میری ڈائری کا ایک ورق

سیما علی

لائبریرین
ارشادہے:
’’ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو ، وہ تمہارے اوپر بہت ہی مہربان ہے اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنھیں تم پکارتے تھے سب گم ہوجاتے ہیں ، صرف وہی اﷲ باقی رہ جاتا ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے تو تم منھ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ، تو کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کی طرف لے جاکر زمین میں دھنسادے ، یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے ، پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پاسکو ، کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوکہ اﷲ تعالیٰ پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اورتمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے ، پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا دعویٰ ( پیچھا ) کرنے والا کسی کو نہ پاؤگے۔ ‘‘ ( الاسراء66،69)۔
 

سیما علی

لائبریرین
کسی بڑے کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے لیے قوی جواز اور قوی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ سفر پر جانا ہو تو پہلے جانے والے مسافروں سے حالات سفر معلوم کرلینا ضروری ہے۔ دریا کشتی کے ذریعے بھی عبور کرنا ہو تو تیرنے کا علم جاننا بہتر ہوتا ہے۔ بڑے کام کے لیے بڑی دلیل ضروری ہے۔ ہر کام ہر آدمی کا نہیں ہوتا۔ علم کا راستہ طے کرنے والے اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، تعلیم حاصل کرنے والے اور گھروں میں رہنے والے اور ہیں ، سفر اختیار کرنے والے اور۔ اللہ کی راہ میں نکلنے والے اور ہیں اور ان کا راستہ روکنے والے اور۔ قوی دلیل جذبہ شہادت تھا ، سجدہ شبیر تھا۔ بڑا کام تھا ، بڑی دلیل تھی ، بڑا جواز تھا ، بڑا نتیجہ ہے۔ بڑی بات ہے۔
واصف علی واصف۔
 

سیما علی

لائبریرین
جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،اُن کی مثال اُس دانے جیسی ہے جس سات خوشے پیدا ہوتے ہیں اور ہر خوشے میں سو دانے ہوتے ہیں۔(القرآن کریم)
 

سیما علی

لائبریرین
  • جس طرح نئے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ پرانے درختوں کی دیکھ بھال ضروری ہے اسطرح غیر مسلموں کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اصلاح بھی ضروری ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اگر کوئی کمزور شخص تمہاری بے عزتی کرے تو اُسے بخش دو چونکہ بہادروں کا کام معاف کر دینا ہے۔(حضرت سلمان فارسی)
 

سیما علی

لائبریرین
دینی مصلح کی کامیابی کے لئے روحانی آزادی لازمی ہے‘ جس طرح مصلحتوں کو پیش نظر رکھنے والا انسان خدائی اصلاح کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہوتا‘ جس طرح خود بیماری میں مبتلا انسان اپنے معاشرے کو شفا نہیں دے پاتا‘ اسی طرح نفسانی طمع اور لالچ کا بندہ بھی دوسروں کو معاشرتی اور روحانی زنجیروں سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔
بانو قدسیہ
(راجہ گدھ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
بحث کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل؟ میری بلا سے آپ چاہے کچھ سمجھتے ہوں مجھے اپنے نظریوں پر شکوک نہیں ہونے چاہئے۔ آپ اگر دنیا کو چپٹا سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی۔
بانو قدسیہ صاحبہ کے
(شہرِ بے مثال سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
بانو قدسیہ صاحبہ

(سامان وجود سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
تعلیم سے زیادہ ہمارا رویہ اہم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات ہماری تعلیم ناکام ہو جاتی ہے اور رویہ ہی معاملات سدھارتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
معلوم کا ہونا علم ہے اور اس علم کو کہاں پر، کیسے اور کس طرح بیان کرنا ہے یہ حکمت ہے اور علم بغیر حکمت کے بے کار ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
دنیا میں جو کچھ نعمتیں مالک حقیقی نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمائیں، ان میں مال ودولت یا عزت ووجاہت کسی کے بارے میں اضافہ کی تمنا کرنے کو نہیں کہا گیا صرف علم کے تئیں یہ تلقین کی گئی کہ اللہ سے مانگو ’’میرے رب مجھے اور زیادہ علم عطا فرما‘‘۔
تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب تک مسلمان اس فکر انگیز کتاب ’’قرآن حکیم‘‘ کو سرچشمۂ علم وعرفان سمجھ کر پڑھتے رہے، اس کے معنی ومفہوم پر غور وفکر کرکے اپنے علم و وجدان میں اضافہ کرتے رہے تو دنیا کے حقائق ومعارف کے رازہائے سربستہ ان پر کھلتے چلے گئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
میری ذات ذرّہ بے نشان

میں وہ کس طرح سے کروں بیان
جو کے گئے ہیں ستم یہاں
سنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان
جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں
نہیں کھولی مگر میں نے زبان
یہ اکیلا پن یہ اداسیاں
میری زندگی کی ہیں ترجمان

میری ذات ذرّہ بے نشان

کبھی سونی صبح میں ڈھونڈنا
کبھی اجڑی شام کو دیکھنا
کبھی بھیگی پلکوں سے جاگنا
کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا
مگر ایک پل ہے امید کا
ہے مجھے خدا کا جو آسرا
نہیں میں نے کوئی گلا کیا
نہ ہی میں نے دی ہیں دوہایاں

میری ذات ذرّہ بے نشان

میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے
مجھے صبر ہی کا صلہ ملے
کسی یاد ہی کی ردا ملے
کسی درد ہی کا صلہ ملے
کسی غم کی دل میں جگہ ملے
جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے
رہے شاد یونہی میرا جہاں
کہ یقین میں بدلے میرا گمان

میری ذات ذرّہ بے نشان
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام
عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے . (یا اس فقرہ کے بجائے حضرت نے یہ فرمایا کہ )صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے .
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر ,یقین ,عدل اور جہاد . پھرصبر کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق ,خوف ,دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ,وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ,وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ,وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی ,حقیقت رسی ,عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی .اور جس کے لیے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ,وہ عبرت سے آشنا ہوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ,تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ,وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ,وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف ,نہی عن المنکر ,تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بدکرداروں سے نفرت .چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ,اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ,اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ,اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
امیرالمومنین علی علیہ السّلام سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا ,تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو ,اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو ,وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو , اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
پھول کا تعارف اس کی خوشبو اور انسان کا تعارف اس کے کردار سے ہوتا ہے۔
دعا ہے کہ آپ ہمیشہ اچھے کردار کے ساتھ خوشبو کی طرح مہکتے رہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
راجندر سنگھ بیدی
کے افسانوں میں طنز اور مزاح کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔
انہوں نے معاشرے کی طبقاتی تقسیم، ریا کاری فریب اور سماجی ڈھانچے پر طنز کے کاری وار کیے ہیں۔ افسانہ ’’من کی من میں‘‘ سے سماج پر طنز کی مثال پیش کی جاتی ہے: ’’سماج میں اتنی دیا کہاں کہ جس چیز کو وہ خود دینے سے ہچکچاتا ہے اپنے کسی فرد کو دیتا دیکھے‘‘
 
Top