فراز میں زندہ ہوں

میم الف

محفلین
میں ابھی زندہ ہوں
تم نے سنگباری کی
مرے پیکر کو دیواروں کے قالب میں چنا
ناگوں سے ڈسوایا
صلیبوں پر چڑھایا
زہر پلوایا
جلایا
پھر بھی میں سچ کی طرح پایندہ ہوں
میں زندہ ہوں
میرا چہرہ‘ میری آنکھیں‘ میرے بازو
میرے لب
زندہ ہیں سب
میں شہابِ شب
ہزاروں بار ٹوٹا
اور بکھرا
پھر بھی میں رخشندہ ہوں
میری طاقت میرے بالوں میں
نہ میرے ناخنوں میں تھی نہاں
میں حصاروں میں چھپا تھا
— اور نہ تیغوں کی پناہوں میں چلا
میری طاقت‘ میری قوت
حرف تھا
سلسبیلِ حرف سے میں نے پیا
آبِ بقا
حرف جو سچائیوں کی ابتدا اور انتہا
وجدان کی شمعِ نوا
سب کا خدا
تم نے کالے سورجوں کو
اپنے ہاتھوں پر دھرا
مصنوعی مہتابوں کو
ماتھوں پر چنا
کافور کی شمعوں سے طاقِ ذات کو
روشن کیا
تم نے چاہا تھا
کہ خال و خد تمھارے بھی
کہیں چمکیں
تمھیں بھی لوگ پہچانیں
تمھیں بھی دیوتا مانیں
مگر تم شکل سے عاری تھے
صورت گر بھی کیا کرتے
تمھارے جسم بے توقیر و بے جاں
اور تمھارے تاج طاقوں پر دھرے ہیں
اور تمھارے پیرہن
تابوت کا استر بنے
خاکستری ڈھانچوں کو ڈھانپے
اب عجائب گھر کے تہ خانوں میں سڑتے ہیں
تمھارے استخواں نوواردوں کی چاپ سے
یوں کانپ اُٹھتے ہیں
کہ جیسے صبحِ محشر کا بلاوا ہو
سنو اے کجکلاہو!
سنو اے خداوندو!
اب تم فقط ماضی ہو
میں آیندہ ہوں
میں نہ اپنے دوش سے نادم‘ نہ اپنے حال سے شرمندہ ہوں
میں زندہ ہوں
تابندہ ہوں
رقصندہ ہوں
پایندہ ہوں

 
Top