میں ساری عمر عہد وفا میں لگا رہا ٭ عمران بدایونی

میں ساری عمر عہد وفا میں لگا رہا
انجام کہہ رہا ہے خطا میں لگا رہا

سارے پرانے زخم نئے زخم نے بھرے
بے کار اتنے دن میں دوا میں لگا رہا

ایسا نہیں کہ چاند نہ اترا ہو بام پر
میں ہی تمام رات حیا میں لگا رہا

اے عقل اور ہوگا کوئی اس کی شکل کا
دل کیسے مان لے وہ جفا میں لگا رہا

گھر کر لیا اداس فضاؤں نے دل میں
باہر کی خوش گوار فضا میں لگا رہا

کیا ہے یہ زندگی وہ بتائے گا کس طرح
جو شخص ساری عمر قضا میں لگا رہا

سورج تو جا کے چین سے بستر پہ سو گیا
شب بھر مگر چراغ ہوا میں لگا رہا

مجھ سے نماز عشق مکمل نہیں ہوئی
کس منہ سے میں کہوں کہ خدا میں لگا رہا

بہرا نہ مجھ کو کر دے یہ خاموشیوں کا شور
کیول اسی لیے میں صدا میں لگا رہا

کیوں میرے حق میں فیصلہ اترا نہیں کبھی
میں بھی تو اس کے ساتھ دعا میں لگا رہا

وہ چاہتا ہے کیا یہ مجھے تھی خبر مگر
میں اس کے ساتھ ساتھ دعا میں لگا رہا

عمران بدایونی
 
Top