میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
ملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہے
تو آ کے مل نہ مل یہ ترا اختیار ہے

جس جس کے پاس دوستو جس جس کا یار ہے
بہتر چمن سے گھر میں اسی کے بہار ہے

تم زخم دل کی میرے خبر پوچھتے ہو کیا
تیر نگاہ دل کے تو اب وار پار ہے

گر دشمنی پہ دوست نے باندھی مرے کمر
دشمن ہے اب جو کوئی مرا دوست دار ہے

لگتی نہیں پلک سے مری اب ذرا پلک
آنے کا اس کے جب سے مجھے انتظار ہے

اے شہسوار اس کو بھی کر لے تو اب شکار
یہ صید دل بھی عمر سے امیدوار ہے

یہ کچھ تو حال تیرے دیوانے کا اب ہوا
جیدھر کو جاوے آہ اسے مار مار ہے

اے گل تجھے عزیز ہوں رکھتا میں اس لیے
یعنی کہ تجھ میں ایک رمق بوئے یار ہے

یہ کس کے دل کو چھین کے کرتے ہیں پائمال
ان ظالموں کا آہ یہی کاروبار ہے

آصفؔ خدا کے واسطے مت دے بتوں کو دل
یہ وہ ہیں جن کے قول کا کیا اعتبار ہے

آصف الدولہ
 

سیما علی

لائبریرین
ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب
وہی رضا ہے ہماری جو ہے رضائے حبیب

نہ سمجھوں اپنا کسی کو رقیب رشک سے میں
وہ میرا دوست ہے جو ہووے آشنائے حبیب

وہ خواہ قتل کرے خواہ میری جاں بخشے
کہ مرگ و زیست پہ مختار ہے رضائے حبیب

نہ تیغ یار سے گردن پھراؤں میں ہرگز
کہ عین لطف سمجھتا ہوں میں جفائے حبیب

پتنگے شمع کے صدقے ہوں بلبلیں گل پر
کوئی کسی کے فدا ہو میں ہوں فدائے حبیب

بہشت کی مجھے ترغیب دے نہ تو واعظ
کسی کی مجھ کو تمنا نہیں سوائے حبیب

ہمیشہ مجھ سے وہ کہتا تھا مر کہیں حسرتؔ
ہزار شکر پذیرائی ہوئی دعائے حبیب

جعفر علی حسرت
 

سیما علی

لائبریرین
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر
اے دردؔ آ کے بیعت دست سبو کریں
 

سیما علی

لائبریرین
کُھلا ہے جُھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
سکُوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اِظہار، آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں
چُھپائے سے کہیں چُھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئینۂ بردار، آؤ سچ بولیں
 

شمشاد

لائبریرین
چمکا ہے یوں نصیب کا تارا کبھی کبھی
ہم کو تو خود اسی نے پکارا کبھی کبھی

لے ڈوبتا ہے دل کو سہارا کبھی کبھی
منجدھار بن گیا ہے کنارا کبھی کبھی

یہ بھی ہوا ہے حال ہمارا کبھی کبھی
اپنے کو ہم نے آپ پکارا کبھی کبھی

اپنے سے بے نیاز ہوا جا رہا ہوں میں
سن سن کے تم سے حال تمہارا کبھی کبھی

ساتھ اپنے شام ہجر کے جاگوں کہ آس بھی
لے ڈوبتا ہے صبح کا تارا کبھی کبھی

طوفاں سے بچنے والے بہت شادماں نہ ہو
کشتی پہ پھٹ پڑا ہے کنارا کبھی کبھی

منظرؔ شکایتوں کی تلافی ضرور ہے
اک سجدہ شکر کا بھی خدارا کبھی کبھی
(منظر لکھنوی)
 

شمشاد

لائبریرین
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
 

شمشاد

لائبریرین
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
اکبر الہ آبادی
 
Top