میں خود کش بمبار نہیں ہوں ...

سنو کہانی ... !

آئو بچو سنو کہانی
آنسو آنسو درد میں ڈوبی
زخمی زخمی اسکا ہیرو
نام ہے اسکا پیارا یوسف..
پیارا یوسف تها بے چارا
ہاں بے چارا غم کا مارا
غربت سے تها وہ تو ہارا
اسکا کوئی حال نہیں تها ...
چهوٹی سی اک مسجد تهی اور
اس مسجد کا تها وہ ملا
دین کی باتیں تها وہ سکهاتا
شاید اسکا جرم یہی تها ...
اک دن بے چارے نے سوچا
آئو چل کر گهوم کر آئیں
ہم بهی تهوڑا دل بہلائیں
جاکر کوئی گلشن دیکهیں ..
گلشن میں کچه رونق ہوگی
خوشبو ہوگی الفت ہوگی
رنگ برنگے پهول کهلینگے
اچهے اچهے لوگ ملینگے ..
اسکو یہ معلوم نہیں تها
ایک قیامت تاک میں بیٹهی
اسکا رستہ دیکه رہی ہے
ایک قیامت تاک میں بیٹهی
موت کا موسم ظلمت ظلمت
آنے والا وقت برا تها
اسکو یہ معلوم نہیں تها
آگے کیا ہونے والا ہے ...
دهرتی سے پهر طوفاں ابهرا
پهر آکاش سے ظلمت برسی
آگ ہوا میں پهیل رہی تهی
ہر سو خون کی بو پهیلی تهی ...
موت کو پهر جب اس نے دیکها
اسکے ہونٹوں پر کلمه تها
جسم تها اسکا ریزہ ریزہ
ٹوٹا ٹوٹا بکهرا بکهرا ...
پیارا یوسف رب کو پیارا
اپنی جان گنوا بیٹها تها
اک مظلوم مدرس ملا
دنیا چهوڑ کے جنت نکلا ...
اسکے چہرے پر ڈاڑهی تهی
اسکے سر پر ٹوپی بهی تهی
شاید اسکا جرم یہی تها
ہاں بس اسکا جرم یہی تها ...
روح بدن سے اسکی نکلی
حیراں حیراں دیکه رہی تهی
دیکه رہی تهی سوچ رہی تهی
آخر میرا جرم ہی کیا تها ... ؟
پهر اسنے اک منظر دیکها
دور سے اک آواز سی آئی
وردی میں ملبوس سپاہی
لوگوں سے کچه بول رہا تها ...
ہاته میں اسکے یوسف کا سر
جسم سے ٹوٹا زخمی سا سر
دیکهو دہشت گرد ملا ہے
یہ خود کش بمبار ہے لوگو ...!
میں خود کش بمبار نہیں ہوں
میں خودکش بمبار نہیں ہوں
لوگو ...! میری بات سنو تم
میں خود کش بمبار نہیں ہوں ...
زخمی زخمی بوجهل بوجهل
ٹوٹا پهوٹا اسکا لاشہ .....
لوگوں سے یہ بول رہا تها
میں خود کش بمبار نہیں ہوں ..
لیکن پیارے یوسف تیری
سننے والا کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں ہے سننے والا
کہ تو دہشت گرد نہیں ہے ...
انکو تیرا کارڈ ملا ہے
جس پر تیرا نام لکها ہے
کارڈ پے اک تصویر لگی
چہرے پر تیرے داڑهی ہے ...
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
نا ممکن ہے تیرے علاوہ
مجرم کوئی اور نہیں ہے
ملزم کوئی اور نہیں ہے ...
پیارے یوسف نے یہ سوچا
رب کی عدالت سب سے بڑی ہے
اسکی عدالت میں جاکر ہی
اپنا مقدمہ پیش کرونگا ...
اپنے رب سے میں پوچهونگا
کیا میں دہشت گرد ہوں مالک ...؟
میں خود کش بمبار نہیں ہوں
کیا مجه کو انصاف ملے گا ...

حسیب احمد حسیب​
 

اکمل زیدی

محفلین
اگر صحیح سر ملتا بھی تو وہ بھی کسی مدرسے والے کا ہی ہوتا یوسف نہیں ہوتا کوئی خالد یا حارث ہوتا . . . یہ بھی تو ایک حقیقت ہے سر . . .
 
Top