میں خود آواز ہوں

با ادب

محفلین
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں

زندگی سے ہمیں ہزار ہا شکوے رہے ۔ اس میں کوئی خاص اور نئی بات نہیں تمام خواتین دنیا میں آتے ساتھ ہی زندگی سے شکوہ کناں ہو جاتی ہیں ۔ اگر ہم بھی اسی صف میں کھڑے تھے تو یہ عین قانونِ فطرت تھا ۔
لیکن ایک شکوہ جو ہر شکوے پہ بھاری ہوگیا وہ شکوہ ہماری آواز کا تھا ۔
عمرِ نا تمام کے ایک خاص وقت تک آواز کچھ کچھ زنانہ رہی ۔ لیکن جوں ہی بڑھاپے کی سرحد پہ قدم دھرا آواز نے ساتھ دینے سے یکسر انکار کر دیا ۔
گھر اسکول گلی محلے غرضیکہ نیل کے ساحل سے لے کے تا بہ خاک کاشغر تک جہاں جہاں ہم نے ہر ایک کی اماں جان بن کے لمبے لمبے لیکچرز دینے کا آغاز کیا اس دن سے گلے سے ایک فریاد بلند ہوئی کہ بی بی زبان تو بغیر ہڈی گوشت کا لوتھڑا ہے جتنا چلائیں گی چلتی جائے گی لیکن ہم پہ کرم فرمائیے ہم اس بے ہنگم رفتار کا ساتھ بھلا کب تک اور کیونکر دے پائیں گے ۔
پس اس احتجاجی صدا کے بعد آواز ایسی بند ہوئی کے کئی دن اشاروں کنایوں میں مقصد ومدعا سمجھانے لگے ۔
لیکن جب مخلوقِ خدا نے ہمیں باقاعدہ گونگا سمجھ کر ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا تب احساس ہوا کہ زندگی میں طبیب کے مطب کے درشن کس قدر ضروری ہیں ۔ یہ جو اللہ کے بندے لمبی لمبی قطاروں میں اسپتالوں میں موجود ہوا کرتے ہیں یہ بھی ہوا خوری کے تحت نہیں جاتے کسی تکلیف کے پیش نظر ہی تشریف لے جایا کرتے ہیں ۔
اس دن ہم نے بھی محترمی و مکرمی طبیب کے مطب میں قدم رنجہ فرمایا ۔
عرض کیا
" بیٹی کاہے تشریف لائی ہیں؟ ؟ "

جواب عرض کی صورت بیٹی کے گلے سے جو غوں غاں کی آوازیں نکلیں تو بزرگوار سمجھ گئے کہ بیٹی کا گلہ آخری دموں پہ ہے ۔ دل ہی دل میں یقیناً فاتحہ پڑھ لی ہوگی لیکن خوب ٹھوک بجا کے بتیاں جلا کے حلق کا کوا تک دیکھ لینے کے بعد گویا ہوئے تو کچھ یوں
" بیٹا گلے کی تمام تاریں ( vocal cords) بالم کے لٹ کی طرح الجھی پڑی ہیں ۔ ان کے سلجھنے کا واحد طریقہ آپکی زبان بندی میں پوشیدہ ہے ۔
زیادہ بولنے سے گریز فرمائیں ۔ اور یہ ' وہ اور ایسی ویسی دوا کھا لیں ۔
یہ وہ اور ایسی ویسی دوا کو کھانے میں تو کوئی مضائقہ نہ سمجھا لیکن خاموشی اور وہ بھی ہماری ......
اسی بات کی فکر نے ہمیں مزید بیمار کر دیا ۔ اول تو گھریلو زندگی اسی صورت پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے جب زوجین میں سے کوئی ایک گونگا ہو ۔ اور ایں سعادت بزور بازو نیست تو یہ سعادت تو امام صاحب پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں ۔
اب اگر ہم بھی چہکنا چھوڑ دیں تو باغ تو ویران ہی سمجھیے ۔
صاحب سے اظہار فرمایا تو دل ہی دل میں شکر ادا کیا ہوگا کہ اس بہانے انکے کانوں کو سکون ملنے کا احتمال تھا ۔
لیکن وہ جو سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں تھا اور آدھی دنیا کی درد بھری داستانیں سن کر انکو الٹے سیدھے مشورے دینے کے ہم ٹھیکے دار تھے ان کا کیا بنتا ۔
اور قوم کے معمار بھلا ہماری آواز کی غیر موجودگی میں کیسے بن سکتے تھے ۔
خیر طبیبِ محترم کے اس مشورے کو ہم چنداں خاطر میں نہ لائے اور گھر آکے الائچی زبان تلے رکھی ' سونف پھانکی ' شہد میں کالی مرچیں ملا کے ہضم کر گئے ۔
ہر دیسی ٹوٹکہ آزما کے گلے سے آواز بر آمد کر ڈالی ۔
اب جو آواز نکلی اسکا احوال کچھ یوں تھا کہ اپنے سگے بھائی نے ٹیلی فون پہ آواز سن کے فرمایا یہ نمبر آپ کے ہس کیوں ہے یہ تو ہماری بہن کا ہے ۔
تو میں آپکی بہن ہی ہوں میرے بھائی ۔
ہائے اللہ باجی خواتین والی آخری نشانی بھی داغِ مفارقت دے گئی ۔ ہم تو پہلے ہی آپکو اباجی سمجھا کرتے اب تو آپ اور ابا دونوں ساتھ بیٹھے بس بھائی ہی لگ کریں گے بس آپ بسم اللہ کر کے داڑھی رکھ لیں ۔

جی چاہا اسکا گلہ دبا کے اسکو دنیا کے غموں سے نجات دے دیں کہ سب سے بڑا غم تو انکی بہن کا ابا جی ہونا تھا ۔

اللہ کے کاموں میں کسے دخل ہے ہماری والدہ خوش شکل و خوش گلو تھیں ۔ لیکن ہماری قسمت کہ ہم نے شکل سے عقل تک سبھی کچھ ابا سے مستعار لیا ۔
ابا ٹہرے دنیا جہان کے بے سرے ۔ اور یہی خوبی بدرجہ اتم ہم میں بھی آن موجود ہوئی ۔
بڑی اماں کی وفات پہ ابا نہایت غمگین تھے ۔ اسی غم میں ڈوب کے انھوں نے ایک غزل لکھی ۔ اور بصد اصرار اماں کو سنائی بھی ۔
جب تک ابا تحت اللفظ سناتے رہے اماں بھی سوکن کی وفات کا درد محسوس کرتی رہیں ۔ لیکن یہاں ابا نے غزل کو ترنم میں پڑھنے کا آغاز کیا ۔ اور جیسے ہی انکے گلے سے بھدی آواز نکلی اماں کے حلق سے فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا ۔
زندگی بھر ابا کو گِلہ رہا کہ اماں کا وہ قہقہہ بڑی اماں کے دنیا سے کوچ کر جانے پہ تھا ۔ جب کہ ابا کی تمام آل اولاد اس بات کی گواہ ہے کہ وہ قہقہہ ابا کے بے سرے ہونے پہ تھا ۔ اماں خود بے سُر میں ہیں اور یہی اماں کی وہ واحد مہارت ہے جس میں ابا چاہنے کے باوجود کبھی ماہر نہ بن سکے ۔

اب جب کہ ہماری آواز ابا جیسی ہو چلی تھی تو ہم نے صمیم عزم فرمایا کہ وہ خلش جو صدا ابا کے دل میں رہی ہم اسکا بھر پور ازالہ کریں گے ۔ اور ابا کے آشیانے کی عظیم الشان گلوکارہ بن کے اماں سے سریلے ہونے کا تاج چھین کے رہیں گے ۔
تمام عمر سہیلیوں نے جہاں کبھی کسی شادی بیاہ ' پکنک شکنک ' تفریح شفریح میں تان بلند کی وہاں ہمیں پہلے سے ہی خاموش کروادیا جاتا کہ ہم نے فقط تالی پیٹنی ہے ۔ خدا کی قدرت ہم تالی بھی ایسی بھیانک پیٹتے کہ وہ بہت جلد ہمیں اس سے بھی منع فرما دیتیں ۔
زندگی میں جہاں جہاں اس محرومی کا ہمیں سامنا تھا ہم نے سب کو مٹا دینے کا ارادہ کر لیا تھا ۔

گھر کے بے کار سپوت کو بازار بھیج کر ڈھول منگوایا گیا ۔ اور خود کو بے تحاشا اور بے حساب تسلی دی گئی کہ تمام عظیم گلوکاروں نے زندگی میں کبھی آواز کا طعنہ سنا ہوگا ۔ اور مزید برآں اگر کوئی مجھے ریاض کرتا دیکھ کے مذاق اڑائے گا تو مجھے دل برداشتہ نہیں ہونا وغیرہ وغیرہ ۔

ڈھولک تو گھر آگئی لیکن اب بجائے کون ...وہ جنہیں تمیز سے تالی پیٹنی نہیں آتی انھوں نے ڈھولکی کا کیا جنازہ نکالا ہوگا اسکی تفصیل کسی روز ضرور گوش گزار فرمائیں گے ۔ لیکن اس خواری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے سریلے ہونے اور گویے بننے سے تا عمر توبہ کر لی ۔
جواز یہ پیش کیا کہ جناب شریعہ پڑھی بچی اب کیا گاتی ہوئی اچھی لگیں گی ۔

بہن بھائیوں نے ان تمام جوازوں کو یہ کہہ کر مسترد فرمایا کہ آواز خوب ہو تو گانے کے لیے ملی نغمے بھی دستیاب ہیں ۔ لیکن ہم نے کان بند کر رکھے ۔ اب ضروری تو نہیں ہر بات کا جواب دیں ۔
آپ کیا کہتے ہیں؟ ؟

سمیرا امام
 
Top