میڈیا کا کام بھی صرف خبر دینانہیں‘ لوگوں کی سوچ اور ذوق کی تعمیر بھی ہے۔
اسے(میڈیا کو) بتانا چاہیے کہ وہ کیا مسائل ہیں جن کو ہمیں اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہے۔
ایک ٹیلی ویژن چینل پر جب میں نے سیاسی پروگرام کی میزبانی کا آغاز کیا تو چینل کے سربراہ نے کہا:
کامیاب اینکر وہ ہے جو سوال اٹھائے تو لوگ کہیں:”یہی تو ہمارے ذہن میں تھا؟“
میں نے کہا:
مجھے اتفاق ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بات اور بھی ہے۔ میزبان کو ایسے سوالات اٹھانے چاہیے کہ لوگ سوچنے لگیں:
”اچھا! اس معاملے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے؟“
ذوق کا معاملہ یہ ہے کہ علم اور زبان‘ ایک میزبان کے انتخاب میں دونوں کی اہمیت نہیں۔اُردو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے‘ اس پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا تھا اُردو زبان اس پر ناز کرے گی کہ وہ ابوالکلام کے قلم سے لکھی اور ان کی زبان سے بولی گئی۔ ہمارے ٹاک شوز کو دیکھ کر اُردو جو مرثیہ کہتی ہوگی‘ میں اس کا اندازہ کرسکتا ہوں۔ اب تو نسوانی چہروں پر اصرار ہے کہ مغرب کے تجارتی اخلاقیات کا درس یہی ہے۔
سیاسی و فکری اشرافیہ از خورشید احمد ندیم سے اقتباس
اسے(میڈیا کو) بتانا چاہیے کہ وہ کیا مسائل ہیں جن کو ہمیں اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہے۔
ایک ٹیلی ویژن چینل پر جب میں نے سیاسی پروگرام کی میزبانی کا آغاز کیا تو چینل کے سربراہ نے کہا:
کامیاب اینکر وہ ہے جو سوال اٹھائے تو لوگ کہیں:”یہی تو ہمارے ذہن میں تھا؟“
میں نے کہا:
مجھے اتفاق ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بات اور بھی ہے۔ میزبان کو ایسے سوالات اٹھانے چاہیے کہ لوگ سوچنے لگیں:
”اچھا! اس معاملے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے؟“
ذوق کا معاملہ یہ ہے کہ علم اور زبان‘ ایک میزبان کے انتخاب میں دونوں کی اہمیت نہیں۔اُردو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے‘ اس پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا تھا اُردو زبان اس پر ناز کرے گی کہ وہ ابوالکلام کے قلم سے لکھی اور ان کی زبان سے بولی گئی۔ ہمارے ٹاک شوز کو دیکھ کر اُردو جو مرثیہ کہتی ہوگی‘ میں اس کا اندازہ کرسکتا ہوں۔ اب تو نسوانی چہروں پر اصرار ہے کہ مغرب کے تجارتی اخلاقیات کا درس یہی ہے۔
سیاسی و فکری اشرافیہ از خورشید احمد ندیم سے اقتباس