میر میر تقی میر اور سیلابی اشعار

زیف سید

محفلین
آج کل پاکستان کے سیلاب کے پیشِ نظر میر تقی میر کا یہ مصرع بار بار دہرایا جاتا ہے

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

اس مصرعے کو پروین شاکر نے بھی اپنی غزل میں استعمال کیا ہے

اے آنکھ، اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

کھرے اور کھوٹے کا فرق جاننے کے لیے میر کا پورا شعر بھی سن لیجیئے:

کن نیندوں سووتی ہے تو اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

اسی غزل میں ایک اور شعر بھی ہمارے مفید مطلب ہے:

نے دل رہا بجائے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا

میر کے ہاں خاصی بڑی تعداد میں اسی قسم کے “سیلابی“ اشعار پائے جاتے ہیں۔چند مثالیں پیش ہیں:

سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا

نیز

اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے

نیز

کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہہ کے جا لگے

نیز

کیا جانوں چشمِ تر کے ادھر دل پہ کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی

دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ سیلاب اور طغیانی کے موضوع پر میر یا کسی اور اردو شاعر کے اشعار یہاں درج کریں۔ پیشگی شکریہ۔

زیف
 

شمشاد

لائبریرین
بیٹھنے دیتا نہیں مجھ کو کنارے پہ کبھی
مجھ میں پوشیدہ یوں سیلاب لیے پھرتا ہے
(نزہت عباسی)
 

شمشاد

لائبریرین
یار ہی تیز نظر تھے شاید
ہم تری بات کہاں کہتے تھے

رام جب وقت کا سیلاب آیا
لوگ تنکوں کی طرح بہتے تھے
(رام ریاض)
 

شمشاد

لائبریرین
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
(چچا)
 

زیف سید

محفلین
بہت شکریہ جناب۔

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
(چچا)

شعر تو بہت اعلیٰ ہے جسے پڑھ کر بے ساختہ منھ سے واہ نکلتی ہے، لیکن چچا جان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت اونچی ہواؤں میں اڑتے ہیں، زمین پر قدم دھرتے ہیں نہیں، اس لیے ان کے اشعار میں اس طرح کی ٹھوس، زمینی، حسیاتی اور جذباتی منظر کشی کم کم ہی ملتی ہے جو جنابِ میر کا خاصا ہے اور جو موضوعِ زیرِ بحث کے اشعار سے انصاف کر سکے۔

مثلاً میر کا “سناہٹے۔۔۔“ والا شعر ہی دیکھ لیجیئے، کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ نظروں کے سامنے تصویر پھر جاتی ہے۔ اس کے مقابلے پر چچا جان کا مندرجہ بالا شعر رکھیں جس میں اتنی تجریدی مبالغہ آرائی ہے کہ قاری ذہنی قلابازیاں کھاتا رہ جاتا ہے اور شعر میں بیان کردہ پیکر متشکل نہیں ہو پاتا۔ محبوب کا کرم (ملاحظہ ہو کہ محبوب نہیں، بلکہ اس کا کرم زیرِ بحث ہے) بارش کا بہانہ کر کے نہیں آیا تو محبوب کے فراق میں (یا اس کی دھوکا بازی پر) ہم اس قدر روئے کہ ہمارے تکیے کی روئی سیلاب کی جھاگ کا منظر پیش کرنے لگی۔ ظاہر ہے کہ کوئی مصور بقائمیِ ہوش و حواس اس منظر کو مصور کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

زیف

وضاحت: ان سطور کا مطلب اردو کے ان دو بڑوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا نہیں بلکہ دونوں کے اپنے اپنے مخصوص طرزِ سخن کو سمجھنے کی کوشش ہے۔
 
Top