شمشاد
لائبریرین
مینا بازار صفحہ 1
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلا باب
دربار شاہجہانی
دولت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ شاہجہان بادشاہ دیوان خاص میں اپنے عدیم النظیر سریر شہریاری یعنی تخت طاؤسی پر جلوہ فرما ہے۔ مرصع تخت کے سونے کی آب و تاب اور اُس کے جواہرات کے چمک دمک اہل دربار کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ اور ان کا عکس علیؔ مروان خان کی نہر کے نزاکت سے بہنے والے پانی پر عجیب عجیب شوخیوں اور بیقراریوں کا انداہ دکھا رہا ہے۔
سامنے اُمرائے دربار لمبے دامنوں کے جامے پہنے چھجے دار پگڑیاں باندھے، کمروں میں تلواریں اور پٹکوں میں پیش قبض لگائے دست بستہ کھڑے ہیں۔ جن میں زیادہ ممتاز سعد اللہ خان وزیر سلطنت، حکیم رُکنائے کاشی، سعید اے گیلانی، حکیم مسیح الزمان علامی افضل خان جو بڑے عالم تھے اور مُلا علاء الملک تولی میر سامان ہیں۔
اتنے میں حکیم رکنائے کاشی بڑھ کے زمین بوس ہوئے اور کمال خوش الحانی سے اپنا ایک نو تصنیف قصیدہ سُنانے لگے۔ حاضرین داد دیتے
مینا بازار صفحہ 2
جاتے تھے۔ اور بادشاہ جہاں پناہ جن میں دینداری نے نہایت سادگی اور بے نفسی پیدا کر دی تھی، اگرچہ اپنے چشم و ابرو سے اور آہستہ آہستہ زبان سے بھی شاعر کی طباعی و سخن آفرینی کی داد دے رہے تھے مگر ساتھ ہی اپنی تعریف سننے سے نادم بھی ہوتے جاتے تھے۔ فرشتۂ ہدایت اُن کے کان میں کہتا کہ تعریف کے قابل صرف خداے واحد ذوالجلال کی ذات ہے، اور زیادہ نام ہو جاتے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ ادھر رُکناے کاشی نے قصیدہ ختم کیا، ادھر شاہجہان تخت ہی پر خدا کے سامنے سجدے میں گر پڑا۔ اور درگاہ خداوندی میں عرض کیا الہٰ العالمین۔ میں کسی قابل نہیں ہوں۔ مگر تیری رحمت و بندہ نوازی ہے کہ مجھے ایسی عزت و حکومت عطا کی کہ یہ شعرا میری مدح سرائی کر رہے ہیں۔
اب بادشاہ نے سجدے سے سر اُٹھا کے حکم فرمایا کہ روکناے کاشی کو سونے میں تول کے سونا اُس کے حوالے کرو۔ وہ سونے میں تُل رہا تھا اور بادشاہ کہہ رہا تھا "الحمد اللہ کہ ہمارے دربار میں ایسے ایسے نازک طبع و خیال آفرین شاعر موجود ہیں جیسے اور کسی دربار میں نہیں ہیں۔
اس پر علامی افضل خان نے جو اپنے زمانے کے علمائے بے بدل میں سے تھے، ہاتھ جوڑ کے عرض کیا، ہندوستان میں اور دربار ہی کون ہے جو اس آستان فلک توامان کا مقابلہ کر سکے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ آج ممالک فارس و خراسان میں بھی کوئی ایسا صاحب کمال شاعر نہیں موجود ہے جس کو ایران کی دولت صفویہ ہمارے سامنے پیش کر سکے۔ وہاں جو شاعر شہرت و نمود حاصل کرتا ہے، وطن چھوڑ کے یہاں چلا آتا ہے۔ اور اگرچہ ہمارے ملک کی عام زبان فارسی نہیں ہے۔ مگر اس دربار گُہر بار کی اقبالمندی نے ہمیں شعر و سخن میں اہل زبان پر فوقیت عطا کر دی ہے۔
حکیم مسیح الزمان : ہمارے دربار کی علم و فضل اور ہمارے شعرا کے کمالات نے ہند کو زمین عجم بنا دیا ہے۔ ایران کے آئے ہوئے شعرا اور ہندی مسلمانوں کی سخن سنجی درکنار یہاں بعض ہندو ایسے خوش گو شاعر ہیں کہ دربار عجم کے شعرا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ داتا رام جو برہمن تخلص کرتا ہے فی الحال دہلی میں موجود ہے۔
مینا بازار صفحہ 3
فارسی کا ایسا اچھا شاعر ہے کہ اُس کا کلام سُن کر کوئی بے داد دیے نہیں رہ سکتا۔ بے اختیار زبان سے واہ نکل جاتی ہے۔
یہ سنتے ہی بادشاہ جو تکیے سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا سیدھا ہوا اور کہا ہاںمیں نے بھی برہمن کی بڑی تعریف سُنی ہے۔ کیا آج کل وہ یہیں ہے؟"
مسیح الزمان : "حضور یہیں ہے۔ شہر بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اُس کا کلام سننے کو جانتے ہیں۔ اور بعض لوگ دعوت کے بہانے اپنے یہاں بُلوا کے اُس کا کلام سنتےہیں۔"
بادشاہ : (ملا عطاء الملک میر سامان کی طرف دیکھ کر) "تو اُسے اسی وقت بُلواؤ۔ مجھے اُس کے اشعار سننے کا بڑیا شوق ہے۔"
ملا صاحب جو بالذات فرید مانہ علمائے نامدار میں سے تھے۔ اور میر سامانی دواردغگی محل کے عہدے پر سرفراز تھے۔ "بہت خوب" کہہ کے باہر گئے۔ اور داتاؔ رام کے لانے کے لیے ایک ہرکارے کو دوڑا کے واپس آئے۔
اب جہاں پناہ نے سعیدؔ اے گیلانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا جب تک یہ ہندو برہمن آئے، تم کچھ اپنا کلام سُناؤ۔ مگر قصیدہ خوانی کی ضرورت نہیں اپنی غزلیں پڑھو۔"
سعیدؔ اے گیلانی نے اپنے اشعار سُنانا شروع کیے۔ جن کو بادشاہ دلچسپی اور شوق سے سُن رہے تھے۔ اکثر اشعا پر داد دیتے۔ اور پھر پڑھواتے۔ اس صحبت کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ معلوم ہوا داتاؔ رام آ گیا۔ ملا عطاءؔ الملک اُسے جا کے باہر سے لے آئے۔ وہ تخت کے سامنے آیا ہی تھا کہ نقیب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کڑک کے کہا "ادب سے ملاحظے سے!ؔ اور ساتھ ہی دوسرے نے آواز لگائی۔ "نگاہ روشن!" بادشاہ کی نظر اُس طرف اُٹھی۔ اور وہ نذر دکھانے کے لیے بڑھا۔ چوبداروں نے بڑھ کر دونوں بازو پکڑ ہیے۔ ایک نے بڑھ کے اپنا ہاتھ اُس کے دونوں ہاتھوں کے آگے اڑا دیا کہ زیادہ ہاتھ نہ بڑھا سکے۔ اس شان اور ہیات سے داتاؔ رام تخت کے قریب پہونچا۔ اور پانچ اشرفیاں پیس کیں۔ بادشاہ نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور وہ پلٹ کے امرائے درار کے آخر میں فاصلے پر
مینا بازار صفحہ 4
جا کھڑا ہوا۔
اب بادشاہ نے خندہ جبینی سے اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا "داتاؔ رام میں بہت دنوں سے تمہار نام سُن رہا ہوں۔ اور تمہارے دیکھنےکا شوق تھا۔ میرے قریب آ کے کھڑے ہو۔ اور اپنا کچھ کلام سُناؤ۔"
داتاؔ رام جھک کر آداب بجا لایا۔ حسب معمول زمین دوز ہو کے سات سلام کیے۔ اور تخت کے قریب آ کے سعد اللہ خان کے برابر کھڑا ہو گیا۔
اب اُس نے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ اُس کی طبیعت میں عاشقانہ جوش تھا۔ اور مذاق میں صوفیانہ رند مشربی۔ جس کو اُس زمانے کے قدردانان سخن بے انتہا پسند کرتے تھے۔ بادشاہ اُس کے اشعار سُن کے خوش ہوتے۔ جن اشعار پر زیادہ لطف آتا۔ آہستہ سے داد دیتے۔ کبھی سعدؔ اللہ خان وزیر کی طرف داد کی نگاہیں ڈال کے اُن سے بھی داد چاہتے۔ اور سارے دربار میں واہ وا کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔
بہت سے اشعار سُنانے کے بعد داتاؔ رام نے اپنا یہ شعر پڑھا۔
مراد لے است بہ کُفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بُردم و بازش برہمن آور دم
رُکنائے کاشی نے چونک کے بے اختیار کہا "وہ! وہ! چہ خوش گفتی۔ بارش بخوان" اُس نے دوبارہ پڑھا۔ اور اب جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ کا مزاج برہم اور کبیدہ خاطری سے سعدؔ اللہ خاں پر غیظ کی نگاہیں ڈال رہے ہیں۔ اس مذاق و خیال کو شعراے سلف خصوصاً صوفیوں نے فارسی میں بہت عام کر دیا ہے۔ مولاناے روم ملاؔ جامی اور دیگر اساتذۂ سخن کے کلام میں یہ خیال بہ کثرت موجود ہے۔ مگر ایک دیندار بادشاہ کو ایسی مذہبی آزادی سخت ناگوار کزری۔ یہی شعر اگر کسی مسلمان شاعر کی زبان سے سنا جاتا تو اُسے بہت داد ملتی، مگر ایک ہندو شاعر کی زبان سے مسلمان تاجدار کو ناگوار گزرا۔
مزاج شناس و حاظر طبع وزیر سعد اللہ خان نے مسکرا کے دست بستہ عرض کیا، "جہاں پناہ اس کا جواب تو حضرت مصلح الدین سعد شیرازی پہلے ہی دے گئے ہیں۔" بادشاہ "کیا جواب دے گئے ہیں؟"
مینا بازار صفحہ 5
سعد اللہ خان : "فرماتے ہیں۔
خر عیسیٰ اگر بمکہ روو
چوں بیاید ہنوز خر شد
یہ شعر سنتےہی بادشاہ پھڑک اُٹھے۔ وزیر کی حاضر جوابی کی داد دی۔ اور سارے دربار نے قہقہہ لگایا۔ داتاؔ رام کو ایک مسلمان بادشاہ کے سامنے ایسا شعر پڑھنے پر بہت ندامت ہوئی۔ اور سر جھکا کے خاموش کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ : (کمال شگفتگی کے ساتھ) "رُک کیوں گئے۔ کوئی اور غزل پڑھو۔" اس نے ساتھ سلام کرکے عفو تقصیر کی درخواست کی۔ اور پھر اپنا کلام سنانے لگا۔
دیر تک سنتے رہنے کے بعد بادشاہ نے اُسے خلعت ۔۔۔۔ کیا۔ ایک ہزار اشرفیاں عطا کیں۔ انعام و اکرام سے سرفراز ہو کر داتا" رام شکریہ کا آداب بجا لایا اور اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ اب علامی افضل خان نے جو ایک عہدہ دار دربار ہونے کے ساتھ فاضل گراں پایہ اور مقتداے دین سمجھتے جاتے تھے بارگاہ شاہی میں عرض کیا، داتاؔ رام حضرت عرش آشیانی (اکبر بادشاہ) کے عہد میں ہوتا تو بڑیا شخص ہوتا۔"
بادشاہ : (ہنس کر) "بے شک وہ اس کے سچے قدردان ہوتے۔ مگر شریعت اسلامیہ کی ایسی توہین تو اُنہیں بھی گوارا نہ ہوتی۔ اور ہندو عہدہ داروں اور بہادروں کی جسی قدر و منزلت اُ ن کے زمانے میں ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔"
افضل خان : "بے شک بلکہ اُس سے زیادہ بڑے بڑے عہدوں پر ممتازہیں۔ اپنی جاگیروں اور ریاستوں پر نہایت عزت کے ساتھ قابض و متصرف ہیں۔ فوجی افسروں میں اُن کا مرتہ اور شمار مسلمان سپہ سالاروں سے کم نہیں ہے۔ عرش آشیانی نے جو قرابت کے تعلقات ہندو راجاؤں کے ساتھ پیدا کیے تھے آج تک بڑھتے جاتے ہیں۔ اور پہلے ہندو اگر دربار کے معزز سردار تھے تو آج ہمارے قرابت دار اور عزیز ہیں۔"
بادشاہ : "اور مین ان تعلقات کو زیادہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سُن کر خوشی ہوتی ہے کہ راجستان میں عام ہندو مسلمانوں میں شادی بیاہ کا طریقہ جاری ہو گیا۔ جس کے باعث ہم ہندؤں سے اور ہندو ہم سے زیادہ قریب ہوتے جاتے ہیں۔
سعد اللہ خان : عرش آشیانی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہ تھا۔ کہا جاتا ہے۔
مینا بازار صفحہ 6
کہ اُنہیں ہندؤں سے زیادہ اُنس تھا۔ بے شک تھا۔ اور صرف اس کیے کہ وہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک خیال اور ایک دین پر کر دینا چاہتے تھے۔
افضل خان : اور اس میں بہت اندرونی اور گہرا راز یہ تھا کہ کوئی مسلمان چاہے ہندؤں کی کتنی ہی رسمیں اختیار کر لے اور اُن کے طریقوں پر چلنے لگے، ہندو نہیں ہو سکتا۔ بخلاف اس کے ہندو جب مسلمانوں سے ملے گا اُن کی وضع اختیار کرے گا خواہ مخواہ مسلمان ہو جائے گا۔ ہندو اپنے مذہب پر قائم ہیں مگر غیر مذہب والے کو ہندو نہیں بنا سکتے۔ اور مسلمان ہر فرد بشر کو اپنے دین میں شامل کرنے کو تیار ہیں۔ لہذا اس میں ذرا شک نہیں کہ دونوں گروہوں میں جتنا میل جول بڑھتا جائے گا، اُسی قدر مسلمانوں کا شمار زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہذا میرے خیال میں ان باتوں میں حضرت آشیانی کا اصلی مقصد اشاعت اسلام تھا۔
بادشاہ : میرا بھی یہی خیال ہے۔ بعض ناسمجھ مؤرخین نے ان کے دین اور عقائد پر حملے کیے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے جو تم نے کہی کہ اپنے اس طرز عمل سے وہ سارے ہندوستان کو مسلمان کر لینا چاہتے تھے۔ اور یہ انہیں کی برکت ہے کہ ہندوستان میں آج اتنے اہل اسلام موجود ہیں۔
سعد اللہ خان : اسی پر موقوف نہیں۔ اُنہوں نے جتنے کام کیے سب کسی بڑی مصلحت پر مبنیٰ تھے۔ مثلاً اُنہوں نے ایک مینا بازار قائم کیا۔ علماے ظاہر خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں مسلمان خاتونوں کی بے حُرمتی و رسوائی منظور تھی۔ لیکن حقیقت کا پتہ لگائیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں اُن کا اصلی مقصد یہ تھا کہ پردے میں میں رہنے والی عورتیں جو دنیا و مافیہا دے بے خبر ہیں اور قیدیوں کی طرح اپنے گھروں میں اکیلی پڑی رہتی ہیں ایک دوسرے سے ملیں جلیں۔ زمانے اور حالات زمانہ سے واقف ہوں۔ ہندو مسلمان عورتیں جو الگ تھلگ رہتی ہیں آپس میں مل جُل کے ایک دوسرے کے اوضاع و اطوار اختیار کریں۔ مسلمان خاتونیں
مینا بازار صفحہ 7
ہندو عورتوں کی شوہر پرستی و خود فراموشی سیکھیں۔ اور ہندو عورتیں مسلمان بیویوں سے شائستگی، خوش اخلاقی، وضعداری اور سلیقہ شعاری کا سبق لیں۔
افضل خان : اور میں کہتا ہوں کہ اس میں بھی تمام مصلحتوں کے دامن میں چھپی ہوئی سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں سے مل کے اُن کی دنیوی خوبیوں کے ساتھ اُن کا سچا دین اور اُن کی توحید و رسالت کو بھی سیکھ کے مسلمان ہو جائیں اور پھر اپنے اثر سے اپنے مردوں کو مسلمان بنا لیں۔
بادشاہ : یقیناً اس میں بھی عرش آشیانی کا یہی مقصد تھا کہ اسلام کو ترقی ہو۔ مگر یہ مینا بازار کیا تھا اور کیسا تھا، میں نے محل کی عورتوں میں بارہا اس کا ذکر سنا ہے۔ اور تمام عورتوں کو اُس کا شائق پاتا ہوں۔
سعد اللہ خان : یہ ایک زنانہ بازار تھا، جس میں تمام اُمرا و معززین کی عورتیں دُکانیں رکھ کے اپنے جواہرات اور دوسری نادر چیزیں فروخت کرتی تھیں۔ خود حضرت عرش آشیانی کل شہزادے، اور تمام امراے دربار اُس بازار میں جا کے خریداری کرتے اور عورتیں جو دام مانگتیں دیتے، مردوں کے علاوہ عام عورتیں بھی سیر و تفریح کے لیے اُس بازار میں آتیں اور عجیب لطف کا مجمع ہوتا۔
بادشاہ : تو عورتیں خریدار امیروں سے پردہ نہ کرتی تھیں؟
سعد اللہ خان : قدیم الایام سے شرفاے ترک و تاجیک اور عرب و عجم کے معززین میں یہ رواج چلا آتا ہے کہ بادشاہ ظل اللہ سب کے پدر مشفق مانے جاتے ہیں۔اور کوئی عورت اُن سے پردہ نہیں کرتی۔ رہے شاہزادے اور اُمراے دربار، اُن کے سامنے اُنہیں اختیار تھا کہ چاہیں تو چہرے پر زرتار نقاب ڈال لیں۔ لیکن اُنا جاتا ہے کہ عرش آشیانی کے مینا بازار میں کسی مسلمان عورت کے چہرے پر نقاب نہ تھی۔
بادشاہ : تو کیا تمام اُمرا و شرفا کی عورتیں آنے پر مجبور کی گئی تھیں؟
سعد اللہ خان : مجبور کوئی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر بازار کی شرکت میں بادشاہ کی خوشنودی کے علاوہ اس قدر زیادہ فائدے کی امید تھی کہ کوئی شریف گھرانا نہ تھا جس کی عورتیں نہ آئی ہوں۔ اور سیر دیکھنے کو عوام و خواص کی
مینا بازار صفحہ 8
سبھی عورتیں آتی تھیں۔
بادشاہ :اُس بازار کی وجہ سے لوگوں میں کوئی ناراضی اور شکایت تو نہیں پیدا ہوئی؟
سعد اللہ خان : مطلق نہیں۔ آج تک لوگ اس کو خوشی اور شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
بادشاہ : جی چاہتاہے کہ میرے زمانے میں بھی ایک ایسا بازار ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
سعد اللہ خان : بہت مناسب ہے۔ تمام خاندانوں میں زندہ دلی پیدا ہو جائے گی۔ اور چونکہ عورتوں میں اس کا بہت شوق ہے، اور حضرت عرش آشیانی کے عہد والے مینا بازار کے حالات کہانیوں کی طرح بین کیا کرتی ہیں، لہذا بہت خوش ہوں گی۔ اور نہایت شوق سے آئیں گی۔
بادشاہ : میں اپنے عہد کے مینا بازار کے لیے اُس کے مناسب ایک خاص عمارت تعمیر کراؤں گا تاکہ مدتوں کے لیے اُس کی بنیاد قائم ہو جائے اور ہر سال مناسب وقت پر چند روز تک یہ لطف قائم رہا کرے۔ لیکن چونکہ عورتوں کا معاملہ ہے اس لیے پہلے بادشاہ بیگم سے مشورہ کر لوں۔ اگر انہوں نے پسند کیا تو کل ہی سے اس کی عمارت تعمیر کرانا شروع کر دوں گا۔
سعد اللہ خان : اس عالی شان کام کو انہیں کے مبارک ہاتھوں سے انجام پانا چاہیے۔ بلکہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس بازار کو وہی اپنے حکم سے قائم کریں۔ اُن کا حکم ہوا تو ساری عورتیں بغیر کسی خرخشے کے چلی آئیں گی۔
بادشاہ : میں اُنہیں آمادہ کروں گا کہ اس مینا بازار کا اعلان اپنے حکم سے کریں اور اُنہیں کے حکم سے عمارت بھی تعمیر ہو۔
سعد اللہ خان : نہایت مناسب ہے۔
اب چونکہ دیر ہو گئی تھی لہذا حضرت جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لے گئے۔ اور اُمراے دولت نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
مینا بازار صفحہ 9
دوسرا باب
مینا بازار کی تجویز
اُسی دن شام کو حضرت صاحبقران ثانی شاہجہان بادشاہ اپنے خاص محل میں ایک طلائی تخت پر بیٹھے تھے۔ اور اُن کے برابر ملکہ جہان تاج محل ممتاز الزمانی ارجمند بانو بیگم بیٹھی تھیں۔ خواصیں اِدھر اُدھر دروازوں کے پاس خاموش کھڑی تھیں اور گوش برآواز تھیں کہ کوئی حکم ہو اور دوڑ کے بجا لائیں۔
تاج محل نہایت متین و سنجیدہ ملکہ تھیں۔ اگرچہ عمر پچاس سال سے گزر گئی تھی۔ مگر چہرے پر اگلے حُسن کی شوخیوں کی جگہ اب بلا کی متانت و سنجیدگی تھی۔ ہر امر میں اپنے صاحب طبل و علم شوہر کی مرضی پر چلتیں۔ اور ممکن نہ تھا کہ کبھی کسی بات میں اُن کے حکم کے خلاف کریں۔ اسی طرح صاحبقران ثانی کی بھی یہ حالت تھی کہ کوئی بات بغیر اُن سے پوچھے نہ کرتے۔ اور وجہ یہ تھی کہ نواب ممتاز محل صرف جوانانہ عشق و محبت کا کھلونہ نہ تھیں، بلکہ بادشاہ کے چاروں نامور و جوان بخت فرزندوں کی ماں تھیں۔ اور حضرت ظل اللہ کی محل کی زندگی پر پوری قابض و حکمران تھیں۔
بادشاہ کے چہرے سے علوم ہوتا تھا کہ کوئی بات کہنا چاہتے ہیں۔ مگر کسی مصلحت سے نہیں ظاہر کرتے۔ بات مُنہ تک آتی اور رُک جاتی ہے۔ اور اس گومگو میں ہیں کہ کہیں یا نہ کہیں۔ اس بات کو ممتاز الزمانی بیگم نے بھی محسوس کیا۔ مگر وہ بھی اس بلا کی عقلمند و ضابط تھیں کہ اپنی متانت میں فرق نہ آنے دیا۔ بلکہ حتی الامکان اس کو بادشاہ پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ میں نے صاحب تاج شوہر کے صفحۂ اول کی تحریر کا کچھ حصہ پڑھ لیا ہے۔
آخر بادشاہ دل کو مضبوط کر کے ملکہ کی طرف متوجہ ہوئے، کہا
مینا بازار صفحہ 10
بیگم، ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ مگر دیر سے پس و پیش کر رہا ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں؟
تاج محل : (سنجیدگی کے ساتھ) وہ نگوڑی کون سے بات ہے کہ جہاں پناہ کو اُس کے ظاہر کرنے میں تردد ہے؟ کیا کوئی سلطنت کا راز ہے جس کا اگلوں کی نصیحت کے مطابق عورتوں پر ظاہر کرنا مناسب نہیں؟
جہاں پناہ : (ہنس کر)، سلطنت کا کون سا راز تم سے چھپا ہے، جو اب میں کسی بات کو پردے میں رکھوں گا؟ اور تم جانتی ہو میں اس پُرانی نصیحت کا قائل بھی نہیں ہوں کہ کسی بات کو اپنی ہمدم و ہمراز بیوی سے چھپانا چاہیے۔
تاج محل : بے شک مجھے اقرار ہے کہ حضرت کسی گہرے سے گہرے راز کو بھی مجھ سے نہیں چھپاتے۔ مگر ممکن ہے کہ آج کل کسی نے اُس پُرانی حکمت و سصیحت کو ایسے الفاظ میں بیان کیا ہو کہ اب دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہو کہ عورت کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ یہ کہتے وقت باوجود فطری سنجیدگی کے ارجمند بانو بیگم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
جہاں پناہ : اب مجھے کوئی کیا بہکائے گا۔ اور سچ یہ ہے کہ اس پُرانی حکمت پر میں زندگی بھر کبھی عمل نہ کر سکوں گا۔ اور نہ مجھے یہ فصیحت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ انسان کی سچی اور سب سے زیادہ محرم راز اُس کی باوفا و ہمدم بیوی ہی ہوتی ہے۔ اُس سے اپنی باتوں کو تم سے چھپانے لگوں، تو گھر میں بیٹھنا دشوار ہو جائے۔ بلکہ کیا عجب کہ سڑی ہو جاؤںَ
بادشاہ کا یہ کلمہ سنتے ہی بے اختیار ارجمند بانو بیگم کی زبان سے نکلا، "خدا نہ کرے۔ نصیب دشمناں" پھر کہنے لگیں اور میں بھی آپ کی اسی وضع اور انہیں مہربانیوں سے اکثر اپنے دل میں کہا کرتی ہوں کہ دنیا کی کسی بادشاہ بیگم کو ایسا سچا اور سچی محبت والا شوہر نہ نصیب ہوا ہو گا جیسا کہ خوش قسمتی سے مجھے نصیب ہوا ہے۔ تو پرھ آپ ہی فرمائیں کہ اس وقت جو بات آپ کے دل میں ہے اُس کے ظاہر کرنے میں کس بات کا
مینا بازار صفحہ 11
تردد ہے۔
جہاں پناہ : یہ کہ تمہیں بدگمانی نہ ہو۔
تاج محل : (سراپا حیرت بن کر) تو وہ بدگمانی کی بات ہے؟
جہاں پناہ : ہونا تو نہ چاہیے۔ مگر ممکن ہے کہ تم بدگمان ہو۔ اور اسی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ خدا جانے تم اُسے منظور کرو گی یا نہیں؟
تاج محل : میری بدگمانی کا اندیشہ ہے۔ اور پھر اس کی ضرورت بھی ہے کہ وہ بات مجھ سے کہی جائے۔ میں تو جانتی ہوں کہ ایسی بات کو مجھ سے نہ کہنا چاہیے۔
جہاں پناہ : یہ نہیں ہو سکتا۔ اول تو میں تم سے چھپا کے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے وہ تو ایسا کام ہے کہ تمہارے ہی ہاتھ سے انجام پا سکتا ہے۔
تاج محل اچھا تو آپ کہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بدگمان نہ ہوں گی۔
جہاں پناہ بس میں یہی چاہتا تھا۔ تو اب سنو۔ جی چاہت اہے کہ دادا عرش آشیانی کی طرح ایک مینا بازار میں بھی قائم کروں۔ اور اس کا سارا انتظام تمہارے ہاتھ سے ہو۔ تم ماشاء اللہ سے نہایت عقلمند اور میری سب سے بڑی مشیر سلطنت ہو۔ اس قسم کے بازار سے پردہ نشین عورتوں میں میل جول بڑھے گا۔ وہ دنیا اور اُس کے کاروبار سے فائدہ اُٹھائیں گی۔ ہند و مسلمان خاتونوں میں ربط و ضبط بڑھے گا۔ اور پھر معزز بیویاں اس بازار سے فائدہ بھی بہت اُٹھائیں گی۔ بعض غریب گھرانوں کی عورتیں کیا عجب کہ اس بازار کے ذریعے دولتمند ہو جائیں۔پھر تمہیں بھی یہ بڑا فائدہ حاصل ہو گا کہ عام عورتوں کی وضع قطع مذاق و کردار سے خوب واقف ہو جاؤ گی۔ جس کا تمہیں بے حد شوق ہے۔
تاج محل : بے شک مجھےشوق ہے۔ اور عورتوں کے نفع کےلیے اس کو پسند بھی کرتی ہوں۔ مگر بہتر یہ ہوتا کہ یہ صرف زنانہ بازار ہوتا۔ دُکاندارنیں بھی عورتیں ہوتیں اور خریداری کرنے والی بھی عورتیں ہوتیں۔ عرش آشیانی کے زمانے کا مینا بازار مجھے پسند نہیں کہ پردے والی عورتوں میں بادشاہ اور اُن کے مصاحبین و اُمرا سب گھس پڑیں۔
جہاں پناہ : مگر حضرت عرش آشیانی نے اپنا مینا بازار بڑی مصلحت سے
مینا بازار صفحہ 12
کھولا تھا۔ اگر خود وہ اور اُن کے ہمراہی اُس بازار میں جا کے خریداری نہ کرتے تو عورتوں کو اتنا فائدہ ہرگز نہ ہوتا۔ اور عورتوں نے جس نفاست و سلیقہ شعاری سے اپنی دکانوں کو بادشاہ کے آنے کے شوق میں سنوارا اور آراستہ کیا تھا، یوں ہرگز نہ سنواریں گی۔
تاج محل : یہ سب فائدے ایک طرف اور یہ خرابی ایک طرف کہ عورتو اور مردوں کے ملنے سے بدکاری بڑھے گی۔ صدہا فتنے پیدا ہوں گے۔ کوئی غیر مرد کسی کی جورو پر فریفتہ ہو کر اُس کے شوہر کا دشمن ہو جائے گا اور اُس کو اُس کے گھر سے نکالنا چاہیے گا۔ کوئی عورت کسی غیر مرد کی شیفتہ ہو کر اپنے شوہر اور بچوں تک کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ ان باتوں سے جیسے جیسے فساد ہوں گے، وہ اُن ظاہری فائدوں سے بدرجہا زیادہ بڑے ہوئے ہوں گے۔
جہاں پناہ : بیگم تم نے برائیوں کی بہت ہی ناقابل برداشت تصویر میری آنکھوں کے سامنے بنا کے کھڑی کر دی۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت عرش آشیانی کے عہد میں اس بازار کی وجہ سے کوئی ایسی خرابی نہیں پیدا ہوئی تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہمارے شریفوں اور امیروں کی بیویاں ایسی نفس پرست و بدکار نہیں ہیں جیسا تم انہیں بتاتی ہو۔
تاج محل : کون جانتا ہے کہ خرابی نہیں پیدا ہوئی۔ صدہا فساد ہوئے ہوں گے مگر ایسی باتوں کو شریف لوگ جہاں تک ممکن ہوتا ہے دباتے اور چھپاتے ہیں۔ اور اس مینا بازار کا سب سے بڑا فساد تو سب ہی جانتے ہیں کہ اُسی کی بدولت حضرت جنت مکانی کے دل میں مہر النسا کا شوق پیدا ہوا۔ اُن کا شوہر شیر افگن خان جان سے گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہان بن گئیں۔
جہاں پناہ : (قہقہہ مار کے) یہ مینا بازار سے نہیں ہوا بلکہ جنت مکانی والد مرحوم کی رنگیلی طبیعت کا تقاضا تھا۔ اور ایسی باتیں کسی نہ کسی طریقے سے سب ہی بادشاہوں کو پیش آ جاتی ہیں۔
تاج محل : ہاں پیش آ جاتی ہیں۔ اور اس نئے مینا بازار سے آپ کو پیش آ جائیں تو۔
مینا بازار صفحہ 13
جہاں پناہ : دیکھو تم وعدہ کر چکی ہو کہ بدگمانی نہ کرو گی۔ اور تمہیں مجھ سے ایسی بدگمانی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تمہارے ہوتے ممکن نہیں کہ میں کسی عورت پر آنکھ ڈالوں۔ تم میرے دل و جان کی مالک ہو۔ سلطنت تمہارے اختیار میں ہے۔ اور میرے بعد تمہارا ہی بیٹا ہندوستان کا تاجدار ہو گا۔
تاج محل : ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میری زندگی آپ کے دم کے ساتھ ہے۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ میں کسی بیٹے کا زمانہ دیکھوں۔ میری پانچوں وقت کی نماز کے بعد یہی دعا رہتی ہے کہ آپ کے سامنے مروں اور آپ کے ہاتھوں ٹھکانے لگوں۔
جہاں پناہ : تمہاری چاہے یہ تمنا ہو، مگر میری زندگی بغیرتمہارے بے مزہ ہو جائے گی۔ مجھے سلطنت کا لطف صرف تمہارے وجہ سے آتا ہے۔ اب ان باتوں کو چھوڑو جن کا خیلا آنے سے دنیا بے کار اور بینا بے مزہ نظر آنے لگتا ہے۔ اور خیر اگر تم مینا بازار کو نہیں پسند کرتیں تو میں اُس کے خیال سے باز آ جاتا ہوں۔
تاج محل : (مُسکرا کے) میں فقط آپ کے چھیڑنے کے لیے کہتی تھی۔ ورنہ میرا تو یہ کا ہے کہ آپ کو جس چیز کا شوق ہو اُسے جس طرح بنے پورا کروں۔ جب اگلے دنوں جوانی میں آپ پر بدگمانی نہ ہوئی تو اب کیا ہو گی۔ اس مینا بازار کو شوق سے کھولیے۔ میں مانع نہیں ہوں۔
جہاں پناہ : مانع ہونا کیسا، میں تو چاہتا ہوں کہ میرے عہد کے مینا بازار کو تم ہی قائم کرو۔ تمہارے ہی طرف سے اس کا اعلان ہو۔ تمہارے ہی حکم سے شہر کے باہر اُس کی عمارت بنے۔ اور تم ہی اپنے ہاتھ سے اس کا افتتاح کرو۔
تاج محل : آپ کی خوشی کے لیے میں ان سب کاموں کے کرنےکو تیار ہوں۔ مگر مجھ سے وعدہ کیجیے کہ کسی عورت پر آپ بُری نگاہ نہ ڈالیں گے۔ شیطان انسان کے پاس ہی رہتا ہے اور ذرا بھی کمزوری پاتا ہے تو بہکا دیتا ہے۔ بازار کو سجا کے دولہن بنا دیا۔ اور ہر قسم کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دیان میرا کام ہے۔ مگر آپ کا یہ کام ہے کہ کسی خوبصورت عورت کو دیکھیں قدم کو لغزش نہ ہو۔ یہ وعدہ میں فقط اپنے لیے نہیں لیتی۔ میں تو جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی۔ اور کوئی آئے گی بھی تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے کہ میرے دل میں بہت کم
مینا بازار صفحہ 14
ہوسیں رہ گئی ہیں۔ میں یہ وعدہ آپ ہی کے بھلے کے لیے لیتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سے کسی عورت کو پردہ نہ کرنا چاہیے کس اطمینان پر کہا جاتا ہے؟َ اس اطمینان پر کہ بادشاہ ساری رعایا کا محافظ اور سب کی آبرو بچانے والا ہے۔ آپ اس بازار میں آئیں تو دل میں یہ خیال جما لکیں کہ ان عورتوں میں جتنی بڑھیاں ہیں آپ کی مائیں ہیں، جوانیں آپ کی بہنیں ہیں اور کنواری لڑکیاں آپ کی بیٹیاں ہیں۔
جہاں پناہ : میں اپنے ملک ی تمام عورتوں کو ہمیشہ ایسا ہی سمجھا کیا۔ اور اس مینا بازار میں تمہارے کہنے سے خاص طور پر اس کا خیال رکھوں گا۔
تاج محل : تو پھر اس مینا بازار کے بعد ساری رعایا میں آپ کا اعتبار اور بڑھ جائے گا۔
جہاں پناہ یہ تو پھر میری خواہش کے مطابق تم مینا بازار قائم کرنے کو تیار ہو؟
تاج محل : دل و جان سے اور مجھے یقین ہے کہ یہ بازار عورتوں کے لیے ایک بڑی بھاری نعمت ہو گا۔ اُن کو اس سے بہت فائدے پہونچیں گے۔
جہاں پناہ : تو پھر کل ہی اُس کی عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بازار کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے جاری ہو جائے۔ اور دنیا میں ہمیشہ کے لیے تمہاری یہ یادگار قائم رہے۔ یہ عمارت مستقل طور پر اسی کام کے لیے محفوظ رہے۔ اور ہر سال کسی مناسب موسم میں اس نیں زنانہ بازار لگا کرے۔
تاج محل : میں بھی ہر سال اس کے لیے خاص اہتمام کیا کروں گی۔ لیکن یہ بازار اُسی وقت تک ہے جب تک آپ سے یا آپ کے کسی شہزادے یا امیر سے کوئی بے اعتدالی نہ ظاہر ہو۔ اس لیے کہ اگر اس سے کوئی خرابی پیدا ہوئی تو پھر میں اُسے اچھا نہ کہوں گی۔ اور ہرگز نہ پسند کروں گی کہ دنیا میں کوئی بد اخلاقی کی چیز میرے یادگار سمجھی جائے۔
جہاں پناہ : ان شاء اللہ کوئی خرابی نہ ہو گی۔ اور جب میں خود احتیاط کروں گا اور نگرانی رکھوں گا تو کسی کی مجال نہیں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ ڈالے۔
مینا بازار صفحہ 15
تاج محل تو بہتر ہے۔ کل ہی میری طرف سے میر عمارت کو حکم دیدیجیے کہ اس عمارت کے لیے ایک اچھا اور مناسب نقشہ تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں۔ اور اسے بعد اتنی جلدی اس عمارت کو تیار کر کے کھڑا کر دیں کہ اب کی فصل بہار میں یہ بازار کھول دیا جائے۔
جہاں پناہ : میں بہت جلد اس عمارت کو تعمیر کرواؤں گا۔ اور اُس کا نقشہ تین ہی چار روز میں بن جائے گا۔
حضرت صاحبقران ثانی کے دل میں مینا بازار کا خیال اس طرح جم کے بیٹھ گیا تھا کہ راب بھر بار بار نیند اُچٹ جاتی۔ اور جب آنکھ کھلتی اُسی کا خیال ہوتا اور صبح کو نماز سے فارغ ہوتے ہین جب تک ممتاز الزمانی نواب تاج محل صاحبہ کی طرف سے اس عمارت کی تعمیر اور بہت جلد اُس کے نقسے کی تیاری کا حکم جاری کرا لیا، باہر دربار میں نہیں تشریف لائے۔
برآمد ہوتے ہی امراے دولت کو بُلوا کے ملکۂ زمانہ کے حکم سے آگاہ کیا۔ اور میر عمارت کو بلا کے حکم فرمایا کہ دو ہی تین دن کے اندر نقسہ بنا کے محتشم الیہا کے ملاحظے میں پیش کر دیں۔ ساتھ ہی اس کا بھی اعلان کرا دیا کہ "اب کی موسم بہار میں نواب ممتاز محل صاحبہ شہر کے باہر ایک نہایت عالیشان مینا بازار کھولیں گی۔ تمام ہندو مسلمان امرا و معززین کی بیویوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ چند ماہ پیشتر سےاس لیے اعلان کر دیا گیا کہ ملک کی تمام سلیقہ والی بیویاں اس بازار میں لانے کے قیمتی جواہرات اور اپنی دستکاری کی نادر چیزیں تیار کر لیں۔ اور دوسرے شہروں اور صوبوں کی جو خاتونیں آنا چاہیں وہ سفر کے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس بازار میں ملک کی ہنر والی عورتوں کو دولت حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع ہے۔ اس کیے کہ مُنہ مانگے دام دیئے جائیں گے۔ جس تاریخ بازار کھولا جائے گا، اُس سے بعد اطلاع دیجائے گی۔
اس اعلان کے ہوتے ہی تمام گھروں میں ایک عجیب جوش و شوق کے مطابق فروخت کرنے کی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ امر گھرانوں کی عورتیں اپنے
مینا بازار صفحہ 16
وضع و لباس کے متعلق طرح طرح کی تراش خراش اور ایجادیں کرنے لگیں۔
تیسرا باب
اُس کی تعمیر و تزئین
تیسرے ہی روز مینا بازار کی عمارت کا نقشہ ملکۂ زمانہ نواب ارجمند بانو بیگم کے ملاحظہ میں پیش ہوا۔ بادشاہ اور بادشاہ بیگم نے اُس پر خوب غور کیا۔ محل کی مرزز و نفیس مزاج عورتوں اور بعض وزرا و امرا کی بیگموں کو بھی دکھا کے مشورہ لیا۔ اور ایک ہی ہفتہ کے اندر مناسب ترمیموں کے بعد وہ نقشہ میر عمارت کو واپس دیا گیا کہ اسی کے مناسب عالیشان عمارت بہت جلد تعمیر کرا دیں۔
اب حضرت جہاں پناہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ میں دو تین بار بذات خود تشریف لے جا کے ملاحظہ فرماتے کہ عمارت کتنی بنی اور کس عجلت کے ساتھ تعمیر کا کام جاری ہے۔ محل کے اندر ہوتے تو اکثر تاج محل صاحبہ سے اسی مینا بازار کا تذکرہ رہتا۔ اُس کی آراستگی اور زیب و زینت کی چیزوں پر غور کیا جاتا۔
تقریباً تین مہینے میں عمارت مکمل ہو گئی۔ اور ساتھ ہی اُس کی سجاوٹ بھی ہو گئی۔ ڈیوڑھی کی جگہ ایک بہت بڑا وسیع احاطہ رکھا گیا تھا۔ جس کے ہاتھ گھوڑے رتھیں بہلین اور ہر قسم کی سواریاں بہت آسانی سے جا سکیں۔ احاطے کے گردا گرد تقریباً سو سوا سو کوٹھریاں تھیں، جو اس مقصد سے بنائی گئی تھیں کہ اُن میں رتھیں اور گاڑیاں رکھی جائیں۔ بیل یا گھوڑے باندھے جائیں۔ داخل ہونے کے دروازے کے پاس اندر کی طرف فیل خانہ کے طور پر بہت بلند مکانات تھے۔ تاکہ ان میں ہاتھ باندھے جائیں۔ غرض جو عالیمرتبہ شاہزادیاں اور بیگمیں آئیں ان کی سواریوں کے ٹھہرانے اور رکھنے کے لیے یہ احاطہ کافی تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلا باب
دربار شاہجہانی
دولت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ شاہجہان بادشاہ دیوان خاص میں اپنے عدیم النظیر سریر شہریاری یعنی تخت طاؤسی پر جلوہ فرما ہے۔ مرصع تخت کے سونے کی آب و تاب اور اُس کے جواہرات کے چمک دمک اہل دربار کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ اور ان کا عکس علیؔ مروان خان کی نہر کے نزاکت سے بہنے والے پانی پر عجیب عجیب شوخیوں اور بیقراریوں کا انداہ دکھا رہا ہے۔
سامنے اُمرائے دربار لمبے دامنوں کے جامے پہنے چھجے دار پگڑیاں باندھے، کمروں میں تلواریں اور پٹکوں میں پیش قبض لگائے دست بستہ کھڑے ہیں۔ جن میں زیادہ ممتاز سعد اللہ خان وزیر سلطنت، حکیم رُکنائے کاشی، سعید اے گیلانی، حکیم مسیح الزمان علامی افضل خان جو بڑے عالم تھے اور مُلا علاء الملک تولی میر سامان ہیں۔
اتنے میں حکیم رکنائے کاشی بڑھ کے زمین بوس ہوئے اور کمال خوش الحانی سے اپنا ایک نو تصنیف قصیدہ سُنانے لگے۔ حاضرین داد دیتے
مینا بازار صفحہ 2
جاتے تھے۔ اور بادشاہ جہاں پناہ جن میں دینداری نے نہایت سادگی اور بے نفسی پیدا کر دی تھی، اگرچہ اپنے چشم و ابرو سے اور آہستہ آہستہ زبان سے بھی شاعر کی طباعی و سخن آفرینی کی داد دے رہے تھے مگر ساتھ ہی اپنی تعریف سننے سے نادم بھی ہوتے جاتے تھے۔ فرشتۂ ہدایت اُن کے کان میں کہتا کہ تعریف کے قابل صرف خداے واحد ذوالجلال کی ذات ہے، اور زیادہ نام ہو جاتے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ ادھر رُکناے کاشی نے قصیدہ ختم کیا، ادھر شاہجہان تخت ہی پر خدا کے سامنے سجدے میں گر پڑا۔ اور درگاہ خداوندی میں عرض کیا الہٰ العالمین۔ میں کسی قابل نہیں ہوں۔ مگر تیری رحمت و بندہ نوازی ہے کہ مجھے ایسی عزت و حکومت عطا کی کہ یہ شعرا میری مدح سرائی کر رہے ہیں۔
اب بادشاہ نے سجدے سے سر اُٹھا کے حکم فرمایا کہ روکناے کاشی کو سونے میں تول کے سونا اُس کے حوالے کرو۔ وہ سونے میں تُل رہا تھا اور بادشاہ کہہ رہا تھا "الحمد اللہ کہ ہمارے دربار میں ایسے ایسے نازک طبع و خیال آفرین شاعر موجود ہیں جیسے اور کسی دربار میں نہیں ہیں۔
اس پر علامی افضل خان نے جو اپنے زمانے کے علمائے بے بدل میں سے تھے، ہاتھ جوڑ کے عرض کیا، ہندوستان میں اور دربار ہی کون ہے جو اس آستان فلک توامان کا مقابلہ کر سکے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ آج ممالک فارس و خراسان میں بھی کوئی ایسا صاحب کمال شاعر نہیں موجود ہے جس کو ایران کی دولت صفویہ ہمارے سامنے پیش کر سکے۔ وہاں جو شاعر شہرت و نمود حاصل کرتا ہے، وطن چھوڑ کے یہاں چلا آتا ہے۔ اور اگرچہ ہمارے ملک کی عام زبان فارسی نہیں ہے۔ مگر اس دربار گُہر بار کی اقبالمندی نے ہمیں شعر و سخن میں اہل زبان پر فوقیت عطا کر دی ہے۔
حکیم مسیح الزمان : ہمارے دربار کی علم و فضل اور ہمارے شعرا کے کمالات نے ہند کو زمین عجم بنا دیا ہے۔ ایران کے آئے ہوئے شعرا اور ہندی مسلمانوں کی سخن سنجی درکنار یہاں بعض ہندو ایسے خوش گو شاعر ہیں کہ دربار عجم کے شعرا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ داتا رام جو برہمن تخلص کرتا ہے فی الحال دہلی میں موجود ہے۔
مینا بازار صفحہ 3
فارسی کا ایسا اچھا شاعر ہے کہ اُس کا کلام سُن کر کوئی بے داد دیے نہیں رہ سکتا۔ بے اختیار زبان سے واہ نکل جاتی ہے۔
یہ سنتے ہی بادشاہ جو تکیے سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا سیدھا ہوا اور کہا ہاںمیں نے بھی برہمن کی بڑی تعریف سُنی ہے۔ کیا آج کل وہ یہیں ہے؟"
مسیح الزمان : "حضور یہیں ہے۔ شہر بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اُس کا کلام سننے کو جانتے ہیں۔ اور بعض لوگ دعوت کے بہانے اپنے یہاں بُلوا کے اُس کا کلام سنتےہیں۔"
بادشاہ : (ملا عطاء الملک میر سامان کی طرف دیکھ کر) "تو اُسے اسی وقت بُلواؤ۔ مجھے اُس کے اشعار سننے کا بڑیا شوق ہے۔"
ملا صاحب جو بالذات فرید مانہ علمائے نامدار میں سے تھے۔ اور میر سامانی دواردغگی محل کے عہدے پر سرفراز تھے۔ "بہت خوب" کہہ کے باہر گئے۔ اور داتاؔ رام کے لانے کے لیے ایک ہرکارے کو دوڑا کے واپس آئے۔
اب جہاں پناہ نے سعیدؔ اے گیلانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا جب تک یہ ہندو برہمن آئے، تم کچھ اپنا کلام سُناؤ۔ مگر قصیدہ خوانی کی ضرورت نہیں اپنی غزلیں پڑھو۔"
سعیدؔ اے گیلانی نے اپنے اشعار سُنانا شروع کیے۔ جن کو بادشاہ دلچسپی اور شوق سے سُن رہے تھے۔ اکثر اشعا پر داد دیتے۔ اور پھر پڑھواتے۔ اس صحبت کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ معلوم ہوا داتاؔ رام آ گیا۔ ملا عطاءؔ الملک اُسے جا کے باہر سے لے آئے۔ وہ تخت کے سامنے آیا ہی تھا کہ نقیب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کڑک کے کہا "ادب سے ملاحظے سے!ؔ اور ساتھ ہی دوسرے نے آواز لگائی۔ "نگاہ روشن!" بادشاہ کی نظر اُس طرف اُٹھی۔ اور وہ نذر دکھانے کے لیے بڑھا۔ چوبداروں نے بڑھ کر دونوں بازو پکڑ ہیے۔ ایک نے بڑھ کے اپنا ہاتھ اُس کے دونوں ہاتھوں کے آگے اڑا دیا کہ زیادہ ہاتھ نہ بڑھا سکے۔ اس شان اور ہیات سے داتاؔ رام تخت کے قریب پہونچا۔ اور پانچ اشرفیاں پیس کیں۔ بادشاہ نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور وہ پلٹ کے امرائے درار کے آخر میں فاصلے پر
مینا بازار صفحہ 4
جا کھڑا ہوا۔
اب بادشاہ نے خندہ جبینی سے اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا "داتاؔ رام میں بہت دنوں سے تمہار نام سُن رہا ہوں۔ اور تمہارے دیکھنےکا شوق تھا۔ میرے قریب آ کے کھڑے ہو۔ اور اپنا کچھ کلام سُناؤ۔"
داتاؔ رام جھک کر آداب بجا لایا۔ حسب معمول زمین دوز ہو کے سات سلام کیے۔ اور تخت کے قریب آ کے سعد اللہ خان کے برابر کھڑا ہو گیا۔
اب اُس نے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ اُس کی طبیعت میں عاشقانہ جوش تھا۔ اور مذاق میں صوفیانہ رند مشربی۔ جس کو اُس زمانے کے قدردانان سخن بے انتہا پسند کرتے تھے۔ بادشاہ اُس کے اشعار سُن کے خوش ہوتے۔ جن اشعار پر زیادہ لطف آتا۔ آہستہ سے داد دیتے۔ کبھی سعدؔ اللہ خان وزیر کی طرف داد کی نگاہیں ڈال کے اُن سے بھی داد چاہتے۔ اور سارے دربار میں واہ وا کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔
بہت سے اشعار سُنانے کے بعد داتاؔ رام نے اپنا یہ شعر پڑھا۔
مراد لے است بہ کُفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بُردم و بازش برہمن آور دم
رُکنائے کاشی نے چونک کے بے اختیار کہا "وہ! وہ! چہ خوش گفتی۔ بارش بخوان" اُس نے دوبارہ پڑھا۔ اور اب جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ کا مزاج برہم اور کبیدہ خاطری سے سعدؔ اللہ خاں پر غیظ کی نگاہیں ڈال رہے ہیں۔ اس مذاق و خیال کو شعراے سلف خصوصاً صوفیوں نے فارسی میں بہت عام کر دیا ہے۔ مولاناے روم ملاؔ جامی اور دیگر اساتذۂ سخن کے کلام میں یہ خیال بہ کثرت موجود ہے۔ مگر ایک دیندار بادشاہ کو ایسی مذہبی آزادی سخت ناگوار کزری۔ یہی شعر اگر کسی مسلمان شاعر کی زبان سے سنا جاتا تو اُسے بہت داد ملتی، مگر ایک ہندو شاعر کی زبان سے مسلمان تاجدار کو ناگوار گزرا۔
مزاج شناس و حاظر طبع وزیر سعد اللہ خان نے مسکرا کے دست بستہ عرض کیا، "جہاں پناہ اس کا جواب تو حضرت مصلح الدین سعد شیرازی پہلے ہی دے گئے ہیں۔" بادشاہ "کیا جواب دے گئے ہیں؟"
مینا بازار صفحہ 5
سعد اللہ خان : "فرماتے ہیں۔
خر عیسیٰ اگر بمکہ روو
چوں بیاید ہنوز خر شد
یہ شعر سنتےہی بادشاہ پھڑک اُٹھے۔ وزیر کی حاضر جوابی کی داد دی۔ اور سارے دربار نے قہقہہ لگایا۔ داتاؔ رام کو ایک مسلمان بادشاہ کے سامنے ایسا شعر پڑھنے پر بہت ندامت ہوئی۔ اور سر جھکا کے خاموش کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ : (کمال شگفتگی کے ساتھ) "رُک کیوں گئے۔ کوئی اور غزل پڑھو۔" اس نے ساتھ سلام کرکے عفو تقصیر کی درخواست کی۔ اور پھر اپنا کلام سنانے لگا۔
دیر تک سنتے رہنے کے بعد بادشاہ نے اُسے خلعت ۔۔۔۔ کیا۔ ایک ہزار اشرفیاں عطا کیں۔ انعام و اکرام سے سرفراز ہو کر داتا" رام شکریہ کا آداب بجا لایا اور اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ اب علامی افضل خان نے جو ایک عہدہ دار دربار ہونے کے ساتھ فاضل گراں پایہ اور مقتداے دین سمجھتے جاتے تھے بارگاہ شاہی میں عرض کیا، داتاؔ رام حضرت عرش آشیانی (اکبر بادشاہ) کے عہد میں ہوتا تو بڑیا شخص ہوتا۔"
بادشاہ : (ہنس کر) "بے شک وہ اس کے سچے قدردان ہوتے۔ مگر شریعت اسلامیہ کی ایسی توہین تو اُنہیں بھی گوارا نہ ہوتی۔ اور ہندو عہدہ داروں اور بہادروں کی جسی قدر و منزلت اُ ن کے زمانے میں ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔"
افضل خان : "بے شک بلکہ اُس سے زیادہ بڑے بڑے عہدوں پر ممتازہیں۔ اپنی جاگیروں اور ریاستوں پر نہایت عزت کے ساتھ قابض و متصرف ہیں۔ فوجی افسروں میں اُن کا مرتہ اور شمار مسلمان سپہ سالاروں سے کم نہیں ہے۔ عرش آشیانی نے جو قرابت کے تعلقات ہندو راجاؤں کے ساتھ پیدا کیے تھے آج تک بڑھتے جاتے ہیں۔ اور پہلے ہندو اگر دربار کے معزز سردار تھے تو آج ہمارے قرابت دار اور عزیز ہیں۔"
بادشاہ : "اور مین ان تعلقات کو زیادہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سُن کر خوشی ہوتی ہے کہ راجستان میں عام ہندو مسلمانوں میں شادی بیاہ کا طریقہ جاری ہو گیا۔ جس کے باعث ہم ہندؤں سے اور ہندو ہم سے زیادہ قریب ہوتے جاتے ہیں۔
سعد اللہ خان : عرش آشیانی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہ تھا۔ کہا جاتا ہے۔
مینا بازار صفحہ 6
کہ اُنہیں ہندؤں سے زیادہ اُنس تھا۔ بے شک تھا۔ اور صرف اس کیے کہ وہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک خیال اور ایک دین پر کر دینا چاہتے تھے۔
افضل خان : اور اس میں بہت اندرونی اور گہرا راز یہ تھا کہ کوئی مسلمان چاہے ہندؤں کی کتنی ہی رسمیں اختیار کر لے اور اُن کے طریقوں پر چلنے لگے، ہندو نہیں ہو سکتا۔ بخلاف اس کے ہندو جب مسلمانوں سے ملے گا اُن کی وضع اختیار کرے گا خواہ مخواہ مسلمان ہو جائے گا۔ ہندو اپنے مذہب پر قائم ہیں مگر غیر مذہب والے کو ہندو نہیں بنا سکتے۔ اور مسلمان ہر فرد بشر کو اپنے دین میں شامل کرنے کو تیار ہیں۔ لہذا اس میں ذرا شک نہیں کہ دونوں گروہوں میں جتنا میل جول بڑھتا جائے گا، اُسی قدر مسلمانوں کا شمار زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہذا میرے خیال میں ان باتوں میں حضرت آشیانی کا اصلی مقصد اشاعت اسلام تھا۔
بادشاہ : میرا بھی یہی خیال ہے۔ بعض ناسمجھ مؤرخین نے ان کے دین اور عقائد پر حملے کیے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے جو تم نے کہی کہ اپنے اس طرز عمل سے وہ سارے ہندوستان کو مسلمان کر لینا چاہتے تھے۔ اور یہ انہیں کی برکت ہے کہ ہندوستان میں آج اتنے اہل اسلام موجود ہیں۔
سعد اللہ خان : اسی پر موقوف نہیں۔ اُنہوں نے جتنے کام کیے سب کسی بڑی مصلحت پر مبنیٰ تھے۔ مثلاً اُنہوں نے ایک مینا بازار قائم کیا۔ علماے ظاہر خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں مسلمان خاتونوں کی بے حُرمتی و رسوائی منظور تھی۔ لیکن حقیقت کا پتہ لگائیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں اُن کا اصلی مقصد یہ تھا کہ پردے میں میں رہنے والی عورتیں جو دنیا و مافیہا دے بے خبر ہیں اور قیدیوں کی طرح اپنے گھروں میں اکیلی پڑی رہتی ہیں ایک دوسرے سے ملیں جلیں۔ زمانے اور حالات زمانہ سے واقف ہوں۔ ہندو مسلمان عورتیں جو الگ تھلگ رہتی ہیں آپس میں مل جُل کے ایک دوسرے کے اوضاع و اطوار اختیار کریں۔ مسلمان خاتونیں
مینا بازار صفحہ 7
ہندو عورتوں کی شوہر پرستی و خود فراموشی سیکھیں۔ اور ہندو عورتیں مسلمان بیویوں سے شائستگی، خوش اخلاقی، وضعداری اور سلیقہ شعاری کا سبق لیں۔
افضل خان : اور میں کہتا ہوں کہ اس میں بھی تمام مصلحتوں کے دامن میں چھپی ہوئی سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں سے مل کے اُن کی دنیوی خوبیوں کے ساتھ اُن کا سچا دین اور اُن کی توحید و رسالت کو بھی سیکھ کے مسلمان ہو جائیں اور پھر اپنے اثر سے اپنے مردوں کو مسلمان بنا لیں۔
بادشاہ : یقیناً اس میں بھی عرش آشیانی کا یہی مقصد تھا کہ اسلام کو ترقی ہو۔ مگر یہ مینا بازار کیا تھا اور کیسا تھا، میں نے محل کی عورتوں میں بارہا اس کا ذکر سنا ہے۔ اور تمام عورتوں کو اُس کا شائق پاتا ہوں۔
سعد اللہ خان : یہ ایک زنانہ بازار تھا، جس میں تمام اُمرا و معززین کی عورتیں دُکانیں رکھ کے اپنے جواہرات اور دوسری نادر چیزیں فروخت کرتی تھیں۔ خود حضرت عرش آشیانی کل شہزادے، اور تمام امراے دربار اُس بازار میں جا کے خریداری کرتے اور عورتیں جو دام مانگتیں دیتے، مردوں کے علاوہ عام عورتیں بھی سیر و تفریح کے لیے اُس بازار میں آتیں اور عجیب لطف کا مجمع ہوتا۔
بادشاہ : تو عورتیں خریدار امیروں سے پردہ نہ کرتی تھیں؟
سعد اللہ خان : قدیم الایام سے شرفاے ترک و تاجیک اور عرب و عجم کے معززین میں یہ رواج چلا آتا ہے کہ بادشاہ ظل اللہ سب کے پدر مشفق مانے جاتے ہیں۔اور کوئی عورت اُن سے پردہ نہیں کرتی۔ رہے شاہزادے اور اُمراے دربار، اُن کے سامنے اُنہیں اختیار تھا کہ چاہیں تو چہرے پر زرتار نقاب ڈال لیں۔ لیکن اُنا جاتا ہے کہ عرش آشیانی کے مینا بازار میں کسی مسلمان عورت کے چہرے پر نقاب نہ تھی۔
بادشاہ : تو کیا تمام اُمرا و شرفا کی عورتیں آنے پر مجبور کی گئی تھیں؟
سعد اللہ خان : مجبور کوئی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر بازار کی شرکت میں بادشاہ کی خوشنودی کے علاوہ اس قدر زیادہ فائدے کی امید تھی کہ کوئی شریف گھرانا نہ تھا جس کی عورتیں نہ آئی ہوں۔ اور سیر دیکھنے کو عوام و خواص کی
مینا بازار صفحہ 8
سبھی عورتیں آتی تھیں۔
بادشاہ :اُس بازار کی وجہ سے لوگوں میں کوئی ناراضی اور شکایت تو نہیں پیدا ہوئی؟
سعد اللہ خان : مطلق نہیں۔ آج تک لوگ اس کو خوشی اور شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
بادشاہ : جی چاہتاہے کہ میرے زمانے میں بھی ایک ایسا بازار ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
سعد اللہ خان : بہت مناسب ہے۔ تمام خاندانوں میں زندہ دلی پیدا ہو جائے گی۔ اور چونکہ عورتوں میں اس کا بہت شوق ہے، اور حضرت عرش آشیانی کے عہد والے مینا بازار کے حالات کہانیوں کی طرح بین کیا کرتی ہیں، لہذا بہت خوش ہوں گی۔ اور نہایت شوق سے آئیں گی۔
بادشاہ : میں اپنے عہد کے مینا بازار کے لیے اُس کے مناسب ایک خاص عمارت تعمیر کراؤں گا تاکہ مدتوں کے لیے اُس کی بنیاد قائم ہو جائے اور ہر سال مناسب وقت پر چند روز تک یہ لطف قائم رہا کرے۔ لیکن چونکہ عورتوں کا معاملہ ہے اس لیے پہلے بادشاہ بیگم سے مشورہ کر لوں۔ اگر انہوں نے پسند کیا تو کل ہی سے اس کی عمارت تعمیر کرانا شروع کر دوں گا۔
سعد اللہ خان : اس عالی شان کام کو انہیں کے مبارک ہاتھوں سے انجام پانا چاہیے۔ بلکہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس بازار کو وہی اپنے حکم سے قائم کریں۔ اُن کا حکم ہوا تو ساری عورتیں بغیر کسی خرخشے کے چلی آئیں گی۔
بادشاہ : میں اُنہیں آمادہ کروں گا کہ اس مینا بازار کا اعلان اپنے حکم سے کریں اور اُنہیں کے حکم سے عمارت بھی تعمیر ہو۔
سعد اللہ خان : نہایت مناسب ہے۔
اب چونکہ دیر ہو گئی تھی لہذا حضرت جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لے گئے۔ اور اُمراے دولت نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
مینا بازار صفحہ 9
دوسرا باب
مینا بازار کی تجویز
اُسی دن شام کو حضرت صاحبقران ثانی شاہجہان بادشاہ اپنے خاص محل میں ایک طلائی تخت پر بیٹھے تھے۔ اور اُن کے برابر ملکہ جہان تاج محل ممتاز الزمانی ارجمند بانو بیگم بیٹھی تھیں۔ خواصیں اِدھر اُدھر دروازوں کے پاس خاموش کھڑی تھیں اور گوش برآواز تھیں کہ کوئی حکم ہو اور دوڑ کے بجا لائیں۔
تاج محل نہایت متین و سنجیدہ ملکہ تھیں۔ اگرچہ عمر پچاس سال سے گزر گئی تھی۔ مگر چہرے پر اگلے حُسن کی شوخیوں کی جگہ اب بلا کی متانت و سنجیدگی تھی۔ ہر امر میں اپنے صاحب طبل و علم شوہر کی مرضی پر چلتیں۔ اور ممکن نہ تھا کہ کبھی کسی بات میں اُن کے حکم کے خلاف کریں۔ اسی طرح صاحبقران ثانی کی بھی یہ حالت تھی کہ کوئی بات بغیر اُن سے پوچھے نہ کرتے۔ اور وجہ یہ تھی کہ نواب ممتاز محل صرف جوانانہ عشق و محبت کا کھلونہ نہ تھیں، بلکہ بادشاہ کے چاروں نامور و جوان بخت فرزندوں کی ماں تھیں۔ اور حضرت ظل اللہ کی محل کی زندگی پر پوری قابض و حکمران تھیں۔
بادشاہ کے چہرے سے علوم ہوتا تھا کہ کوئی بات کہنا چاہتے ہیں۔ مگر کسی مصلحت سے نہیں ظاہر کرتے۔ بات مُنہ تک آتی اور رُک جاتی ہے۔ اور اس گومگو میں ہیں کہ کہیں یا نہ کہیں۔ اس بات کو ممتاز الزمانی بیگم نے بھی محسوس کیا۔ مگر وہ بھی اس بلا کی عقلمند و ضابط تھیں کہ اپنی متانت میں فرق نہ آنے دیا۔ بلکہ حتی الامکان اس کو بادشاہ پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ میں نے صاحب تاج شوہر کے صفحۂ اول کی تحریر کا کچھ حصہ پڑھ لیا ہے۔
آخر بادشاہ دل کو مضبوط کر کے ملکہ کی طرف متوجہ ہوئے، کہا
مینا بازار صفحہ 10
بیگم، ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ مگر دیر سے پس و پیش کر رہا ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں؟
تاج محل : (سنجیدگی کے ساتھ) وہ نگوڑی کون سے بات ہے کہ جہاں پناہ کو اُس کے ظاہر کرنے میں تردد ہے؟ کیا کوئی سلطنت کا راز ہے جس کا اگلوں کی نصیحت کے مطابق عورتوں پر ظاہر کرنا مناسب نہیں؟
جہاں پناہ : (ہنس کر)، سلطنت کا کون سا راز تم سے چھپا ہے، جو اب میں کسی بات کو پردے میں رکھوں گا؟ اور تم جانتی ہو میں اس پُرانی نصیحت کا قائل بھی نہیں ہوں کہ کسی بات کو اپنی ہمدم و ہمراز بیوی سے چھپانا چاہیے۔
تاج محل : بے شک مجھے اقرار ہے کہ حضرت کسی گہرے سے گہرے راز کو بھی مجھ سے نہیں چھپاتے۔ مگر ممکن ہے کہ آج کل کسی نے اُس پُرانی حکمت و سصیحت کو ایسے الفاظ میں بیان کیا ہو کہ اب دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہو کہ عورت کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ یہ کہتے وقت باوجود فطری سنجیدگی کے ارجمند بانو بیگم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
جہاں پناہ : اب مجھے کوئی کیا بہکائے گا۔ اور سچ یہ ہے کہ اس پُرانی حکمت پر میں زندگی بھر کبھی عمل نہ کر سکوں گا۔ اور نہ مجھے یہ فصیحت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ انسان کی سچی اور سب سے زیادہ محرم راز اُس کی باوفا و ہمدم بیوی ہی ہوتی ہے۔ اُس سے اپنی باتوں کو تم سے چھپانے لگوں، تو گھر میں بیٹھنا دشوار ہو جائے۔ بلکہ کیا عجب کہ سڑی ہو جاؤںَ
بادشاہ کا یہ کلمہ سنتے ہی بے اختیار ارجمند بانو بیگم کی زبان سے نکلا، "خدا نہ کرے۔ نصیب دشمناں" پھر کہنے لگیں اور میں بھی آپ کی اسی وضع اور انہیں مہربانیوں سے اکثر اپنے دل میں کہا کرتی ہوں کہ دنیا کی کسی بادشاہ بیگم کو ایسا سچا اور سچی محبت والا شوہر نہ نصیب ہوا ہو گا جیسا کہ خوش قسمتی سے مجھے نصیب ہوا ہے۔ تو پرھ آپ ہی فرمائیں کہ اس وقت جو بات آپ کے دل میں ہے اُس کے ظاہر کرنے میں کس بات کا
مینا بازار صفحہ 11
تردد ہے۔
جہاں پناہ : یہ کہ تمہیں بدگمانی نہ ہو۔
تاج محل : (سراپا حیرت بن کر) تو وہ بدگمانی کی بات ہے؟
جہاں پناہ : ہونا تو نہ چاہیے۔ مگر ممکن ہے کہ تم بدگمان ہو۔ اور اسی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ خدا جانے تم اُسے منظور کرو گی یا نہیں؟
تاج محل : میری بدگمانی کا اندیشہ ہے۔ اور پھر اس کی ضرورت بھی ہے کہ وہ بات مجھ سے کہی جائے۔ میں تو جانتی ہوں کہ ایسی بات کو مجھ سے نہ کہنا چاہیے۔
جہاں پناہ : یہ نہیں ہو سکتا۔ اول تو میں تم سے چھپا کے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے وہ تو ایسا کام ہے کہ تمہارے ہی ہاتھ سے انجام پا سکتا ہے۔
تاج محل اچھا تو آپ کہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بدگمان نہ ہوں گی۔
جہاں پناہ بس میں یہی چاہتا تھا۔ تو اب سنو۔ جی چاہت اہے کہ دادا عرش آشیانی کی طرح ایک مینا بازار میں بھی قائم کروں۔ اور اس کا سارا انتظام تمہارے ہاتھ سے ہو۔ تم ماشاء اللہ سے نہایت عقلمند اور میری سب سے بڑی مشیر سلطنت ہو۔ اس قسم کے بازار سے پردہ نشین عورتوں میں میل جول بڑھے گا۔ وہ دنیا اور اُس کے کاروبار سے فائدہ اُٹھائیں گی۔ ہند و مسلمان خاتونوں میں ربط و ضبط بڑھے گا۔ اور پھر معزز بیویاں اس بازار سے فائدہ بھی بہت اُٹھائیں گی۔ بعض غریب گھرانوں کی عورتیں کیا عجب کہ اس بازار کے ذریعے دولتمند ہو جائیں۔پھر تمہیں بھی یہ بڑا فائدہ حاصل ہو گا کہ عام عورتوں کی وضع قطع مذاق و کردار سے خوب واقف ہو جاؤ گی۔ جس کا تمہیں بے حد شوق ہے۔
تاج محل : بے شک مجھےشوق ہے۔ اور عورتوں کے نفع کےلیے اس کو پسند بھی کرتی ہوں۔ مگر بہتر یہ ہوتا کہ یہ صرف زنانہ بازار ہوتا۔ دُکاندارنیں بھی عورتیں ہوتیں اور خریداری کرنے والی بھی عورتیں ہوتیں۔ عرش آشیانی کے زمانے کا مینا بازار مجھے پسند نہیں کہ پردے والی عورتوں میں بادشاہ اور اُن کے مصاحبین و اُمرا سب گھس پڑیں۔
جہاں پناہ : مگر حضرت عرش آشیانی نے اپنا مینا بازار بڑی مصلحت سے
مینا بازار صفحہ 12
کھولا تھا۔ اگر خود وہ اور اُن کے ہمراہی اُس بازار میں جا کے خریداری نہ کرتے تو عورتوں کو اتنا فائدہ ہرگز نہ ہوتا۔ اور عورتوں نے جس نفاست و سلیقہ شعاری سے اپنی دکانوں کو بادشاہ کے آنے کے شوق میں سنوارا اور آراستہ کیا تھا، یوں ہرگز نہ سنواریں گی۔
تاج محل : یہ سب فائدے ایک طرف اور یہ خرابی ایک طرف کہ عورتو اور مردوں کے ملنے سے بدکاری بڑھے گی۔ صدہا فتنے پیدا ہوں گے۔ کوئی غیر مرد کسی کی جورو پر فریفتہ ہو کر اُس کے شوہر کا دشمن ہو جائے گا اور اُس کو اُس کے گھر سے نکالنا چاہیے گا۔ کوئی عورت کسی غیر مرد کی شیفتہ ہو کر اپنے شوہر اور بچوں تک کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ ان باتوں سے جیسے جیسے فساد ہوں گے، وہ اُن ظاہری فائدوں سے بدرجہا زیادہ بڑے ہوئے ہوں گے۔
جہاں پناہ : بیگم تم نے برائیوں کی بہت ہی ناقابل برداشت تصویر میری آنکھوں کے سامنے بنا کے کھڑی کر دی۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت عرش آشیانی کے عہد میں اس بازار کی وجہ سے کوئی ایسی خرابی نہیں پیدا ہوئی تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہمارے شریفوں اور امیروں کی بیویاں ایسی نفس پرست و بدکار نہیں ہیں جیسا تم انہیں بتاتی ہو۔
تاج محل : کون جانتا ہے کہ خرابی نہیں پیدا ہوئی۔ صدہا فساد ہوئے ہوں گے مگر ایسی باتوں کو شریف لوگ جہاں تک ممکن ہوتا ہے دباتے اور چھپاتے ہیں۔ اور اس مینا بازار کا سب سے بڑا فساد تو سب ہی جانتے ہیں کہ اُسی کی بدولت حضرت جنت مکانی کے دل میں مہر النسا کا شوق پیدا ہوا۔ اُن کا شوہر شیر افگن خان جان سے گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہان بن گئیں۔
جہاں پناہ : (قہقہہ مار کے) یہ مینا بازار سے نہیں ہوا بلکہ جنت مکانی والد مرحوم کی رنگیلی طبیعت کا تقاضا تھا۔ اور ایسی باتیں کسی نہ کسی طریقے سے سب ہی بادشاہوں کو پیش آ جاتی ہیں۔
تاج محل : ہاں پیش آ جاتی ہیں۔ اور اس نئے مینا بازار سے آپ کو پیش آ جائیں تو۔
مینا بازار صفحہ 13
جہاں پناہ : دیکھو تم وعدہ کر چکی ہو کہ بدگمانی نہ کرو گی۔ اور تمہیں مجھ سے ایسی بدگمانی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تمہارے ہوتے ممکن نہیں کہ میں کسی عورت پر آنکھ ڈالوں۔ تم میرے دل و جان کی مالک ہو۔ سلطنت تمہارے اختیار میں ہے۔ اور میرے بعد تمہارا ہی بیٹا ہندوستان کا تاجدار ہو گا۔
تاج محل : ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میری زندگی آپ کے دم کے ساتھ ہے۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ میں کسی بیٹے کا زمانہ دیکھوں۔ میری پانچوں وقت کی نماز کے بعد یہی دعا رہتی ہے کہ آپ کے سامنے مروں اور آپ کے ہاتھوں ٹھکانے لگوں۔
جہاں پناہ : تمہاری چاہے یہ تمنا ہو، مگر میری زندگی بغیرتمہارے بے مزہ ہو جائے گی۔ مجھے سلطنت کا لطف صرف تمہارے وجہ سے آتا ہے۔ اب ان باتوں کو چھوڑو جن کا خیلا آنے سے دنیا بے کار اور بینا بے مزہ نظر آنے لگتا ہے۔ اور خیر اگر تم مینا بازار کو نہیں پسند کرتیں تو میں اُس کے خیال سے باز آ جاتا ہوں۔
تاج محل : (مُسکرا کے) میں فقط آپ کے چھیڑنے کے لیے کہتی تھی۔ ورنہ میرا تو یہ کا ہے کہ آپ کو جس چیز کا شوق ہو اُسے جس طرح بنے پورا کروں۔ جب اگلے دنوں جوانی میں آپ پر بدگمانی نہ ہوئی تو اب کیا ہو گی۔ اس مینا بازار کو شوق سے کھولیے۔ میں مانع نہیں ہوں۔
جہاں پناہ : مانع ہونا کیسا، میں تو چاہتا ہوں کہ میرے عہد کے مینا بازار کو تم ہی قائم کرو۔ تمہارے ہی طرف سے اس کا اعلان ہو۔ تمہارے ہی حکم سے شہر کے باہر اُس کی عمارت بنے۔ اور تم ہی اپنے ہاتھ سے اس کا افتتاح کرو۔
تاج محل : آپ کی خوشی کے لیے میں ان سب کاموں کے کرنےکو تیار ہوں۔ مگر مجھ سے وعدہ کیجیے کہ کسی عورت پر آپ بُری نگاہ نہ ڈالیں گے۔ شیطان انسان کے پاس ہی رہتا ہے اور ذرا بھی کمزوری پاتا ہے تو بہکا دیتا ہے۔ بازار کو سجا کے دولہن بنا دیا۔ اور ہر قسم کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دیان میرا کام ہے۔ مگر آپ کا یہ کام ہے کہ کسی خوبصورت عورت کو دیکھیں قدم کو لغزش نہ ہو۔ یہ وعدہ میں فقط اپنے لیے نہیں لیتی۔ میں تو جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی۔ اور کوئی آئے گی بھی تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے کہ میرے دل میں بہت کم
مینا بازار صفحہ 14
ہوسیں رہ گئی ہیں۔ میں یہ وعدہ آپ ہی کے بھلے کے لیے لیتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سے کسی عورت کو پردہ نہ کرنا چاہیے کس اطمینان پر کہا جاتا ہے؟َ اس اطمینان پر کہ بادشاہ ساری رعایا کا محافظ اور سب کی آبرو بچانے والا ہے۔ آپ اس بازار میں آئیں تو دل میں یہ خیال جما لکیں کہ ان عورتوں میں جتنی بڑھیاں ہیں آپ کی مائیں ہیں، جوانیں آپ کی بہنیں ہیں اور کنواری لڑکیاں آپ کی بیٹیاں ہیں۔
جہاں پناہ : میں اپنے ملک ی تمام عورتوں کو ہمیشہ ایسا ہی سمجھا کیا۔ اور اس مینا بازار میں تمہارے کہنے سے خاص طور پر اس کا خیال رکھوں گا۔
تاج محل : تو پھر اس مینا بازار کے بعد ساری رعایا میں آپ کا اعتبار اور بڑھ جائے گا۔
جہاں پناہ یہ تو پھر میری خواہش کے مطابق تم مینا بازار قائم کرنے کو تیار ہو؟
تاج محل : دل و جان سے اور مجھے یقین ہے کہ یہ بازار عورتوں کے لیے ایک بڑی بھاری نعمت ہو گا۔ اُن کو اس سے بہت فائدے پہونچیں گے۔
جہاں پناہ : تو پھر کل ہی اُس کی عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بازار کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے جاری ہو جائے۔ اور دنیا میں ہمیشہ کے لیے تمہاری یہ یادگار قائم رہے۔ یہ عمارت مستقل طور پر اسی کام کے لیے محفوظ رہے۔ اور ہر سال کسی مناسب موسم میں اس نیں زنانہ بازار لگا کرے۔
تاج محل : میں بھی ہر سال اس کے لیے خاص اہتمام کیا کروں گی۔ لیکن یہ بازار اُسی وقت تک ہے جب تک آپ سے یا آپ کے کسی شہزادے یا امیر سے کوئی بے اعتدالی نہ ظاہر ہو۔ اس لیے کہ اگر اس سے کوئی خرابی پیدا ہوئی تو پھر میں اُسے اچھا نہ کہوں گی۔ اور ہرگز نہ پسند کروں گی کہ دنیا میں کوئی بد اخلاقی کی چیز میرے یادگار سمجھی جائے۔
جہاں پناہ : ان شاء اللہ کوئی خرابی نہ ہو گی۔ اور جب میں خود احتیاط کروں گا اور نگرانی رکھوں گا تو کسی کی مجال نہیں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ ڈالے۔
مینا بازار صفحہ 15
تاج محل تو بہتر ہے۔ کل ہی میری طرف سے میر عمارت کو حکم دیدیجیے کہ اس عمارت کے لیے ایک اچھا اور مناسب نقشہ تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں۔ اور اسے بعد اتنی جلدی اس عمارت کو تیار کر کے کھڑا کر دیں کہ اب کی فصل بہار میں یہ بازار کھول دیا جائے۔
جہاں پناہ : میں بہت جلد اس عمارت کو تعمیر کرواؤں گا۔ اور اُس کا نقشہ تین ہی چار روز میں بن جائے گا۔
حضرت صاحبقران ثانی کے دل میں مینا بازار کا خیال اس طرح جم کے بیٹھ گیا تھا کہ راب بھر بار بار نیند اُچٹ جاتی۔ اور جب آنکھ کھلتی اُسی کا خیال ہوتا اور صبح کو نماز سے فارغ ہوتے ہین جب تک ممتاز الزمانی نواب تاج محل صاحبہ کی طرف سے اس عمارت کی تعمیر اور بہت جلد اُس کے نقسے کی تیاری کا حکم جاری کرا لیا، باہر دربار میں نہیں تشریف لائے۔
برآمد ہوتے ہی امراے دولت کو بُلوا کے ملکۂ زمانہ کے حکم سے آگاہ کیا۔ اور میر عمارت کو بلا کے حکم فرمایا کہ دو ہی تین دن کے اندر نقسہ بنا کے محتشم الیہا کے ملاحظے میں پیش کر دیں۔ ساتھ ہی اس کا بھی اعلان کرا دیا کہ "اب کی موسم بہار میں نواب ممتاز محل صاحبہ شہر کے باہر ایک نہایت عالیشان مینا بازار کھولیں گی۔ تمام ہندو مسلمان امرا و معززین کی بیویوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ چند ماہ پیشتر سےاس لیے اعلان کر دیا گیا کہ ملک کی تمام سلیقہ والی بیویاں اس بازار میں لانے کے قیمتی جواہرات اور اپنی دستکاری کی نادر چیزیں تیار کر لیں۔ اور دوسرے شہروں اور صوبوں کی جو خاتونیں آنا چاہیں وہ سفر کے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس بازار میں ملک کی ہنر والی عورتوں کو دولت حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع ہے۔ اس کیے کہ مُنہ مانگے دام دیئے جائیں گے۔ جس تاریخ بازار کھولا جائے گا، اُس سے بعد اطلاع دیجائے گی۔
اس اعلان کے ہوتے ہی تمام گھروں میں ایک عجیب جوش و شوق کے مطابق فروخت کرنے کی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ امر گھرانوں کی عورتیں اپنے
مینا بازار صفحہ 16
وضع و لباس کے متعلق طرح طرح کی تراش خراش اور ایجادیں کرنے لگیں۔
تیسرا باب
اُس کی تعمیر و تزئین
تیسرے ہی روز مینا بازار کی عمارت کا نقشہ ملکۂ زمانہ نواب ارجمند بانو بیگم کے ملاحظہ میں پیش ہوا۔ بادشاہ اور بادشاہ بیگم نے اُس پر خوب غور کیا۔ محل کی مرزز و نفیس مزاج عورتوں اور بعض وزرا و امرا کی بیگموں کو بھی دکھا کے مشورہ لیا۔ اور ایک ہی ہفتہ کے اندر مناسب ترمیموں کے بعد وہ نقشہ میر عمارت کو واپس دیا گیا کہ اسی کے مناسب عالیشان عمارت بہت جلد تعمیر کرا دیں۔
اب حضرت جہاں پناہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ میں دو تین بار بذات خود تشریف لے جا کے ملاحظہ فرماتے کہ عمارت کتنی بنی اور کس عجلت کے ساتھ تعمیر کا کام جاری ہے۔ محل کے اندر ہوتے تو اکثر تاج محل صاحبہ سے اسی مینا بازار کا تذکرہ رہتا۔ اُس کی آراستگی اور زیب و زینت کی چیزوں پر غور کیا جاتا۔
تقریباً تین مہینے میں عمارت مکمل ہو گئی۔ اور ساتھ ہی اُس کی سجاوٹ بھی ہو گئی۔ ڈیوڑھی کی جگہ ایک بہت بڑا وسیع احاطہ رکھا گیا تھا۔ جس کے ہاتھ گھوڑے رتھیں بہلین اور ہر قسم کی سواریاں بہت آسانی سے جا سکیں۔ احاطے کے گردا گرد تقریباً سو سوا سو کوٹھریاں تھیں، جو اس مقصد سے بنائی گئی تھیں کہ اُن میں رتھیں اور گاڑیاں رکھی جائیں۔ بیل یا گھوڑے باندھے جائیں۔ داخل ہونے کے دروازے کے پاس اندر کی طرف فیل خانہ کے طور پر بہت بلند مکانات تھے۔ تاکہ ان میں ہاتھ باندھے جائیں۔ غرض جو عالیمرتبہ شاہزادیاں اور بیگمیں آئیں ان کی سواریوں کے ٹھہرانے اور رکھنے کے لیے یہ احاطہ کافی تھا۔