میڈیا مائنڈ کنٹرول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برین واشنگ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم

بھائی یہ میڈیا مائنڈ کنٹرول کیا چیز ہوتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟



اللہ اکبر کبیرا

:eek:
 

arifkarim

معطل
مائنڈ کنٹرول کا مطلب انسانی نفسیات پر عبور حاصل کرکے دوسرے انسانوں کو اسکے ذریعہ اپنی خواہشات کے تابع کرنا ہے۔ پرانے وقتوں سے قوموں پر انکے لیڈران مائنڈ کنٹرول کے ذریعہ حکومت کرتے آئے ہیں اور آجکل بھی یہی حال ہے۔ مائنڈ کنٹرول کی کئی اقسام ہیں: سیاسی، سماجی، اقتصادی وغیرہ۔ مائنڈ کنٹرول کا شکار شخص حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کر پاتا اور جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔
ماڈرن دور میں ٹی وی اور میس میڈیا کے ذریعہ حکومتیں قوم کو اپنے تابع کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ مثال کے طور 9/11 کے جعلی حملے، عراق میں جوہری توانائی و کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا پراپیگنڈا وغیرہ۔ چونکہ "اکثریت" اپنی حکومت پر اعتماد کرتی ہے، یوں ایک خود ساختہ تصویر پیدا کرکے "پبلک" کی رائے کو اپنی خواہش کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ اسی چیز کا نام مائنڈ کنٹرول آف میڈیا ہے۔
دوسری مثال انٹرنیٹ و ٹیلی وژن پر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ کمپنیز سالہا سال کی ریسرچ کو استعمال کرتے ہوئے صارفین پر ہر طرح سے اثر ڈالتی ہیں کہ انکو مطلوبہ پراڈکٹ یا اسکیم ضروری لینی چاہئے۔ ہر اشتہار میں "فوائد" ہوتے ہیں اور نقصانات کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ جیسے آجکل مغرب میں سوائن فلو نامی ویکسین کی ہر طرف اشتہار بازی کی جا رہی ہے اور اسکے سخت نقصانات کو چھپا دیا گیا ہے۔
تیسری مثال مائنڈ کنٹرول کی سب سے زیادہ خطرناک ہے، جسمیں باقائدہ فزیکل تجربات کیساتھ کسی دوسرے انسان کے ذہن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔ انمیں تشدد، ڈرگز، برقی مقناطیسیت، آئسولیشن اور ہر دوسری طرح کے تجربات شامل ہیں۔ سی آئی اے دوسری جنگ عظیم کے بعد سالہا سال تک اس قسم کے تجربات ہزاروں لاکھوں لوگوں پر متعدد ممالک میں‌کرتی آئی ہے۔ خاص کر جنگی قیدیوں کیساتھ اسلوک موجودہ دور کی مثالیں ہیں۔ MKULTRA سی آئی اے کا سب سے مشہور مائنڈ کنٹرول پراجیکٹ تھا۔ اس بارہ میں مزید:
http://en.wikipedia.org/wiki/MKULTRA
 
بِسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بھائی اگر کسی کے پاس یہ کتاب ہو اور وہ یہاں شئیر کریں تو صدقہ جاریہ ہوگا “سیکولر میڈیا کا شر انگیز کردار“ مولانا نذر الحفیظ ندوی
یا اس جیسی دوسری کتب یا ڈاکمنٹری ہو
کیونکہ اب اس طرف تھوڑا سا دل مائل ہو گیا ہے کہ اس پپٹ کو کس طرح اور کن طریقوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے
چوکا کرکٹ کے میدان میں مارا جاتا ہے اور ہم یہاں بیٹھے اپنے کمرے میں چلانگ لاگ لیتے ہیں
رومینٹک سین فلم میں چل رہا ہوتا ہے اور آنسو ہمارے انکھوں سے جا رہے ہوتے ہیں
آڈیو کے ساتھ ہمارے تار مل جاتے ہیں اور ساتھ ہی باڈی لینگوج بھی

امممممممممم کیا خیال ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
دہشت گرد انصاف پسند اور ظالم انصاف کا علم بردار
 

arifkarim

معطل
کیونکہ اب اس طرف تھوڑا سا دل مائل ہو گیا ہے کہ اس پپٹ کو کس طرح اور کن طریقوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے
چوکا کرکٹ کے میدان میں مارا جاتا ہے اور ہم یہاں بیٹھے اپنے کمرے میں چلانگ لاگ لیتے ہیں
رومینٹک سین فلم میں چل رہا ہوتا ہے اور آنسو ہمارے انکھوں سے جا رہے ہوتے ہیں
آڈیو کے ساتھ ہمارے تار مل جاتے ہیں اور ساتھ ہی باڈی لینگوج بھی
جدید ٹیکنالوجی اب 3D video and audio کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے گھروں تک آپہنچی ہے۔ جاپان اور دیگر مغربی دنیا میں اسکی سیل بھی شروع ہوچکی ہے۔ اب آپ اسکرین پر نہ صرف حقیقی آنکھ جیسے مناظر دیکھ سکتے ہیں بلکہ حقیقی آوازوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ فحاشی انڈسٹری اس نئی ٹیکنالوجی کو اڈاپٹ کرنےمیں سر فہرست ہے۔ HD کے بعد 3D HD ایک اسٹینڈرڈ بنے گا اور مستقبل کی تمام نشریات اسی میں ہوں گی۔
جوں جوں اصل اور خیالی دنیا کے مابین فرق ختم ہو رہا ہے۔ ویسے ویسے ہمارے رجحانات اور میل ملاپ کے طریقوں میں فرق واقع ہوا ہے۔ ایک مشہور امریکی ریسرچر الیکس جونز کے مطابق ۶۰، ۷۰ کی دہائی میں امریکن لوگ عموماً شام کے وقت کام کاج کے بعد محلات میں اکٹھے ہوتے اور موج میلا لگتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ ایسی تمام تر سوشل سرگرمیوں کو ٹیلی وژنز اور فیس بک جیسی ٹیکنالوجیز نے گھیر لیا ہے۔ ہم اب نہ چاہتے ہوئے بھی انکے غلام بن چکے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں کو بانٹنے کی بجائے پلاسٹک کے ڈبوں اور ورچؤل دنیا کے ساتھ میل ملاپ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس صورت حال کو انہوں نے سوشل انجینئرنگ کا نام دیا ہے۔
اور اس حقیقت کو اب یورپی متفکرین نے تسلیم کیا ہے کہ میس میڈیا اور انٹرنیٹ انقلاب کے بعد ہم اپنے گردونواح سے کم اور دور دراز کے خیالی مسئلہ مسائل میں زیادہ گم نظر آتے ہیں۔ بعض علاقوں میں المیہ یہ ہے کہ ساتھ رہتے ہمسائے کو کم جانتے ہیں جبکہ ٹی وی کے اداکار یا کسی اور اسٹار کی زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ یہ وہ افلاطونی دنیا ہے جسکی بنیاد آج سے کئی سو سال قبل رکھی گئی۔ جنمیں معاشرے میں موجود افراد کو حقیقت سے بالکل کاٹ کر کھ دیا جاتا ہے۔ اخبارات یا میڈیا میں موجود سرخیاں بھی ایسے مسائل پر مبنی ہوتی ہیں جنکا عام پبلک پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جبکہ جن مسائل اور اسکینڈلز کا ذکر سرخیاں بننا چاہئے، ایسی معلومات کو خریدوفروخت یا بلیک میلنگ کے تحت عوام کی نظروں ہی سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ خدا بھلا کرے وکی لیکس یا اس قسم کے دیگر "سازشی" میڈیا کا جو اپنی جان پر کھیل کر پپٹ حکمرانوں کے کارنامے فاش کرنے میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔
 
Top