مصنف کا تعارف مینا ناز۔۔۔۔ رومانی و معاشرتی اور جذباتی ناول نگار

معظم جاوید

محفلین
مینا ناز ۔۔۔۔ رومانی و معاشرتی اور جذباتی ناول نگار
533187_451492331588297_1327840940_n.jpg
مصنفین کی دُنیا میں یوں بڑے بڑے نام موجود ہیں جنہوں نے صفر سے ابتدا کی اور پھر خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر قارئین کو دلچسپ اور منفرد تحریریں دیں۔ ساٹھ کی دہائی میں جب خواتین کے ناول بڑے شوق و انہماک سے پڑھے جاتے تھے، اسی دور میں ایک شخص نے تحریر کے میدان میں قدم رکھا۔ اس کا نام ’’امین نواز‘‘ تھا۔ پیشے کے اعتبار سے یہ شخص درزی تھا۔ خواتین کے ملبوسات سینے میں خوب مہارت رکھتا تھا اور ساتھ ہی عمدہ باتونی فطرت کا مالک بھی تھا۔ اس نے بچپن سے سلائی کا فن سیکھا تھا۔ عمر کے ابتدائی حصے میں ہی اسے خواتین کی فطرت اور ان کے خانگی مسائل سے کمال آشنائی ہو چکی تھی۔ خواتین کے جذبہ حسد، رقابت، محبت، بے وفائی اور سوتن کے دُکھ کی کہانیاں اس کیلئے نئی بات نہیں تھیں۔ 1963ء میں امین نواز کی شادی ہوئی۔ اسی دور میں اسے ادبی مجلوں کے مطالعہ کا موقع ملا۔ رضیہ بٹ، بانو قدسیہ، دیبا خانم وغیرہم کی تحریریں بھی پڑھیں۔ منٹو، کرشن چندر، پریم چند کی کہانیاں بھی اس کے نگاہ سے گزری۔ اسے محسوس ہوا کہ ان تحریروں میں پاکستانی معاشرے کی خواتین کی حقیقی نفسیات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ مصنفین اپنی تحریروں میں خواتین کا جس انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ وہ مصنوعیت کا شکار ہے۔ کراچی کی خواتین مصنفین میں ہندوستانی تہذیب کا عنصر غالب ہے۔ 1963ء میں امین نواز نے اپنا پہلا ناول ’’پربت‘‘ لکھا جس میں پاکستانی عورت کو موضوع بنایا گیا۔ جب اس ناول کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو پبلشر نے مرد کے نام سے ناول شائع کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس دور میں خواتین کے ناول زیادہ مشہور تھے۔ امین نواز کیلئے یہ مرحلہ بڑا مشکل تھا۔ اسے بچپن سے لوگ پیار سے ’’مینا‘‘ پکارتے تھے۔ اس نے اسی نام کو قلمی نام بنانے کا ارادہ کیا۔ پبلشر سے بات چیت میں ’’مینا نواز‘‘ بطور قلمی نام تجویز ہوا۔ پبلشر نے مینا نواز کے بجائے ’’مینا ناز‘‘ پر زور دیا۔ 1963ء کےآخر میں امین نواز کا پہلا ناول پربت مینا ناز کے قلمی نام سے شائع ہوا۔ کہانی کو بے حد سراہا گیا۔ اگلے سال میں ’’طرزآشنائی‘‘ اور دیگر چار ناول شائع ہوئے۔ فی ناول کا معاوضہ پانچ صد روپے تھا۔ امین نواز کو اس میدان میں لذت ملی اور اس نے درزی کے پیشے کو خیرباد کہہ دیا اور پوری یکسوئی کے ساتھ تحریر سے وابستہ ہو گیا۔ 1965ء میں مینا ناز کو کراچی میں قسمت آزمائی کا موقع ملا۔ کراچی کے پبلشرز نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ناولوں کی دُنیا میں مینا ناز ایک معتبر نام بن گیا۔ بچوں کی کہانیاں بھی ضبط تحریر میں آئیں۔ سو سے زائد ناول کی اشاعت کے بعد مینا ناز کو احساس ہوا کہ پبلشرز زیادہ منافع اپنی جیب میں ڈالتے ہیں اور اس کی محنت کے بڑے حصے سے اسے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب زیادہ تر مصنفین اپنی تحریر کا ایک ہی بار معاوضہ لیتے تھے۔ مینا ناز ’’ابن صفی‘‘ کے انداز سے بڑا متاثر ہوا۔ 1978ء میں وہ لاہور واپس لوٹ آیا۔ اس نے ذوالقرنین چیمبرز گنپت روڈ پر اپنا آفس بنایا اور بک پیلس کے نام سے اپنا ادارہ قائم کرلیا۔ اب وہ اپنی تحریروں کو خود شائع کرنے لگا۔ ہر ماہ دو نئے ناول اس ادارے سے شائع ہونے لگے۔ مینا ناز نے آٹھ سو سے زائد ناول اس ادارے سے شائع کئے۔ مینا ناز کی کہانیوں میں پاکستانی عورت کے معاملات زیادہ پائے جاتے تھے جس کے باعث طبقہ خواتین اس سے خاص متاثر ہوئیں۔ مختلف خواتین اسے خط لکھتیں اور اپنی اپنی دردناک کہانیاں بیان کرتی رہتیں۔ میناناز انہیں کہانیوں کے قالب میں اتار کر قارئین کو پیش کرتا رہا۔ مینا ناز کی تحریروں میں بیشتر پلاٹ حقیقی رہے۔ مینا ناز کے ساتھ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی رہی کہ مرد حضرات اسے بے باک اور جذباتی خاتون سمجھتے رہے اور خطوط میں اسے محبت نامے تک بھیجتے رہے۔ کچھ دیوانوں نے تو مختلف نوعیت کے تحائف بھی بذریعہ ڈاک مینا ناز کی خدمت میں پیش کئے، جن میں کچھ قابل اعتراض اشیاء بھی شامل رہیں۔ مینا ناز نے اپنی شخصیت کو کبھی بے نقاب نہیں کیا۔ اسے کاروبار سے غرض رہی۔ قلمی سفر منافع بخش کاروبار بن چکا تھا۔ 80ء کی دہائی مینا ناز کیلئے سنہرا سال تھا۔ ہر طرف اس کے ناولوں کا ذخیرہ دکھائی دیتا تھا۔ بک سیلرز مینا ناز کی کتابوں کو منافع بخش سمجھتے تھے۔ 90ء کی دہائی میں حالات نے پلٹا کھایا اور مہنگائی میں تیزی اضافہ ہوا اور کتب کی قیمتیں بڑھتی چلی گئیں۔ مینا ناز کی پبلیکیشنز بھی متاثر ہوئی مگر سلسلہ جاری رہا۔ مینا ناز نے 2005ء میں اشاعتی ادارے بک پیلس کو ختم کر دیا۔ عمر کا تقاضا بھی تھا اور بڑے بیٹے کی ناگہانی موت کا شدید صدمہ بھی۔ دل بہلانے کیلئے اسٹیج کا رُخ کیا۔ تھیٹر کیلئے متعدد ڈرامے لکھے۔ ٹی وی کیلئے بھی کئی کہانیاں لکھیں مگر وہ شو بز کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ آج کل مینا ناز فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بینائی کمزور ہو چکی ہے اور لکھنے کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ ایک معروف نام گمنامی اور کمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ بچے اپنی اپنی زندگیاں بسر کرنے میں مشغول ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، میں سمجھا کہ مینا کماری ناز کا ذکر ہے اور اس لئے یہاں آیا کہ یہ ناولسٹ کب سے ہو گئیں؟
 
Top