تعارف میرے شیخ نانا جان محترم: علیم الدین بلخی

رمان غنی

محفلین
مجھے نہیں معلوم کہ یہ تحریر کب کی ہے، لیکن اس میں ایک جگہ لکھا ہے کہ کچھ سالوں سے حکیم صاحب کی بینائی تقریباِ ختم ہوگئی ہے۔ حالانکہ اب تو نانا جان بالکل ہی نہیں دیکھ سکتے۔


حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی

سید شاہ علیم الدین بلخی ابن حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی ۱۹ دسمبر ۱۹۲۳ء کو فتوحہ ( ضلع پٹنہ ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور وسطی تعلیم ندوۃ العلماء لکھنو اور مدرسہ الٰہییات کانپور سے حاصل کی۔ابتدائی تعلیم علی گڑھ طبیہ کالج اور نظامیہ طبی کالج حیدر آباد سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ میں داخلہ لیا۔ تکمیل تعلیم کے بعد وہیں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ پرنسپل ہوئے۔ اسٹیٹ فارمیسی آف آیورویدک اینڈ یونانی میڈیسن ، بہار کے منیجر بنے، ڈین فیکلٹی آف یونانی میڈیسن بہار یونیورسٹی رہے۔ اور ریٹائر منٹ کے بعد خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ ، پٹنہ سیٹی کی سجادہ نشینی وراثت میں ملی جس کے توسط سے حکمت فقر و زہد او رتوکل و سلوک کی خاندانی روایت کو برقرار رکھنے میں مشغول ہیں۔

سید علیم الدین بلخی کا خاندانی پس منظر قابل رشک رہا ہے۔ سلطان ابن ادھم بلخی کی چھٹی پشت میں ایک بزرگ سید شمس الدین بلخی گذرے ہیں جنہوں نے بلخی کی بادشاہت ترک کرنے کے بعد بہار شریف (موجودہ ضلع نالندہ) آکر مخدوم احمد چرم پوشؒ سے بیعت کر لی تھی۔ سید شمس الدین بلخی کے بڑے لڑکے حضرت مظفر شمس بلخی کو حضرت مخدوم شرف الدین بہاری کے مرید اور خلیفہ خاص ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس طرح بلخی خانوادہ کا ایک روحانی سلسلہ فردوسیہ کے نام سے جاری ہوا جو آج بھی خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ پٹنہ کی شکل میں موجود ہے۔ اس خانوادے میں تصنیف و تالیف کے اعتبار سے حضرت مخدوم حسین نوشہ توحید کا نام سب سے ممتاز ہے جن کی درجنوں تصانیف لائبریریوں اور ذاتی کتب خانوں کی زینت ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ان کی تصنیف ’’ حضرات خمس‘‘ بر صغیر ہند و پاک میں تصوف کے موضوع پر لکھی گئی پہلی عربی کتاب ہے۔ اس کی شرح’’ کاشف الاسرار‘‘ کے نام سے فارسی میں لکھی گئی ہے۔ سید علیم الدین بلخی نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے نہایت مدلل انداز میں یہ واضح کیا ہے کہ عام طور سے شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش لاہوری کی کتاب ’’ کشف المحجوب، کو عربی زبان میں تصوف کے موضوع پر لکھی گئی پہلی کتاب مانا جاتا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخش نے اپنی دیگر عربی تصانیف کے بر خلاف اسے فارسی زبان میں تصنیف کیا تھا۔ یہاں شاہ علیم الدین کے والد بزرگوار شاہ محمد تقی بلخی کی کتاب’’ احکام المعروف بہ’’ قصہ ہندی‘‘ کا تذکرہ بھی ضروری ہے جسے ہندستان میں فقہ پرلکھی گئی پہلی اردو کتاب ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ پروفیسر اختر اورینوی کی کتاب ’’ بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا‘‘ … میں اس کا ذکر موجود ہے۔ مختلف کتابوں کے مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت مظفر شمس بلخی شاعر بھی تھے اور برہان تخلص کرتے تھے۔ اس روایت کی پاسداری سید علیم الدین کے والد بزرگوار نے بھی کی اور عاصی تخلص اختیار کیا۔ ان کی نثری تخلیقات میں تصوف ،فلسفہ اور علم کلام کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کو بے مثال مانا جاتا ہے۔ حکیم سید علیم الدین بلخی کی ایک کتاب’’ چار مقالے‘‘ ۱۹۵۷ء میں منظر عام پر آئی۔ سنٹرل کائونسل برائے طب یونانی نئی دہلی کے نصاب پر مشتمل ایک کتاب زیر طباعت ہے۔ اپنے خانوادے کی علمی وجاہت اور امتیاز کو باقی رکھتے ہوئے انہوں نے مختلف مذہبی، علمی ، ادبی، تنقیدی ، تاریخی اور سائنسی موضوعات پر مضامین لکھے ہیں جو آزادی ہند سے قبل اور بعد مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ طبابت خصوصاً یونانی طریقہ علاج سے متعلق طویل مقالوں کی اشاعت ہے۔ اس نوعیت کے چند اہم مقالوں کی فہرست درج ذیل ہے۔ شاید یہ بتانا ضروری نہیں کہ اردو زبان میں اس طرح کی تحریروں کی کتنی ضرورت ہے۔

(۱) روزہ کے طبی فوائد، طبی میگزین کراچی، اپریل ۱۹۵۷ء (۲) آزاد ہندستان میں دیسی طریقہ علاج کی اہمیت، پندرہ روزہ مسیحا، ممبئی۔ جمہوریہ نمبر۔ جنوری ۱۹۶۱(۳)ایک قیمتی اور نا قابل تقسیم ورثہ مسیحا ممبئی آزادی نگر ۔ اگست ۱۹۶۳ء (۴) بصائر و عبعر ، طب یونانی کے اخطاط پر ایک نظر۔ رسالہ حسن و صحت، کلکتہ فروری مارچ۔ ۱۹۶۴ء (اسلام اور جنسیات۔ رسالہ حسن و صحت، کلکتہ سالگرہ نمبر۔ ۱۹۶۵ء ۔ (۶) شیخ الرئیس بو علی سینا کا مقام و فضل و کمال۔ رسالہ حسن و صحت، کلکتہ ۔ سالگرہ نمبر ۱۹۶۷ء (۷) سائنسی حیثیت سے طب یونانی پر ایک نظر، رسالہ حسن و صحت کلکتہ سالگرہ نمبر۔ ۱۹۶۸ء (۸) سونے کی تلاش) تاریخی طبی کہانی ( عربی سے ترجمہ ) رسالہ حسن و صحت کلکتہ۔ سالگرہ نمبر۔ ۱۹۶۹ء ،(۹) یونانی علم الادویہ تاریخ کے آئینہ میں، رسالہ حسن و صحت کلکتہ۔ سالگرہ نمبر۔ ۱۹۷۰ء (۱۰) الصوم الطبیہ ( عربی ) الرائبد لکھنو، جولائی ۱۹۸۲ء (۱۱) یونانی طریقہ علاج ۔ رسالہ حسن و صحت ، کلکتہ اگست ۱۹۶۹ء ،(۱۲) چند اہم طبی مشورے۔ رسالہ آواز دہلی۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۸۴ئ(۱۳) ادویہ تریاقتہ پر ایک نادر مخطوطہ ۔ خدا بخش لائبریری جنرل ۱۹۸۸ء (۱۴) ریسرچ کا مسئلہ طب یونانی میں مجلہ طبیب ۔ ۱۹۹۲ئ۔

گذشتہ چند برسوں سے حکیم صاحب کی بینائی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ مگر حافظہ بے حد قوی ہے۔ اس لئے مختلف علمی و ادبی مضامین اپنے عزیزوں کو املا کرانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔

(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد، ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ )

http://www.urduyouthforum.org/biography/Syed_Shah_Alimuddin_Balkhi_biography.php
 

تلمیذ

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ خوش قسمت ہیں آپ شیخ صاحب، کہ اتنی قابل اور اہل علم شخصیت کی اولاد میں سے ہیںؕ اللہ تعالےٰ آپ کو ہمت و توفیق دے کہ آپ ان کے کام کو آگے بڑھائیں۔ آمین!
 
Top