میں شہرِ ذات سے نکلا تو دربدر بھٹکا

احسن مرزا

محفلین
ایک کوشش آپ احباب کی نذر

میں شہرِ ذات سے نکلا تو دربدر بھٹکا
کوئے بُتاں سے حرم تک اِدھر اُدھر بھٹکا

کبھی جو تھک بھی گیا میں تری مسافت میں
خیال تیری محبت کی راہ پر بھٹکا

برس رہا ہے کہیں اور سبزہ زاروں پر
وہ اک سحاب جو صحرا میں بے ثمر بھٹکا

وہ مردِ حق جسے ادراکِ ہست و بود ہوا
وہ باخبر تھا بظاہر وہ بے خبر بھٹکا

حجابِ ذات اٹھا کر درونِ ہستی بھی
شکستہ شہرِ تمنا میں دربدر بھٹکا

خرد کی شرط طوافِ مقامِ جا نا نہ
مگر جنون میں احسن نگر نگر بھٹکا
احسن مرزا
 
Top