھ رہا تھا، میں پڑھ رہا تھا ’’باب مدینۃالعلم‘‘۔ یہ دروازہ دھماکے والی جگہ سے بمشکل 20 فٹ کے فاصلے پر ہوگا۔ میں دیکھ رہا تھا، اردگرد کی کوئی چیز سلامت نہیں تھی، مگر ’’باب مدینۃالعلم‘‘ بالکل صحیح سلامت کھڑا تھا۔ میرے ساتھ میرا سب سے چھوٹا بیٹا نعمان بھی تھا، اب ہم کسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں بیٹھا جاسکے، ایک جگہ تھڑے پر کچھ لوگ بیٹھے تھے، ہم بھی ادھر ہی جاکر بیٹھ گئے، ہمیں دیکھ کر وہ لوگ خاموش ہوگئے، میں نے خود بڑھ کر انھیں سلام کیا، اور بتایا کہ ہم یہاں سے دس کلومیٹر دور شارع فیصل پر رہتے ہیں اور دھماکے کی آواز وہاں تک سنائی دی، میرے بات پر ایک صاحب نے بتایا ’’جب دھماکہ ہوا، تو ایک پانچ چھ سال کا بچہ پچاس فٹ اوپر اچھلا اور ایک فرلانگ دور جاکر گرا‘‘ پھر وہ شخص اٹھا اور مجھے لے کر وہ جگہ دکھائی جہاں بچہ گرا تھا، ہم پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، اب وہ شخص بتارہا تھا کہ ’’بچے نے پانی پیا اور مرگیا۔‘‘ ایسے پتہ نہیں کتنے بچے ہیں جو اس سانحے کی نذر ہوگئے، مگر ایک معجزہ بھی رونما ہوا، جب 48 گھنٹے بعد ملبے کے نیچے سے ایک پانچ چھ سال کی بچی زندہ سلامت نکال لی گئی۔ یہ بچی اقراء سٹی کی رہائشی تھی اور وہ زندہ ہے، ایک بات سبھی کہہ رہے تھے کہ عباس ٹاؤن میں شیعہ سنی مل کر رہ رہے ہیں اور یہاں آج تک کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ یہاں، جامع مسجد مصطفی اور ایک فرلانگ آگے عثمانیہ مسجد ہے۔ اس آبادی میں ہر نسل اور ہر زبان کا بولنے والا آباد ہے۔ پچاس شیعوں میں سنی شہداء کی تعداد بائیس ہے اور دکانداروں میں زیادہ تعداد سنیوں کی ہے۔ ایک اور بات بھی لوگ کہتے سنے گئے کہ شہداء کی تعداد کہیں زیادہ ہے جب کہ میڈیا پر تعداد کم بتائی جارہی ہے۔ اب میں عباس ٹاؤن سے رخصت ہورہا تھا، میں جاتے جاتے دونوں تباہ حال بلڈنگوں کو دیکھ رہا تھا جو ناقابل رہائش بن چکی تھیں، لوگوں کا ہجوم اور بڑھ چکا تھا، میرے کانوں میں آوازیں آرہی تھیں ’’کوئی حکومت کا نمایندہ نہیں آیا، سوائے ایم کیو ایم کے کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا، ہم ڈرے نہیں ہیں، ہم پھر سب کچھ تعمیر کریں گے، ہم بازار بنائیں گے، ہم یہیں بیٹھیں گے، ہم بھاگنے والے نہیں ہیں، دیکھو! کیا ہم خوفزدہ نظر آرہے ہیں؟ میڈیا والے لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، میرے دونوں طرف شہداء کی بڑی چھوٹی تصاویر لگی ہوئی تھی، اب میں عباس ٹاؤن سے نکل کر ابوالحسن اصفہانی روڈ پر آگیا تھا، میں نے پلٹ کر عباس ٹاؤن کی طرف دیکھا، سامنے بینر لگے ہوئے تھے جن پر سیاہ رنگ سے لکھا ہوا تھا ’’آج بعد نماز مغربین شہداء کا سوئم و مجلس ہوگی‘‘۔ میں نے دل میں شہداء کو سلام پیش کیا اور چل دیا۔ بلھے شاہ کے شعر مجھے یاد آرہے تھے۔
چل بلیا، چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انے کوئی نہ ساڈی ذات پچھانڑے ، کوئی نہ سانوں منے
ترجمہ: چل بلیا! وہاں چل، جہاں سب اندھے ہوں، نہ کوئی ہماری ذات پہچانے اور نہ ہی کوئی ہمیں مانے۔‘‘
http://www.express.pk/story/101034/
 

ساجد

محفلین
چل بلیا، چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انے کوئی نہ ساڈی ذات پچھانڑے ، کوئی نہ سانوں منے
ترجمہ: چل بلیا! وہاں چل، جہاں سب اندھے ہوں، نہ کوئی ہماری ذات پہچانے اور نہ ہی کوئی ہمیں مانے۔‘‘
http://www.express.pk/story/101034/
براہِ کرم درست کر لیجئے ، کیونکہ الفاظ کی تبدیلی مضحکہ خیزی پیدا کر رہی ہے۔
"چل بُلھیا چل اوتھے چلئے جتھے ہوون سارے انہے
نہ کوئی ساڈی ذات پُچھانے ، تے نہ کوئی سانوں مَنے۔
 
Top