ابن عادل

محفلین
میں ایک محفل میں شریک تھا بات ہو رہی تھی کہ جب ہم کسی قوم کی کسی چیز کو رواج دیتے ہیں تو اس کے ساتھ پورا سسٹم آتا ہے صرف وہ چیز نہیں ۔ یہ ایک مغربی فلسفی کا نقطہ نظر تھا مثال پیش ہوئی جینز کی، ایک صاحب کہنے لگے ۔آپ جینز پہنتے ہیں اسے پہن کر آپ کو پیشاب آجائےتو آپ کو وہ مخصوص مقام چاہیے جہاں آپ کھڑے ہو کر فارغ ہوں اور اگر رفع حاجت ہے تو کموڈ۔ گویا ایک چیز اپنے ساتھ پورا ماحول بھی لائی ۔علی ہذا القیاس
آج جب میڈیا کے اثرات پر گفتگو دیکھی تو ذہن میں مذکورہ بالا واقعہ تازہ ہو گیا ۔ میں اگر چہ اس فلسفہ سے سو فیصد متفق نہیں لیکن قائل ضرو رہوں ۔
مغرب اس وقت غالب ہے وہاں سے جو چیز آتی ہے وہ اپنے ساتھ وہ مضر اثرات بھی لاتی ہے جو اس معاشرے کا حصہ ہیں ۔
میڈیا کے آنے سے غلغلہ مچا کہ دنیا سمٹ گئی ہے ۔تسلیم ۔۔ لیکن اس سے کیا ہوا ۔۔۔! تہذیب مغرب ہی عام ہوئی ۔ ہماری نظر صرف اخلاقی بگاڑ پر جاتی ہے اور یہ صحیح بھی ہے کہ اصل تو اخلاق ہے ۔لیکن اس سے قطع نظر اگر خالص مغربی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھی اس میڈیا کے بے ہنگم پھیلاؤ کے فطری نقصانات ہوئے ہیں ۔مثلا ً انسانی کلچر تباہ ہوا ، زبانیں تباہ ہوئیں ، رسوم رواج ختم ہوگئے ،انسانی تعلقات کے زاویے بدل گئے ۔ یہ سب انسانی زندگی حسن ہے ۔ہر علاقہ اس کی زبان اس کے رسم وروا ج ایک اپنا حسن اور چاشنی رکھتے ہیں افسوس ہم اس سے محروم ہورہے ہیں ۔
اس کے علاوہ اگر ہم ایک پاکستانی اور مسلم ہونے کی حیثیت سے دیکھیں تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ دور غلامی میں ہم نے مغرب سے جو چیزیں لیں ۔لانے والے اسے ویسا ہی لائے ابتداء میں کچھ حدود وقیود لیکن بتدریج یہ سب ختم ہوتا گیا اور میڈیا کو بے لگام آزادی دے دی گئی ۔حصول دولت [جو کہ مغرب کا مذہب ہے ۔]کے لیے ہمارا مذہب ،معاشرہ ،کلچر ، رسوم ورواج سب کچھ قربان کیا جارہا ہے ۔ظاہر ہے ہمارا کلچر اور مذہب ومعاشرہ اس کارپوریٹڈ کلچر کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت تو تبھی کمائی جاسکتی ہے جب نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا جائے اور انہیں نہ ختم ہونے والی خواہشات کا اسیر بنا دیا جائے ، ان کی سوچ کو اپنی گرفت میں لے لیا جائے ۔ وہ میڈیا پر جو دیکھے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے قطع نظر اس کے کہ وہ اس کے حق میں نقصان دہ ہے یا فائدہ مند ۔
بحیثیت مسلم ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم اس چیز کا صحیح استعمال کرتے ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں یہ سب کچھ ہے ان کے ''نام مسلمانوں کی طرح ہونے کے باوجود ''وہ لوگ مغرب سے دو ہاتھ آگے ہیں کیونکہ مغرب کا تو مذہب ہی حصول دولت ہے ۔وہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق صحیح بھی ہے اور کامیاب بھی ۔حیرت ہے ہم پر کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔
مجھے کسی حکومت یا کسی مقتدر ہستی سے خیر کی توقع نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے جو ہو سکے کریں ۔ تہذیبوں کا تصادم جاری ہے سوال یہ ہے کہ میں کس طرف کھڑا ہوں ۔
 

ماوراء

محفلین
ابن عادل، چونکہ آپ نے آخری تاریخ کے کچھ بعد مضمون لکھا۔ اس لیے مقابلے میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن اس مقابلہ میں شرکت کے شکریہ۔ امید ہے آئندہ کے موضوعات پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
 
Top