ذوالقرنین

لائبریرین
براہوئی ادب سے ماخوذ:

میر سمندر خان


میر محراب خان کے دو لڑکے تھے، میر احمد خان اور میر عبداللہ خان۔ دونوں لڑکے خورد سال تھے۔ اس لیے میر محراب خان نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ اس کے بعد میر سمندر خان کو خانِ قلات مقرر کیا جائے۔ بلوچ قبائل اور سرداروں نے میر محراب خان کی اس آخری خواہش کی تکمیل کی۔ چنانچہ 1697ء میں میر محراب خان کی وفات پر میر سمندر خان قلات کا خان مقرر ہوا۔
میر سمندر خان، میر محراب خان کے چھوٹے بھائی میر قمبر خان کا بڑا لڑکا تھا۔ نہایت سخی، بہادر اور شریف تھا۔ بلوچ آج تک اسے سخی سمندر کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں، چنانچہ آج تک اس کے مزار پر زائرین کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔
چکو کی لڑائی میں داؤد محمد اور نور محمد کلہوڑے گرفتار ہو کر قلات لائے گئے تھے۔ شہزادہ معز الدین کو میر محراب خان کے مارے جانے اور کلہوڑوں کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی تھی۔ داؤد محمد اور نور محمد کلہوڑے جو کہ میر سمندر خان کے قید میں تھے۔ ایک دن موقع پا کر فرار ہو گئے۔ راستہ سے ناواقف تھے، اس لیے کئی دن تک پہاڑوں میں در بدر بھٹکتے رہے اور آخر کار پھرتے پھراتے ایک دن جوہان میں جا نکلے۔ میر سمندر خان کے آدمی ان کے تعاقب میں کسی اور طرف کو نکل گئے تھے۔ خیار لاہڑی نے داؤد محمد اور نور محمد کلہوڑے کو جوہان میں دیکھ کر پہچان لیا اور تعاقب کنندگان کو ان کی اطلاع کر دی۔ دونوں بھائی گرفتار کرکے دوبارہ قلات لائے گئے۔ میر سمندر خان نے اس دفعہ ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ لیکن آخوند محمد صالح وکیل نے خان صاحب کے حضور میں گزارش کی کہ قیدی کو قتل کرنا بادشاہوں کا کام نہیں اور بتلایا کہ ایسا کرنا بلوچوں کی حکومت پر ایک بدنما دھبہ ہوگا۔ آخوند نے جان بخشی کے لیے اپنی پگڑی کلہوڑا بھائیوں پر ڈالدی۔ میر سمندر خان کو آخوندوں کی عزت کا بڑا خیال تھا۔ یہ پگڑی بلوچ روایات کے مطابق آخوند کی عزت تھی۔ خان صاحب نے اس کی قدر کی اور کلہوڑا بھائیوں کے قتل کا حکم واپس لے لیا۔ کلہوڑا بھائیوں نے سمندر خان سے معافی مانگ لی اور آئندہ خان قلات کے ماتحت رہنے کا حلف اٹھا کر چالیس ہزار روپے سالانہ بطور خراج خانِ قلات کو دینے کا بھی اقرار کر لیا۔
کچھ دنوں کے بعد میر سمندر خان کلہوڑا بھائیوں کو ساتھ لے کر شہزادہ معزالدین کی خدمت میں ملتان گیا۔ شہزادہ معزالدین، میر سمندر خان کی جوان مردی اور وفادارانہ خدمات سے بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی خدمت میں میر سمندر خان کی سفارش بھیجی اور کلہوڑوں کے لیے بھی معافی طلب کی۔ شہنشاہ ہند اورنگ زیب عالمگیر نے میر سمندر خان کی خدمات کو نوازا اور ایک لاکھ روپے نقد بطور انعام میر سمندر خان کو دینے کا شہزادہ معزالدین کے نام حکم صادر فرمایا۔ اس کے علاوہ کراچی کی بندرگاہ، میر محراب خان کے خون بہا میں کلہوڑوں سے لے کر میر سمندر خان کو عطا کرنے کا حکم جاری فرمایا۔ نیز کلہوڑا برادران کو اس شرط پر معافی دئیے جانے کا حکم ہوا کہ کلہوڑا برادران، خان بلوچ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے وعدہ پر کاربند رہیں گے۔
روایت ہے کہ جب شہزادہ معز الدین نے شہنشاہ ہند کے حکم سے ایک لاکھ روپے میر سمندر خان کو پیش کیے تو خان صاحب نے یہ رقم اسی دن اپنے سرداروں اور لشکریوں میں تقسیم کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر شہزادہ معز الدین نے ایک لاکھ روپے اور اپنی طرف سے بطورِ مہمانی خان صاحب کے لیے یہ کہہ کر آخوند صالح محمد کو دئیے کہ " سمندر اپنے عہد کا حاتم ہے یہ رقم اس کی زاد راہ کے لیے چھپا کر رکھ دو۔" مگر سمندر خان نے اس رقم پر بھی ہاتھ صاف کردیا۔ بصد مشکل آخوند صالح محمد کی منت سماجت پر معمولی سا حصہ اپنے لیے رکھ کر پھر بلوچوں پر تقسیم کر دی۔
شاہِ ایران کو عرصہ سے یہ خیال تھا کہ مستنگ (مستونگ) اور قلات تک کا تمام علاقہ اور درہ بولان تا حدِ کچھی اس سلطنت کا ایک جزو ہے، چنانچہ اسی زعم باطل میں شاہ ایران نے 1698ء میں اپنا ایک جرار لشکر طہماسپ بیگ سپہ سالار کی سرکردگی میں اس علاقہ کی تسخیر پر مامور کرکے بھیجا۔
میر سمندر خان اب تک ملتان میں تھا کہ اسے طہماسپ بیگ کے حملہ کی اطلاع ملی۔ شہزادہ معز الدین سے مرخص ہو کر میر سمندر خان رات دن ایک کرتے ہوئے کھڈکوچہ مستنگ پہنچا۔ چند دنوں کے اندر اندر تیس ہزار بلوچ مسلح اور جنگ آزمودہ ان کے پاس جمع ہوئے۔ طہماسپ بیگ چاغی، نوشکی اور کردگاپ وغیرہ علاقوں کو تاخت و تاراج کرتا اور روندتا ہوا کانک کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ میر سمندر خان نے کھڈکوچہ مستنگ سے بڑھ کر سریاب (مستونگ) کے مقام پر طہماسپ بیگ کے ٹڈی دل سپاہ کو روکا۔ تین دن تک گھمسان کا رن پڑا۔ میدانِ جنگ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ چوتھے دن جب کہ لڑائی عین شباب پر تھی، خان صاحب کی نگاہ ایرانی سپہ سالار طہماسپ بیگ پر پڑی۔ بلوچوں کا یہ نمد پوش خان گھوڑا بڑھا کر ایرانی صفوں کو چیرتا ہوا قوی ہیکل اور آہن پوش ایرانی سپہ سالار کے سامنے آ پہنچا اور اسے للکار کر گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ ایرانی سپہ سالار اب تک سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ میر سمندر خان کا بھرپور وار اس کی گردن پر پڑا۔ طہماسپ بیگ کا سر تن سے جدا ہو کر گیند کی طرح زمین پر لڑھکنے لگا۔ سپہ سالار کا گرنا تھا کہ ایرانی سپاہ میں بھگڈر مچ گئی۔ ہر کسے بکوے فرار ہو ہوا۔ بلوچوں نے بہت دور تک ان کا تعاقب کیا۔ ایرانیوں کو سخت ترین شکست ملی۔ اس شکست کے بعد انہوں نے پھر کبھی بلوچستان کی تسخیر کا ارادہ نہیں کیا۔ اس لڑائی میں بلوچوں کو ایرانیوں سے کثیر تعداد میں اسلحہ جنگ، گھوڑے، خیمے اور سامانِ رسد ہاتھ آیا۔
میر سمندر خان نے اپنی فتح کا حال شہزادہ معز الدین کو لکھا۔ شہزادہ مذکور کے توسط سے شہنشاہ ہندوستان کو اس کی اطلاع ہوئی۔ اورنگ زیب عالمگیر نے انتہائی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے خزانہ عامرہ سے میر سمندر خان، خان بلوچ کے لیے دو لاکھ روپے سالانہ تنخواہ مقرر کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔
میر سمندر خان کا چھوٹا بھائی میر قلندر خان کسی بات پر خان صاحب سے ناراض ہو کر مستنگ چلا گیا اور مستنگ میں چند بدمعاش افراد کو ساتھ ملا کر اس نے قلات پر ڈاکے ڈالنے شروع کیے۔ آخرکار میر قلندر خان کی دراز دستیوں سے مجبور ہو کر خان صاحب اس کی سرکوبی کو نکلا۔ دونوں بھائیوں میں دو بدو لڑائی ہوئی۔ جس میں میر قلندر خان، خان صاحب کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے آدمی گرفتار ہو کر کیفر کردار کو پہنچا دئیے گئے۔
میر سمندر خان نے بوری ژوب اور تل چوٹالی پر متعدد حملے کیے۔ ان حملوں کی وجہ لوٹ مار کے سوا کچھ نہ تھی۔ کئی بار اپنے قبائل لشکر کے ساتھ خان صاحب نے ان علاقوں کو تاخت و تاراج کیا۔ بلوچوں کا گزارہ اسی پر تھا۔ جب پہلا اندوختہ ختم ہوتا تو خان کے پاس جمع ہونے لگتے اور پھر اسے ساتھ لے کر کسی اور علاقہ پر چڑھ دوڑتے اور چند مہینوں کا گزارہ لے آتے، اس کے بعد پھر وہی سلسلہ جاری رہتا۔
میر سمندر خان 1714ء میں بمقام قلات فوت ہوا۔ اس نے تقریبا اٹھارہ سال حکومت کی اور رعایا کو حتی الوسع خوشحال رکھنے کی کوشش کی۔ میر سمندر خان انتہائی سخی بلکہ اپنے زمانے کا حاتم مشہور تھا۔ قبائل میں اپنی شجاعت، راست بازی اور خدا ترسی کی وجہ سے ان کی بہت بڑی عزت تھی اور یہاں تک کہ کئی عقیدت مند ان کو بزرگ اور اولیاء اللہ مانتے تھے۔ چنانچہ آج تک بھی ان کا مزار زیارت گاہِ خلائق ہے اور یہی ان کی دلعزیزی کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔

میر گل خان نصیر ۔ تاریخ بلوچستان​
 
Top