میڈیا کے منفی اثرات

گرو جی

محفلین
ِمیڈیا کہ منفی اثرات
جنابِ گرامی میڈیا پر بات کرنا اس طرح سے ہے کہ بقولِ شاعر" کہ ہم بتلائیں کیا"،خیر اب بات چل نکلی ہے تو دیکھتیں ہے کہاں تک پہنچتی ہے۔
میڈیا کہ سب سے پہلا منفی اثر لوگوں کو ذہنی مریض بنانا ہے، آپ لوگوں‌نے عام زندگی میں ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ لوگ ہر وقت یہی بات کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ دھماکہ ہو گیا فوراً کاروبار بند کر دیا جائے اور میڈیا اس صورتحال پر "جلتی پر تیل چھڑکنے" والا کام کرتا ہے۔اس بات کی وضاحت اس طرح سے کرتا ہوں کہ کچہ عرصہ پہلے شہرِ کراچی میں ایک تنظیم کے مرکزی دفتر پر حملے کی افواہ نشر ہو گئی تہی جو کہ بغیر کسی جانچ پڑتال کہ نشر کی گئی تہی اور نتیجہ کیا نکلا، خوف و ہراس اور ملکی محیشت پر منفی اثرات، ویسے بھی جاننے والے کہتے ہیں کہ آگے ہمارا ملک کوں سی روز افزوں ترقی کر رہا ہے جو مزید چند سال پیچہے ہو جائے گا۔
خیر واپسی آتے پیں موضوع کی طرف میڈیا کہ دوسرا منفی نقصاں‌ لوگوں کی جاسوسی کرنا ہے، یہ لوگ صرف اپنے اخبار یا نشریات کو وسیع کرنے کے چکر میں لوگوں کی جاسوسی کرتے ہیں اور اس ضمن میں تو جیمز بانڈ، آئی ایس آئی وغیرہ کو بہی پیچہے چھوڑ گئے پیں، اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اب میڈیا سے چڑنے لگے ہیں کیوں‌کہ یہ لوگ عوام الناس یا خاص الخاص کی جاسوسی میں‌اتنا آگے چلے جاتے ہیں‌کی ان کی گھریلو تقریبات کہ نشر کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں‌آپ کو صدرِ پاکستاں کی ایوانِ صدر میں‌منقد تقریب کا احوال دے سکتا ہوں‌جس کا انجام ایک بیچارے غریب افسر شاہی کی نوکری سے برخاست کی صورت میں نکلا اور آج کل میڈیا پنجاب کے گورنر صاحب کی گہریلو تقریبات کو عوامی تقریبات بنا رہا ہے۔
میڈیا کا تیسرا منفی پہلو لوگوں کو اس کا عادی بنانا ہے، اس ضمن میں گہریلو خواتین کی مثال آپ سے کے سامنے ہی ہے (غیر شادی شدہ افراد سے معزرت کیوں کہ وہ اس دور سے گزر نہیں‌رہے( خواتین گہر کے کام کم اور ٹی وی کے سامنے زیادہ بیٹہی رہتی ہیں لہذا میاؤں حضرات کو خود ہی اپنے اور گہر کے کام کاج کرنے پڑتے ہیں۔ اور تو اور بچوں کو اسکول کے سبق کم اور فلموں اور اداکاروں کے نام زیادہ یاد ہوتے ہیں۔ مرد حضرات بہی اسی صورتحال سے دوچار نظر آتے ہیں۔
میڈیا کہ تیسرا منفی پہلو ان عناصر کی طرف داری کرنا ہے جو کسی معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں، مثلاً کچھ معلوماتی پروگرام ایسے بہی نشر ہو جاتے ہیں جن کہ نہ نشر ہونا اچہا ہی رہتا ہے۔ اس ضمن میں میں کوئی مثال پیش نہیں کروں گا کیوں کہ بات غیر اخلاقیات کی طرف چلی جائے گی اور میرا مقصر صرف اس چیز کو روشناس کروانا ہے۔ اس بات پر مجہے دوسرا منفی پہلو جو اس سے جڑا ہو ہے وہ ہے سلگتے ہوئے موضوعات پر کہلے عام بحث جو آپ شاید اپنے گہر والوں کے ساتہ تو دور کی بات خود بہی اکیلے میں‌نہ دیکھ سکیں۔
میڈیا کہ سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ ان اشتہارات کو شائع کرتا ہے جو کی ہمارے رسم و رواج سے میل نہیں کہاتے اور جن کا مسلسل شائع ہونا ہماری نوجوان نسل کے زہنوں‌کو پراگندہ کر رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اپنا اخلاق اور اپنے دین کو تباہ کر رہے ہیں
اور میڈیا ہماری خواتیں کو پاکیزگی سے غلاظت کی طرف مائل کر رہا ہے جس کی وجہ سے آج کل ہمارے معاشرے میں اسیے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔
کسی مفکر کا قول ہے کہ وہ زیادہ خوشحالی یا بدحالی قوموں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ مثال میں نے اس لئے چپساں‌کی ہے تا کہ آپ لوگ اسے میڈیا کے منفی تناظر میں بہتر طریقے سے سمجہ سکیں۔
اب آتے ہیں میڈیا کے سدھارنے کی طرف۔ میڈیا حکومت کے ایک ستونوں میں سے ایک ستون مانا جاتا ہے آج کل کے دور میں لہذا یہ صنعت بھی حکومت کے زیرِاہتمام رہے تو اچہا ہے ورنہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت تو ہے نہیں لہذا حکومتی رٹ تو دور کی بات ہے، یہ بات مسلمِ ہے کہ حکومتی میڈیا بھی ایک زہرِقاتل ہوتا ہے عوام الناس کے لئے جو سب اچہا ہے کی گردان جاری کر کے کئی اہم معاملات سے عوام کی توجہ ہٹا دیتا ہے۔ میڈیا کو عوام اور حکومت کے درمیاں ُپل کا کام سر انجام دینا چاہیے نہ کہ رسہ کشی شروع کر دے، ایک آزاد میڈیا ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کا جھومر ہوتا ہے مگر آزادی ایک حد تک برقرار رہے تو اچھی ہے وگرنہ ٹکراؤ کی صورتحال کسی کے لئے مناسب نہیں‌ہوتی، بدقسمتی سے ہمارے ہاں میڈیا آزاد ہے مگر میڈیا چلانے والے آزاد نہیں ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔

انہی تمام سفارشات کے ساتہ اجازت چاہوں‌گا
الللہ نگہبان
مقالا پڑھنے کا بہت بہت شکریہ
ولسلام
 

زین

لائبریرین
سچ لکھنا ہو تو پھر کسی سے معذرت کی ضرورت نہیں ، سچ لکھنے پر ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
آپ کی تحریر بہت اچھی ہے اور آئندہ بھی لکھا کریں۔ شکریہ
 

گرو جی

محفلین
شکریہ ورنہ میں تو ‌سمجہا تہا کہ شاید میری آواز "نقارخانے میں طوطی" کی آواز بن گئی ہے
 

طالوت

محفلین
تحریر اچھی ہے ، مگر دئیے گئے موضوع پر بحث آپ نے صرف درمیانی سطروں میں ہی کی ہے ۔۔
وسلام
 

مرک

محفلین
میں بھی کوئی تحریر لکھنا چاہتی ہوں مگر:( خیر بہت اچھی تحریر ہے گروجی:)
 
اول تو ہ اور ھ میں فرق نہ کئے جانے کے باعث مضمون پڑھتے ہوئے تناؤ کا احساس رہا۔ پتہ نہیں کیوں پہلی ہی نظر میں ایسا لگا جیسے باتیں چبا چبا کر لکھی گئی ہوں۔ حالانکہ اس تاثر سے نکلنے کے لئے دوسری بار بھی پڑھا پر کچھ خاص فرق نہ پڑا۔ عنوان ادھورا ہے۔ داستان ایک مختصر سے خطہ ارضی کے گرد گردش میں ہے۔ مخاطب بھی محدود ہیں۔ مضمون کئی بار موضوع سے دائیں بائیں بھٹکتا ہوا نظر آیا لیکن پھر درمیانی لکیر کی جانپ پلٹ آیا۔ آخیر میں پیش کیے گئے حل میں الجھاؤ کا شکار ہیں۔ صاحب مضمون ایک حل پیش کرتا ہے اور خود ہی اسے مسترد کر دیتا ہے۔ املا کی کئی غلطیاں نظر آئیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروف ریڈنگ کے عمل سے نہیں گزرا۔ ایک مثال دیتا ہوں۔

میڈیا حکومت کے ایک ستونوں میں سے ایک ستون مانا جاتا ہے

ٹھوڑی توجہ اور جمع خاطر سے لکھا جاتا تو ایک اچھا مضمون ہو سکتا تھا، اگر موضوع کا حیطہ محدود کر دیا جاتا۔
 
Top